طغرل بیگ نے ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی، پھر تقریباً 26 سال تک راج کرنے کے بعد ایک ایسی ریاست چھوڑ گیا جس کی سرحدیں وسطِ ایشیا سے بحیرۂ روم کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھیں۔
لیکن ذہن میں رہے کہ پُر امن انتقالِ اقتدار اِس جدید دور کا انعام ہے، اب حکومت بدل جاتی ہے تو بغیر کسی ہنگامے کے اقتدار نئے حکمران کو منتقل ہو جاتا ہے۔ ماضی کے انسانوں کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ بادشاہ مر جاتا تو بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ اگلا حکمران امن و سکون کے ساتھ تخت پر بیٹھتا۔ تاج و تخت کے کئی دعویدار پیدا ہو جاتے اور پھر جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس! یعنی جو خود کو میدانِ جنگ میں ثابت کرتا، اقتدار کا مالک بن جاتا اور پھر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے کسی بھی انتہائی قدم سے دریغ نہ کرتا۔
حق بہ حقدار رسید
طغرل کے بعد سلجوق سلطنت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ طغرل نے اپنے ایک وزیر کے کہنے پر کم عمر بھتیجے سلیمان کو جانشیں بنا دیا جو الپ ارسلان کا سوتیلا بھائی تھا، وہ الپ ارسلان جو کہیں زیادہ حقدار تھا۔ پھر وہی ہوا، جس کی وجہ سے ملوکیت بدنام ہے، تخت کے کئی دعویدار میدان میں اترے کہ جس میں دَم خم ہے آگے بڑھ کر تاج و تخت حاصل کر لے۔ الپ ارسلان کو بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑا اور بالآخر اس نے ثابت کیا کہ عظیم سلجوق ریاست کی حکمرانی اُسی کے شایانِ شان ہے۔ یہاں تک کہ 1064ء میں بغداد میں عباسی خلیفہ نے بھی ارسلان کا اقتدار تسلیم کیا اور یوں خطبہ جمعہ میں خلیفہ کے ساتھ ساتھ الپ ارسلان کا نام بھی پڑھا جانے لگا۔
الپ ارسلان، ایک مجاہد سلطان
الپ ارسلان ایک مجاہد بادشاہ تھا۔ اس کے نام کا مطلب ہی بہادر شیر تھا، یعنی اسم با مسمّیٰ۔ اس نے حکومت حاصل کرنے کے بعد پہلے ہی سال ارمینیہ اور گُرجستان پر فوج کشی کی، یعنی موجودہ آرمینیا اور جارجیا پر، جہاں اُس وقت مسیحی حکومت تھی۔ پہلے جارجیا میں قرس کا شہر فتح کیا اور پھر دارالحکومت آنی پر قبضہ کر کے قدیم ارمنی ریاست بقارطہ (Bagratids) کا خاتمہ کر دیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مصر میں فاطمی خلافت بد ترین حالات سے گزر رہی تھی۔ عباسیوں کی سنّی خلافت کے برعکس فاطمی اسماعیلی شیعہ تھے۔ سلجوق مذہبی معاملات میں اپنی سخت گیر طبیعت کی وجہ سے فاطمی ریاست کے سخت خلاف تھے۔ الپ ارسلان کے زمانے میں فاطمی خلافت کے حالات بہت بُرے تھے۔ اس کے جہاں سیاسی عوامل تھے، وہیں چند قدرتی آفات نے بھی سلطنت کی چولیں ہلا دی تھیں۔ تب حجازِ مقدس پر بھی فاطمی اثرات ختم ہو گئے۔ بالآخر مسجد حرام اور مسجد نبویؐ میں فاطمی کے بجائے عباسی خلیفہ اور اُس کے ساتھ الپ ارسلان کے نام کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ یہ اُس کے عہد میں سلاجقہ کو ملنے والا ایک بڑا اعزاز تھا۔
الپ ارسلان کا سب سے بڑا کارنامہ
الپ ارسلان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا اناطولیہ کا دروازہ کھولنا۔ اناطولیہ وہ جزیرہ نما ہے جس پر آج ترکیہ واقع ہے۔ جی ہاں! ترکیہ ہمیشہ سے ترکوں کا وطن نہیں تھا بلکہ آج سے ایک ہزار سال پہلے تو یہاں ترکوں کا وجود ہی نہیں تھا۔ 1071ء میں الپ ارسلان کی ایک شاندار فتح کی بدولت یہ ترکوں کا وطن بنا اور آج بھی اُن کا مرکز و محور ہے۔
سن 1068ء میں قسطنطنیہ میں ایک جرنیل رومانوس دیوجانس کو تخت پر بٹھایا گیا۔ رومانوس چہارم کے نام سے بزنطینی سلطنت کا بادشاہ بنا۔ اناطولیہ میں ترکوں کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے اور ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ پورے اناطولیہ کو روندتا ہوا ملازگرد تک پہنچ گیا۔
اس اچانک اُفتاد سے نمٹنے کے لیے الپ ارسلان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ اگر وہ اپنے علاقوں سے دستبردار ہو کر فرار کا راستہ اختیار کرتا تو یہ بات طے تھی کہ ایک لاکھ سے زیادہ کا یہ لشکر سلجوق علاقوں میں گھستا چلا آتا۔ اس لیے الپ ارسلان نے فوراً سے پیشتر اس خطرے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پاس محض 54 ہزار کا دستہ تھا، جسے لے کر وہ 1071ء میں ملازگرد پہنچا اور آتے ہی رومانوس کو صلح کا پیغام بھیجا۔ جواب بہت ہی بھیانک تھا:
"اگر وحشی صلح کا خواہش مند ہے تو اپنے موجودہ مقام کو رومی فوج کے پڑاؤ کے لیے خالی کر دے اور اپنی سچائی کے ثبوت میں اپنا دارالحکومت رے اور اپنا محل ہمارے حوالے کرے۔"
تصور کیجیے کہ اس جواب پر کیا صورتِ حال پیدا ہوئی ہوگی؟ جنگ تو اب ناگزیر تھی۔ پھر آج سے تقریباً 950 سال پہلے، 26 اگست 1071ء کو جمعہ کے دن اُس جنگ کا آغاز ہوا جس نے خطے کی تاریخ ہی بدل دی۔
جنگِ ملازگرد، ایک عظیم معرکہ
جنگ سے قبل الپ ارسلان نے فوج سے ایک جذباتی خطاب کیا اور کہا کہ جو شہادت کا طالب ہے، وہ یہاں ٹھیرے اور جو واپس جانا چاہتا ہے، چلا جائے۔ اب یہاں کوئی سلطان اور بادشاہ نہیں ہے! اُس کے بعد تیر کمان پھینک دیے اور ہاتھ میں تلوار اٹھا لی جو اس بات کا اعلان تھا کہ اب دُو بدو لڑائی ہوگی، یا تو کامیابی پائیں گے یا شہادت نصیب ہوگی۔ الپ ارسلان نے میدان میں سفید لباس پہنا اور اعلان کیا کہ شہید ہوا تو میرا کفن یہی ہوگا۔ یعنی کفن پہن کر میدان میں اترا۔
اپنے سلطان کا یہ جوش و جذبہ اور شوقِ شہادت دیکھ کر سلجوق فوج کے جذبات عروج پر پہنچ گئے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ دیوانہ وار خود سے کہیں بڑے حریف سے ٹکرا گئے اور ایسا لڑے کہ بزنطینیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ انہیں ایسی شکست ہوئی کہ خود رومانوس چہارم بھی گرفتار ہوا۔
جب جنگ کے بعد رومانوس کو الپ ارسلان کے سامنے حاضر کیا گیا تو سلجوق سلطان نے سوال کیا کہ مجھ سے کس سلوک کی امید رکھتے ہو؟ رومانوس نے جواب دیا مجھے قتل کر دیں گے یا ہو سکتا ہے معاف بھی کر دیں۔
جس پر سلطان نے کہا کہ میں نے تمہیں صلح کی پیشکش نہیں کی تھی؟ اور اگر تم جیتتے تو میرے ساتھ کیا سلوک کرتے؟ اس نے جواب دیا بہت بُرا سلوک کرتا۔ اس پر الپ ارسلان نے کہا کہ مجھے اب تیری نیّت کا علم ہو گیا ہے، اس لیے تیرے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس بات کا رومانوس نے بہت عمدہ جواب دیا اور کہا کہ آپ جو چاہے کریں، لیکن یہ بھی دیکھیں کہ میری نیّت کا انجام کیا نکلا۔
اس جواب پر الپ ارسلان نے رومانوس کی جاں بخش دی اور بعد ازاں اسے فدیے کے عوض رہا کر دیا گیا۔ صلح کے معاہدے میں 15 لاکھ دینار فدیہ، سالانہ تین لاکھ 60 ہزار دینار خراج، بوقتِ ضرور فوجی امداد کی فراہمی، رومی قید میں موجود تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی اور کسی رومی شہزادی سے سلطان کے بیٹے کی شادی کی شرائط شامل تھیں۔ اس صلح کا دورانیہ 50 سال رکھا گیا۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہو سکا کیونکہ رومانوس چہارم کو وطن واپسی کے دوران پتہ چلا کہ اُس کے تخت پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مؤرخین کے مطابق رومانوس نے حکومت دوبارہ حاصل کرنے کی کوششیں تو کیں، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ دو لاکھ دینار اور 90 ہزار دینار کے جواہر الپ ارسلان کو بجھوائے اور کہا کہ میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا، کیونکہ اب میں بادشاہ نہیں رہا۔
رومانوس کا انجام بہت بھیانک ہوا، صلح کے باوجود مخالفین نے اسے پکڑ کر اندھا کر دیا اور بعد میں اس کا انتقال بہت بُرے حال میں ہوا۔
بہرحال، جنگِ ملازگرد سے ہر طرف سلاجقہ کی دھاک بیٹھ گئی۔ الپ ارسلان مزید کئی کارنامے بھی انجام دیتا لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ اگلے ہی سال اچانک شہید ہو گیا۔ کسی میدانِ جنگ میں نہیں، کسی محاصرے یا مہم پر نہیں، بلکہ اپنے دربار میں سب کے سامنے۔
الپ ارسلان کی شہادت
دراصل الپ ارسلان نے 1072ء میں ماورا النہر کا رُخ کیا تھا تاکہ آمو اور سیر دریا کے پار اپنے آبائی وطن کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کرے۔
راستے میں آمو دریا کے کنارے ایک روز اُس کے سامنے ایک قلعہ دار کا مقدمہ پیش کیا گیا، جس کا نام یوسف خوارزمی تھا۔ جب سلطان نے معاملہ دریافت کیا تو اُس نے بد زبانی شروع کر دی، جس پر سلطان نے کہا کہ اسے سخت عذاب دے کر مارا جائے۔ موت کو سامنے دیکھ کر یوسف دیوانہ وار چلایا "ابے ہیجڑے! مجھ جیسے شخص کو ایسے مارے گا؟"
یہ الفاظ سنتے ہی سلطان کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے چھوڑو اور کمان میں تیر کھینچ کر یوسف کا نشانہ لیا۔ وہ الپ ارسلان کہ جس کا نشانہ کبھی خطا نہیں ہوتا تھا، اُس کا تیر نشانے پر نہ لگا۔ اسی دوران یوسف کسی غلام کا چاقو چھین کر آگے بڑھا۔ الپ ارسلان تخت سے اٹھا تاکہ ایک ہی وار میں اُس کا خاتمہ کر دے لیکن جیسے ہی قدم آگے بڑھایا، دامن قدموں میں الجھ گیا اور منہ کے بل نیچے آ گرا۔ یوسف سر پر پہنچا اور اس سے پہلے کہ کسی کے ہتھے چڑھتا، الپ ارسلان کی پیٹھ پر چاقو کے کئی وار کر دیے۔ چند ہی لمحوں میں یوسف کے تو سپاہیوں کے ہاتھوں ٹکڑے ہو چکے تھے لیکن تب تک وہ سلطان الپ ارسلان پر کئی کاری زخم لگا چکا تھا۔
شدید زخمی حالت میں چار روز تک زندہ رہنے کے بعد الپ ارسلان نے صرف 40 سال کی عمر میں شہادت پائی۔
بسترِ مرگ پر الپ ارسلان نے کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی غرور نہیں کیا، لیکن کل جب ٹیلے سے اپنی فوج کا معائنہ کر رہا تھا تو دل میں خیال آیا کہ آج زمین پر کوئی طاقت میرا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پھر جب یوسف کو میرے سامنے لایا گیا تو میں نے اللہ کے بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کیا اور اسے حقیر جانا۔ نتیجتاً آج ایک ادنیٰ قیدی کے ہاتھوں موت سے دوچار ہو رہا ہوں۔
الپ ارسلان کے بعد وصیت کے مطابق اُس کا 18 سالہ بیٹا ملک شاہ تخت پر بیٹھا، جس نے سلاجقہ اعظم کو اپنے عروج پر پہنچا دیا۔ لیکن اُس کے 20 سالہ دور کے اختتام کے ساتھ ہی نہ صرف سلجوق بلکہ پوری مسلم دنیا ہل کر رہ گئی کیونکہ صلیبی قدم سرزمینِ مقدس تک پہنچنے کا ارادہ کر چکے تھے۔
[…] […]