ہوم << سیاسی کارکنوں کی آخری نشانی بھی رخصت ہوئی- نصرت جاوید

سیاسی کارکنوں کی آخری نشانی بھی رخصت ہوئی- نصرت جاوید

جن رشتوں کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن محسوس ہوتا تھا ان کی اموات کو بھی اللہ کی رضا تسلیم کرنے کا حوصلہ مجھے کئی دہائیوں تک میسر رہا ہے۔عمرکے آخری حصے میں داخل ہوجانے کے بعد مگر ہمت اب جواب دے رہی ہے۔

آنکھ اور کمر کی تکلیف نے گوشہ نشینی بھی معمول بنادی ہے۔ایسے عالم میں کسی دوست کی جہان فانی سے رخصت کی خبر سن کر بوکھلاجاتا ہوں۔ہفتے کی صبح راولپنڈی کے ہر دلعزیز سیاسی کارکن سید کبیر علی واسطی صاحب کے انتقال پر ملال کی خبر نے یہ کالم لکھنے تک عملاََ مفلوج بنائے رکھا۔ واسطی صاحب کو میں نے ”سیاسی کارکن“ سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ایسے لوگ شہرت،عہدوں اور اقتدار کی وجہ سے میسر رونق کی تمنا کئے بغیر کسی نظریے کے ساتھ وفاداری بشرط استواری نبھاتے ہیں۔میرا دعویٰ ہے کہ واسطی صاحب اس نوعیت کے انسانوں کی آخری نشانی تھے۔ان کے انتقال کے بعد”سیاسی کارکن“ کی عملی مثال لوگوں کے روبرو لانا کم از کم میرے لئے اب ممکن نہیں رہا۔

قیامِ پاکستان کے بعد ان کا گھرانہ مراد آباد سے راولپنڈی منتقل ہوا تھا۔ان کے والد ریلوے کے ملازم تھے۔بڑا کنبہ تھا۔ سفید پوشی کو استقامت سے نبھایا اور اپنی اولاد کو آدابِ مجلس کی ہر وہ روش اپنانے کی تربیت دی جو خاندان کو شائستگی اور تہذیب کی علامت بنادیتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واسطی صاحب نے نسبتاََ چھوٹا پرنٹنگ پریس چلاکر رزق کمانے کی جدوجہد شروع کی۔شادی کے بعد ان کی اہلیہ شعبہ¿ تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔اپنی معاشی ضروریات پر کامل توجہ دینے کے بجائے واسطی صاحب مگر ”حقیقی جمہوریت“ کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ مسلم لیگ کے ملک قاسم ان کے آئیڈیل تھے۔ ملک قاسم صاحب اٹک سے ابھرے ایک وجیہہ آدمی تھے۔ نیوی میں بھرتی ہوئے تو انگریزوں کے خلاف ”جہازیوں کی بغاوت“ سے وابستگی کے شبے میں برطرف کردئیے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ایوب حکومت کے دور میں عملی سیاست کا رُخ کیا۔

ان دنوں کی حکمران کنونشن مسلم لیگ کے اہم عہدے داروں میں نمایاں رہے۔ایوب دور کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد ملک قاسم صاحب نے طے کرلیا کہ ”دیدہ ور“ وطن عزیز کا مقدر سنوار نہیں سکتے۔جمہوریت ہی پاکستان کو استحکام اور خوش حالی فراہم کرسکتی ہے۔سقوط ڈھاکہ نے ان کی اس سوچ کو مزید توانا بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے حکومت سنبھالی تو ان اقدامات کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوگئے جو ان کی دانست میں ”فسطائیت“ کو فروغ دے رہے تھے۔ واسطی صاحب ان کے جاں نثار ساتھی بن گئے۔ملک قاسم مرحوم کو ”سبق“ سکھانے کے لئے غلام مصطفےٰ کھر کی براہِ راست نگرانی میں گھناﺅنے پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان سے وابستگی نے واسطی صاحب کی زندگی بھی اجیرن بنانا شروع کردی۔

بھٹو حکومت کی شدید مزاحمت کے باوجود ملک صاحب اور واسطی صاحب پیرپگاڑا کا ساتھ چھوڑ کر 1980ءکی دہائی کا آغاز ہوتے ہی مسلم لیگ کے اس ٹکڑے میں شامل ہوگئے جس نے خواجہ خیرالدین کی قیادت میں پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں یکجا ہوکر جنرل ضیا کی مسلط کردہ آمریت کے خلاف برسوں تک پھیلی جدوجہد میں حصہ لیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیا نے تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی تھی۔ صحافیوں کو ان سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی۔ملک قاسم مگر جب بھی راولپنڈی یا اسلام آباد آتے تو واسطی صاحب گوریلا تحریک کے سدھائے کارکنوں کی طرح نوجوان رپورٹروں سے رابطہ کرتے ہوئے اپنے قائد سے ”خفیہ ملاقاتیں‘ ‘کروادیتے۔ تین برس کی بے روزگاری کے بعد مجھے بھی ان دنوں اسلام آباد کے انگریزی روزنامے میں ملازمت مل گئی۔

واسطی صاحب کے ساتھ ان ہی دنوں سے قربت کا رشتہ گہرا سے گہرا تر ہونا شروع ہوگیا۔واسطی صاحب نہایت خلوص سے عامل صحافیوں کی بے پناہ قدر کرتے تھے۔ اس امر کو ہمیشہ سراہا کہ معاشی مشکلات کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح امید کی لوجگائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی نے 1980ءکی دہائی ختم ہوتے ہی کاروبار کی جانب بھرپور توجہ مبذول کردی۔ بھائیوں میں خوش حالی بانٹی۔نچلے متوسط طبقے کی مشکلات سے آزاد ہوجانے کے بعد نسبتاََ ”خوش حال“ہوئے افراد عموماََ اپنے برے وقت کو بھول جاتے ہیں۔

سید کبیر علی واسطی صاحب نے حیران کن حد تک اس کے برعکس رویہ اختیار کیا۔ اپنا گھر تعمیر کروانے کے بعد اسے کارکن صحافیوں کے لئے ”اوپن ہاﺅس“ میں بدل دیا۔ مجھ جیسے کم مایہ صحافیوں کی معلومات میں اضافے کو یقینی بنانے کے لئے وہ تواتر کے ساتھ اپنے ہاں غیر ملکی سفرائ، اہم ترین سرکاری افسروں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قدآور رہ نماﺅں کو مدعو کرتے۔ان کے ہاں برپا ہوئی محفلوں میں تمام گفتگو ”آف دی ریکارڈ“ ہوا کرتی تھی۔ اس کی بدولت مجھ جیسے صحافیوں کو پاکستان کی سیاسی تاریخ ہی نہیں بلکہ ریاست اور حکومت کے ان تمام ہتھکنڈوں سے بھی آگاہی نصیب ہونا شروع ہوئی جو ہمارے عوام کو حقوق وفرائض کے حامل”شہری“ بنانے کے بجائے بے بس ولاچار”رعایا“بنائے رکھتی ہے۔

مجھ جیسے صحافیوں کی پیشہ ورانہ بڑھوتی کے لئے پرخلوص لگن کے ساتھ بے تحاشہ اسباب فراہم کرنے کے باوجود سید کبیر علی واسطی صاحب کی عاجزی اور انکساری استقامت سے برقرار رہی۔ کوئی بھی صحافی خواہ وہ ان کا قریبی دوست بھی نہ ہو حکومت یاریاستی عتاب کی زد میں آتا تو پریشان ہوجاتے۔مادرانہ شفقت بروئے کار لاتے ہوئے اس کی زندگی آسان بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔مشکل کی گھڑی میں کسی کی مدد کرتے ہوئے وہ لوگوں کی عزت نفس مجروح بھی نہ ہونے دیتے۔ یوں گماں ہوتا کہ واسطی صاحب کی محبت اور شفقت قبول کرتے ہوئے مشکل میں گھرا صحافی گویا ان پر ”احسان“ کررہا ہے۔اس ضمن میں رونما ہوئے بے تحاشہ واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔ ان کی تفصیل اخباری کالم میں لیکن بیان کرنا ممکن نہیں۔

یہ بیان کرنا مگر لازمی ہے کہ چند برس قبل واسطی صاحب نے بالآخر دریافت کرلیا کہ سیاسی جدوجہد اور ”اصولی صحافت“ کے ذریعے وطن عزیز میں ”حقیقی جمہوریت“ کے خواب کو تعبیر فراہم کرنے کی جدوجہد کار بے سود ہے۔ زمانہ اب یقینا بدل چکا ہے۔مکالمے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ایسے دور میں تیاگ اختیار کرنا ہی مناسب ہوگا۔بیماری نے بھی انہیں بستر سے لگادیا تھا۔ دوستوں سے کٹ کر گوشہ نشین ہوگئے۔ اس کے باوجود یہ کالم بہت غور سے پڑھتے۔ اس میں کسی تاریخی واقعہ کا ذکر ہوتا تو فون کردیتے۔”نصرت صاحب بہادر“ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مزید تفصیلات وتوجیہات بیان کردیتے۔

اس کے بعد میری دونوں بچیوں کے نام لے کر ان کی بابت تازہ ترین شفیق بزرگوں کی طرح جان کر فون بند کردیتے۔ ان کی رخصت کے بعد گھبرایا دل شدت سے یہ سوچ رہا ہے کہ سیاسی تاریخ کی بابت اب مجھے کون باخبررکھے گا۔

Comments

Click here to post a comment