ہوم << ٹانک میں دہشت گردی - ظہور دھریجہ

ٹانک میں دہشت گردی - ظہور دھریجہ

منگل کے روزز تھانہ گومل ٹانک کی حدود میں پولیو ڈیوٹی پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں نے شہیدکر دیا اور دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں ٹارگٹ کلنگ ہر آئے روز کا مسئلہ ہے۔

دہشت گردی کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔ جس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈی آئی خان، ٹانک کے مقامی لوگوں نقل مکانی پر مجبور کیا جائے۔ بار بار لکھا گیا ہے کہ ڈی آئی خان، ٹانک کے مسائل پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان اضلاع کے لوگوں کو صوبائی حکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ اچھی بات ہے کہ وزیر اعظم شہبا زشریف پچھلے دنوں ڈی آئی خان گئے، یہ دورہ سیلاب متاثرین کیلئے تھا۔ ایک دورہ امن و امان کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے اور مقامی لوگوں کی مشکلات کے حوالے سے بھی ہونا چاہئے اور اس پر بھی غور ہونا چاہئے کہ ٹانک اور ڈی آئی خان کے لوگ نقل مکانی پر کیوں مجبور ہوئے؟ یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے کوئی بیان نہیں کرتا۔ پی ٹی آئی حکومت جس صوبے میں 9 سال سے برسراقتدار ہے اس کو احساس نہیںکہ ڈی آئی خان اور ٹانک کے مقامی لوگوں کی کیا مشکلات ہیں؟ اب وقت آگیا ہے کہ مقامی لوگوں کے مسائل کو حل کیا جائے۔

تاریخی،جغرافیائی اور ثقافتی طور پر ڈیرہ اسماعیل خان ایک شہر یا ایک ڈویژن نہیں بلکہ بہت بڑے وسیب کا نام ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اس کے تہذیبی،ثقافتی،لسانی اثرات اور رابطے بہت گہرے اور وسیع ہیں۔یہ خطہ ایک طرف خیبر دوسری طرف قندھار تیسری طرف مکران اور چوتھی طرف اپنے عظیم خطے سرائیکستان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ ڈیرہ دیو مالائی فرضی کہانیوں کی سر زمین نہیں،یہ خانہ بدوشوں کا خطہ بھی نہیں، یہ ایسی سر زمین ہے جو صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا گہوارہ رہی ہے،جہاں پتھر نہیں پھول اگتے رہے ہیں اور جہاں نفرت کی ندیوں کی بجائے محبتوں کے دریا بہتے ہیں۔

یہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی سرزمین نہیں، ایسی بہشت ارضی ہے جہاں کے لوگوں کے اندر بے پناہ صلاحیتیں پوشیدہ ہیں،بس ہمت، اور حو صلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ آج کے پر آ شوب دور میں سوچ کے دریچوں پر دستک دیتی حساس موضوعات پر مبنی تحریروں سے سجی یہ باتیں عباس سیال کی کتاب ڈیرہ مکھ سرائیکستان میں شامل ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے ڈیرہ اسماعیل خان کے بارے بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ سرزمین ڈیرہ عہد قدیم میں،دریائے ہاکڑہ،سُچے دیرے وال،سیال محبتیں،تھلہ بالو رام،شاہ دریا ے بیٹے،آچنْوں رل یار وغیرہ اور کتاب میں شامل کئی دوسرے مضامین اپنی افادیت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ عباس سیال کی زیر نظر کتاب ڈیرہ اسماعیل خان سمیت کا نہ صرف نیا ورشن اور نیا درشن ہے بلکہ یہ سرائیکی وسیب کے وہ دکھ ہیں جو اُن کے قلم سے تخلیق پا گئے ہیں۔کتاب میں مضامین اور ان کے اسلوب کا مفہوم بتا رہا ہے کہ صدیوں بعد یہ وقت آیا ہے۔

ڈیرہ مُکھ سرائیکستان میں ایک مضمون ’’ڈیرہ اسماعیل خان مرحوم‘‘ کے نام سے بھی ہے جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں مصنف نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان خود بول رہا ہے۔ اس مضمون میںڈیرہ کی پیدائش 1469 ء سے اس کی پوری تاریخ کے حالات کو پوری سچائی اور درد مندی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں مقامی لوگوںکی محرومیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ بہر حال! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ مضمون نگار نے اپنی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخی حیثیت کا ذکر خود اس کی زبانی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ خان اسماعیل خان نے بڑے چائو اور بڑے ارمانوں سے میرا نام ڈیرہ اسماعیل خان رکھا۔مجھے سندھ کنارے بسایا گیا،لاڈ پیار سے میری پرورش کی گئی،مجھے ڈیرہ پھلاں دا سہرہ کہا گیا۔

میری خوشی اور خوشحالی کے قصے عام ہوئے۔تہذیبی،تمدنی،جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے میں سرائیکی وسیب کا فطری حصہ تھا۔تہذیب و تمدن سے عاری اجڈ خانہ بدوشوں،سفاک تا تاریوں،افغانیوں اور دوسرے حملہ آوروں نے مجھے بار بار لوٹا اور بر باد کیا۔سندھ کی بے رحم طوفانی موجوں نے مجھے کئی بار صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی مگر میں ہر بار پھر نئی زندگی لیکر دنیا کے سامنے اُبھرتا رہا ہوں، آخر 9نومبر 1901ء کوسفاک فرنگیوں نے مجھے اپنے وطن ملتان سے الگ کر دیا‘‘۔ َ آپ کو پورا پورا اندازہ ہو چکاہو گا کہ مرحوم ڈیرہ اسماعیل خان جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف اس کی ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی آواز ہے۔یہ ہماری مجرمانہ غفلت اور بے حسی ہے کہ ہم خاموش ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان بول رہا ہے۔

مصنف نے بجا لکھا کہ اس دھرتی پر جب 1901ء میں قبضہ ہوا تو اس کے بیٹے ظلم کے خلاف چیختے چلاتے لڑتے جھگڑتے رہے ان کا خون کھولتا رہااحتجاج ہوا،ہڑتالیں ہوئیں مگر ان کی کسی نے نہ سنی انگریز سامراج وسیب کی قربانی سے پشتونوں کو خوش کر نا چاہتا تھا،ا س پر بھی ڈیرہ آج تک خون کے آنسو رو رہا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوئوں کے چلے جانے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلمانوں نے سیاسی مصلحتوں کی چادر اوڑ ھ لیں۔بہت سے تو اپنی قومیں اور ذاتیں تبدیل کرتے نظر آئے،اقتدار کی کرسی اور اقتدار کے دولت کدے ان کے امائی باپ بن گئے۔

ڈیرے کی سر زمین،ڈیرے کی تہذیب و تمدن،ثقافت اور اس کی میٹھی بولی انہیں بھول گئی۔آج ڈیرے اور وسیب میں جتنی بھی مشکلات ہیں وہ اسی کا نتیجہ ہیں،کانوں میں انگلیاں ڈالی گئی ہوں، کوئی نہ سن سکے تو الگ بات ہے۔

Comments

Click here to post a comment