شہاب الدین غوری 1206ء میں ہندوستان سے افغانستان جاتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے جان دے گیا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن وہ اپنے غلاموں کو اولاد ہی کی طرح سمجھتا تھا۔ غوری خاندان کی حکومت تو ختم ہوئی، لیکن ساتھ ہی اک نئے خاندان کا آغاز ہوا، جو خاندانِ غلاماں کہلاتا ہے۔ اس کا آغاز قطب الدین ایبک سے ہوا جو شہاب الدین غوری کا سپہ سالار تھا۔ ترائن کی جنگ میں تاریخی کامیابی کے بعد سلطان نے اسے دلّی کا حکمران بنا دیا تھا۔
یہیں سے ہندوستان میں مسلمانوں کی اُن با ضابطہ و مستقل حکومتوں کی بنیاد پڑی، جنہیں سلطنتِ دلّی کہا جاتا ہے۔ اس پر سب سے پہلے خاندانِ غلاماں نے حکومت کی اور بعد ازاں خلجی، تغلق، سید اور لودھی خاندانوں نے، یہاں تک کہ عظیم مغل ہندوستان میں داخل ہو گئے۔
غوری سلطنت محض ہندوستانی مقبوضات پر مشتمل نہیں تھی بلکہ وہ تو خراسان تک پھیلی ہوئی تھی۔ سلطان شہاب الدین غوری کی اچانک شہادت کے بعد مغربی حصہ جو غور، غزنی اور خراسان پر مشتمل تھا، زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکا اور خوارزمی سلطنت کے قبضے میں چلا گیا۔ البتہ ہندوستان میں غوری کے غلاموں کی حکومت تقریباً 86 سال تک قائم رہی۔
شمس الدین التتمش
خاندانِ غلاماں میں سب سے مشہور حکمران شمس الدین التتمش تھا، جسے ہمارے عام طور پر التمش بھی کہا جاتا ہے۔ التتمش (Iltutmish) کا مطلب ہے سلطنت کا رکھوالا۔ ترک قبیلے البری سے تعلق رکھتا تھا بلکہ اس کا باپ قبیلے کا سردار تھا۔ بچپن میں بہت حسین و جمیل اور ذہین تھا۔ چچا زاد بھائیوں نے حسد میں آ کر اسے بطور غلام بیچ ڈالا۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کی یہ حرکت اس لڑکے کو شاہِ ہندوستان بنا دے گی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے التتمش کی داستان حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتی جلتی ہے۔
بہرحال، غلام کی حیثیت سے التتمش نے ابتدائی زندگی بخارا میں گزاری، جہاں اسے قطب الدین ایبک نے خرید لیا۔ وہ التتمش کی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوا اور اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ چند تاریخی کتب کے مطابق ایبک نے اسے داماد بھی بنایا تھا البتہ یہ بات مستند نہیں ہے۔
پنجاب میں کھوکھروں کی بغاوت کے خاتمے کے لیے جو جنگیں لڑی گئی تھیں، ان میں التتمش نے بڑے کارنامے انجام دیے۔ خود سلطان شہاب الدین غوری اس کی بہادری سے اتنا متاثر ہوا کہ قطب الدین کو خاص تاکید کی اور التتمش کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔
پھر التتمش کئی اہم عہدوں پر فائز رہا۔ اسے گوالیار کا حاکم بنایا گیا، بلند شہر اور نواح کا علاقہ جاگیر میں عطا کیا گیا بلکہ اُس زمانے کا ایک اہم ترین عہدہ بدایوں کی گورنری بھی ملی۔
التتمش، بدایوں کی گورنری سے شاہِ ہندوستان تک
سن 1210ء میں قطب الدین ایبک نے لاہور میں چوگان یعنی پولو کھیلتے ہوئے وفات پائی۔ اُس کے بیٹے آرام شاہ کو تخت پر بٹھایا گیا۔ جیسا نام، ویسے کام۔ ایک نا اہل حکمران تھا جس کی وجہ سے سلطنت کے حالات بگڑنے لگے۔ ناصر الدین قباچہ سندھ سے نکل کر اُچ اور ملتان پر قابض ہو گیا اور لگتا تھا کہ لاہور بھی اس کے قبضے میں پاس چلا جائے گا۔ تاج الدین یلدوز غزنی میں آزاد و خود مختار تھا بلکہ غوری سلطنت کے دار الحکومت میں ہونے کی وجہ سے خود کو سب سے اعلیٰ سمجھتا تھا۔ بنگال میں اختیار الدین محمد اپنے نام کا خطبہ پڑھوانے لگا۔
اِن حالات میں سلطنت کے اہم وزرا اور جرنیلوں نے التتمش کو بدایوں سے دلّی بلایا اور تخت پر بٹھا دیا۔ یہ کام دراصل قطب الدین ایبک کے ان چالیس غلاموں کا تھا، جنہیں حکومت کے معاملات چلانے کی تربیت دی گئی تھی۔ انہیں 'تُرکانِ چہل گانی' یا 'بندگانِ چہل گانی' کہتے تھے۔ اُن کے اس قدم سے آرام شاہ کو سخت دھچکا پہنچا۔ وہ تب لاہور میں تھا، التتمش کے تخت پر بیٹھتے ہی فوراً دلّی کے لیے نکل پڑا۔ پھر مقابلہ کیا لیکن بُری طرح شکست کھائی۔
اُدھر غزنی میں تاج الدین یلدوز خوارزم شاہ کے بڑھتے ہوئے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ شکست کھائی اور ہندوستان کا رخ کیا۔ یہاں 1215ء میں ناصر الدین قباچہ کو شکست دے کر پنجاب پر قابض ہو گیا۔ اب اس کا منہ دلّی کی طرف تھا۔ پھر ترائن ایک اور جنگ کا میدان بنا جس میں التتمش نے تاج الدین کو شکست دی، گرفتار کیا اور قیدی بنا لیا۔ یہ حالات دیکھ کر ناصر الدین قباچہ نے مرکز سے صلح کر لی اور کچھ ہی عرصے میں بنگال بھی دلّی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ یوں التتمش کا اقتدار تقریباً پورے پاکستان اور شمالی ہندوستان و بنگال پر قائم ہو گیا۔
25 سالہ دورِ حکومت
التتمش نے سن 1211ء سے 1236ء تک حکومت کی۔ 25 سالہ حکومت کا خاتمہ اس کے انتقال کے ساتھ ہوا۔ اسے مسجد قوت اسلام کے قریب دفنایا گیا، وہی مسجد جس کی تعمیر کا آغاز قطب الدین ایبک نے کیا تھا جبکہ تکمیل التتمش کے ہاتھوں ہوئی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے قدم مضبوط کرنے میں التتمش کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کے دور میں چنگیز خان کے ہندوستان پر حملے کا بڑا خطرہ تھا۔ التتمش نے اس سے نمٹنے کے لیے بھرپور تیاری کی، جس کو دیکھتے ہوئے چنگیز خان نے دریائے سندھ پار نہیں کیا۔
منگولوں کی تباہ کاریاں ایک لحاظ سے التتمش بلکہ ہندوستان کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئیں کیونکہ وسط ایشیا، ایران، خراسان اور افغانستان سے کئی مسلمانوں نے ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔ ان میں اپنے اپنے شعبوں کے کئی ماہرین بھی شامل تھے، جن کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔
ایک انوکھا فیصلہ
التتمش کا بڑا بیٹا ناصر الدین محمود بہت لائق فائق تھا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خود اسی کی زندگی میں انتقال کر گیا۔ باقی بیٹوں میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اسے اتنی بڑی سلطنت کا حاکم بنایا جاتا۔ اس لیے التتمش نے وہ فیصلہ کیا، جو غالباً پوری اسلامی تاریخ میں کسی حکمران نے نہیں کیا ہوگا۔ اُس نے اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ تمام تر صلاحیت اور قابلیت ہونے کے باوجود رضیہ کو دل سے قبول نہیں کیا گیا۔ بلکہ التتمش کے بعد اس کے بیٹے رکن الدین فیروز کو تخت پر بٹھا دیا گیا، جو پرلے درجے کا عیاش اور نا اہل تھا۔ اُس کی حرکتوں اور مظالم سے تنگ آ کر 1236ء میں دلّی کے عوام اور فوج کے ایک حلقے نے بغاوت کر دی اور رضیہ کو ملکہ بنانے کا اعلان کر دیا۔ وہ سلطان رضیۃ الدنیا و الدین کے نام سے تخت دلّی پر بیٹھی، یعنی عوام کی بھرپور تائید سے۔
تبصرہ لکھیے