شاتم رسول سلمان رشدی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو سب مسلمان ملکوں کے حکومتی اور غیرحکومتی رہنما چپ رہے اور کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کیا‘ لیکن ہمارے خان صاحب کو جانے کیا سوجھی کہ اس حملے کی مذمت کر دی۔
برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس حملے کو بلاجواز‘ افسوسناک اور SAD قرار دیا۔ اب اس SAD کے لفظ کا کیا ترجمہ کیا جائے؟ یعنی یہ کہ دکھ ہوا؟ خان صاحب کی اس مذمت پر احتجاج ہوا تو انہوں نے وضاحت کر دی‘ لیکن جس طرح ان کا اظہار مذمت سمجھ میں آیا کہ کیوں کیا‘ اسی طرح وضاحت بھی ناقابل فہم رہی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ وضاحت میں خان صاحب نے کہا کہ میرا انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا۔ یہاں سیاق کیا تھے اور سباق کیا‘ خان صاحب نے بتایا ہی نہیں۔ شاید مذمت والے فقرے سے آگے پیچھے کوئی اور فقرہ بھی کہا ہوگا۔ یہ کہ ابھی ابھی میں نے جو مذمت کی ہے‘ اسے مذمت نہ سمجھا جائے؟ ایک اور معمہ کھڑا کر دیا۔
پی ٹی آئی کے حامی بھی سوشل میڈیا پر وضاحتیں دے رہے ہیں‘ لیکن ان کے ٹوئٹس میں وضاحت کم اور خان صاحب کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو گالیاں زیادہ ہیں‘ کچھ سمجھے کوئی! سلمان رشدی نامی اس شیطان نے 1988ءمیں شیطانی آیات نام کی کتاب لکھی تھی جس میں اس نے جناب رسالت مآب اور ان کے اہل بیت کے خلاف خرافات بکی تھیں۔ پوری دنیا کے مسلمان اس درجے مشتعل ہوئے کہ اس منحوس آدمی کو روپوش ہونا پڑا۔
اب 34 سال بعد اس پر حملہ ہوا۔ اور کچھ نہیں تو اس حملے سے یہ ضرور ثابت ہوا کہ شاتم رسول بچتا نہیں ہے۔ کبھی نہ کبھی کسی کے ہتھے ضرور چڑھ جاتا ہے۔ حملے میں یہ گستاخ بچ تو گیا‘ لیکن کاہے کی بچت۔ ایک آنکھ ضائع ہو گئی مگر وہ مجروح ہوا اور کبھی نارمل فنکشنگ نہیں کر سکے گا۔ نیز باقی عمر پہلے سے بھی زیادہ ڈر اور خوف کے ساتھ گزارے گا۔ اگر اس کا نام ”بچ نکلا“ ہے تو کیا کہنے‘ خوب بچ نکلا۔
کچھ ہی عرصہ شاید سال دو سال‘ پہلے کی بات ہے کہ خان صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسی حوالے سے ہونے والے سوال کے جواب میں نوازشریف پر ”گرجت برست“ شروع کی۔بجائے سلمان رشدی کی مذمت کے انہوں نے کہا کہ جب سلمان رشدی نے یہ کتاب لکھی‘ نوازشریف کی حکومت تھی۔ اس وقت نوازشریف نے بطور وزیراعظم کیوں مذمت نہیں کی۔ نوازشریف کی مذمت کرنا مقصود تھی‘ کر دی اور جان بوجھ کر مغالطہ دیا کہ وہ وزیراعظم تھے حالانکہ وہ نہیں تھے۔ وہ اپوزیشن لیڈر تھے۔ وزیراعظم بینظیر صاحبہ تھیں نوازشریف دو برس بعد یعنی 1990ءمیں وزیراعظم بنے۔
اور جہاں تک مذمت کا تعلق ہے‘ حکومت نے بھی کی۔ نوازشریف نے بھی بطور اپوزیشن لیڈر کی۔ نہیں کی تو عمران خان نے نہ کی۔ شاید کی ہو‘ ریکارڈ میں ادھر ادھر ہو گئی ہو۔ بعض ”ہمدرد“ حضرات کا اصرار ہے کہ دراصل خان صاحب کا حافظہ کمزور ہے۔ اس لئے وہ اس طرح کی باتیں کر جاتے ہیں۔ حافظہ کمزور نہیں ہے۔ خود پر تنقید کرنے والے کسی شخص کو بھولتے ہیں نہ اس سے بدلہ لینے کا موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہیں۔ حافظہ مضبوط ہے‘ لیکن بات کو گھمانے کی فنی مہارت اس سے بھی مضبوط ہے۔ ڈرون حملوں کا معاملہ لے لیجئے۔ ہر جلسے میں ان دنوں یہی کہتے ہیں کہ میں واحد آدمی تھا جس نے ان حملوں کی مذمت کی۔ نوازشریف اور زرداری نے تو ہمیشہ حمایت کی۔
مشرف دور سے لیکر ڈرون حملوں کے آخری زمانے تک پارلیمنٹ کے کئی اجلاسوں میں تمام سیاسی جماعتوں نے اور ان کی اعلیٰ قیادت نے ان حملوں کی مذمت کی اور اسے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا اور خود خان صاحب کا ماجرا یہ تھا کہ انہوں نے ان حملوں کی حمایت کی۔ ریکارڈپرموجود ہے۔ یو ٹیوب پر ان کا کلپ لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ صدر پرویزمشرف نے ”ہماری جنگ“ کا جو فیصلہ کیا ہے‘ موجودہ حالات میں اس سے بہتر فیصلہ ممکن نہیں تھا۔
یہ مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کے دور کی بات ہے جس میں وہ مشرف کے حق میں مہم چلا رہے تھے اور پرجوش دلائل ان کی صدارت اور قیادت کی تائید میں دے رہے تھے۔ ریفرنڈم کے بعد الیکشن میں خان صاحب کو مطلوبہ سیٹیں نہیں دی گئیں اور ان کو کرائی گئی یقین دہانیاں مشرف نے فراموش کر دیں تب کہیں جا کر خان صاحب نے پالیسی بدلی اور ”ہماری جنگ“ اور مشرف دونوں کے خلاف ہوگئے۔
خان صاحب کو چاہئے کہ اپنی ”روحانیاتی طاقتوں“ کی مدد سے مذکورہ کلپ یو ٹیوب سے ڈیلیٹ کرا دیں ورنہ یہ کلپ انہیں اسی طرح ”ھانٹ“ کرتے رہیں گے۔ ماضی میں تو سب ہرا ہی ہرا رہا‘ لیکن اب کچھ مہینوں سے خان صاحب کی بات کو گھمانے کی ”فنی مہارت“ زیادہ کام نہیں آرہی
ع وگڑ گئی اے تھوڑے دناں توں
خاص طور سے شہباز گل کے معاملے تو یہ فنی مہارت کچھ بھی نہیں کر پا رہی۔ شہباز گل نے فوج میں بغاوت پر اکسانے والا بیان ٹی وی پر لائیو دیا۔ اس کے بعد سے جو طوفان کھڑا ہوا‘ اس نے اس فنی مہارت کو بیچ بھنور میں پھنسا دیا۔ کبھی ادھر مڑتی کبھی ادھر۔ دوسروں کو گھمانے والی صلاحیت خود گھوم کر دیکھی ہے اور گھومے چلی جا رہی ہے۔ بیان کی صفائی کیا دیتے‘ الٹا اسے ”ڈس اون“ کر رہے ہیں اور فکر اب اس بات کی لگی ہے کہ بیان کس کے کہنے پر دیا۔ اس معاملے پر ہونے والی تحقیقات کہاں جا کر رکے گی؟ کہاں جا کر رکے گی‘ اس بات کا غم اب خان صاحب کو کھائے جا رہا ہے ع کِتے اوھو ہی نہ ہووے جیدا ڈر سی (کہیں وہی نہ ہو جائے جس کا ڈر تھا) تاریخ نے بڑے بڑے تماشا گروں کو تماشا بنتے دیکھا ہے۔ رب خیر کرے۔
تبصرہ لکھیے