ہوم << عام آدمی پر روزانہ ذہنی تشدد کا ذمہ دار کون- محمد اکرم چوہدری

عام آدمی پر روزانہ ذہنی تشدد کا ذمہ دار کون- محمد اکرم چوہدری

شہباز گل پر تشدد ہوا ہے یا نہیں، اگر تشدد ہوا ہے تو کس نے کیا، کیوں کیا، یہ سوال تو ہوتے رہیں گے ، ہو سکتا ہے کبھی فیصلہ نہ ہو پائے کہ تشدد ہوا ہے یا نہیں ویسے جتنے باصلاحیت شہباز گل ہیں عین ممکن ہے وہ خود ہی کسی روز اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی تردید کریں اور زیر حراست تمام بیانات کو دماغی فتور قرار دے کر ساری بحث ہی سمیٹ دیں۔

وہ ایک ہوشیار شخص ہیں، ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی روپ دھار سکتے ہیں۔ زبان بدل سکتے ہیں، بیان بدل سکتے ہیں، انوکھے دلائل پیش کر سکتے ہیں غرضیکہ ہر وہ کام کر سکتے ہیں جس کی آپ کسی عام انسان سے توقع نہیں کر سکتے۔ ان دنوں وہ پولیس کے مہمان ہیں اور اندازِ میزبانی پولیس سے بہتر کون جانتا ہے۔ وہ ایسا خیال رکھتے ہیں کہ انسان دہائیوں نہیں بھولتا اور نصیحت کر جاتا ہے کہ کبھی ان کے مہمان نہ بنیں۔ بہرحال اس سارے معاملے میں جو کچھ ہو رہا ہے عوام پر اس کا منفی اثر ہی پڑتا ہے۔ چونکہ ایسے واقعات ہم ماضی قریب میں بھی دیکھتے آئے ہیں۔ کبھی یہی شہباز گل اپنے سیاسی حریفوں کی بیماریوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ کبھی کسی کو کمر درد کا طعنہ دیتے تھے کبھی کسی کے پلیٹ لیٹس پر طنز کرتے تھے آج اپنے آکسیجن ماسک کو ڈھونڈ رہے ہیں، وہیل چیئر پر عدالت آ رہے ہیں اگر کچھ سیکھنا چاہیں تو یہ مناظر تمام سیاستدانوں کے لیے سبق ہیں۔

کل تک جو بیمار تھے اور جو اس وقت حکمران تھے آج وہ حقیقت کچھ یوں بیان کر رہے ہیں کہ سب کچھ ڈیل کے تحت ہوا یعنی بیماری دکھاوا تھی۔ اب کل کلاں شہباز گل کے بارے بھی کوئی یہ بیان دے سکتا ہے کہ وہ بھی ڈرامہ کر رہے تھے۔ ایسے واقعات سے عام آدمی کے ذہن میں یہ سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں کہ آخر سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔ تماشا لگا ہوا ہے اور ہم سب گھروں میں بیٹھے یا دفاتر میں ہر وقت یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کیا سوچ رہی ہو گی کیا کہہ رہی ہے ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔کون سا ہم نے کسی سے قرض لینا ہے جو ساکھ کی فکر ہو۔ شہباز گل کی مثال کو سامنے رکھیں اور اپنی زبان پر قابو رکھتے ہوئے زندگی گذاریں۔ جو آج صبر کی تلقین کر رہے ہیں یا ماضی یاد کروا رہے ہیں انہیں بھی محتاط رہنا چاہیے۔

وقت کا پہیہ گھومتے کون سی دیر لگتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب سنجیدہ رویہ اختیار کر لینا چاہیے کیونکہ ہر وقت الزام تراشی، بہتان یا غیر ضروری بیانات سے الفاظ کا قیدی بننے سے بہتر ہے خاموش رہیں اور مناسب وقت کا انتظار کریں۔ شہباز گل پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ پی ٹی آئی کی بھی سمجھ کسی کو نہیں آتی ۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ شہباز گل نے جو کہا وہ غلط ہے، ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اگر پاکستان تحریکِ انصاف کی اعلیٰ قیادت یہ تسلیم کرتی ہے کہ شہباز گل نے غلط کام کیا ہے تو پھر اس کے لئے اتنے پریشان کیوں ہے۔ شہباز گل پولیس کی حراست میں ہے اور پولیس کے کام کرنے کا انداز سب جانتے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں کسی پر پولیس حراست میں تشدد نہیں ہوا، کیا پولیس ملزمان کو پھولوں پر بٹھاتی ہے۔

جو بویا تھا وہ کاٹ رہے ہیں اور جو آج بو رہے ہیں ہیں وہ بھی کل کاٹیں گے۔ آج سب کو شہباز گل کی فکر ہے لیکن شاید عوام کی کسی کو خبر نہیں ہے۔ کیونکہ موجودہ حکومت کے فیصلوں نے زندگی مشکل تر بنا دی ہے۔ مہنگائی کسی کے قابو میں نہیں ہے۔ شاید مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے لیکن ہمیں اڈیالہ جیل، پمز ہسپتال کی زیادہ فکر ہے۔ اشیا خوردونوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں مہنگائی ہر شخص پر ہر وقت کا ذہنی تشدد ہے لیکن اس طرف کوئی دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیا حکومت کے پاس شہباز گل کے علاوہ کوئی کام نہیں۔

ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں 25 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ٹماٹر اٹھارہ روپے پچپن پیسے فی کلو مہنگا ہوا، زندہ مرغی انیس روپے بارہ پیسے فی کلو مہنگی ہوئی۔ انڈوں کی فی درجن قیمت میں تین روپے چونتیس پیسے کا اضافہ ہوا جبکہ دال ماش ایک روپیہ، دال مونگ تین روپے فی کلو مہنگی ہوئی، بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں چھتیس پیسے کا اضافہ ہوا۔ حالیہ ہفتے مٹن، پیاز، دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ ایل پی جی کا گھریلو سلینڈر 3.46 فیصد سستا ہوا، گھی 1.16 فیصد، دال مسور 1 روپیہ فی کلو سے زائد سستی ہوئی۔ حالیہ ہفتے چینی کی قیمت میں بھی کمی ہوئی۔ایک ہفتے کے دوران بجلی کی قیمت میں اڑسٹھ پیسے فی یونٹ اضافے کے بعد فی یونٹ 9.08 سے بڑھ کر 9.70 روپے کا ہو گیا۔

ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ کیا کسی کو فکر ہے۔ لیکن آپکو کہیں اس معاملے پر بحث نظر نہیں آئے گی۔ یہ سلسلہ صرف یہیں رکتا نہیں بلکہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اور بم عوام پر گرنے والا ہے۔فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین قاضی منصور کے مطابق ادویات کی قیمتیں نہ بڑھائیں تو مختلف اقسام کی ایک سو سے زائد ادویات مارکیٹ سے غائب ہوجائیں گی۔ وفاقی کابینہ نے پینتیس ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری نہیں دی لیکن ان پینتیس ادویات کی قیمتوں کا بڑھنا ضروری ہے اور ان ادویات میں بخار، اینٹی بائیوٹکس، اینٹی کینسر، ٹی بی کی دوائیاں بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو بھی سفارشات دی ہیں، وفاقی کابینہ ادویات کی قیمتیں نہ بڑھانے کے فیصلہ پر نظرثانی کرے۔ان کا کہنا تھاکہ اگرادویات کی قیمتیں نہ بڑھیں تودوا ساز انڈسٹری بند ہو جائےگی۔

یہاں دیکھ لیں حکومت ایسے مطالبات کو زیادہ دیر تک نہیں روک سکے گی۔ ادویات بنانے والے کہہ رہے ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو صنعت کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ حکومت ہر طرف سے مسائل میں گھری ہے اور اس کے پاس مسائل سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین

اگر حکومت کو شہباز گل سے فرصت ملے تو ان معاملات پر بھی توجہ دے۔

Comments

Click here to post a comment