ہوم << حکومت کا رول ماڈل عمران - عبداللہ طارق سہیل

حکومت کا رول ماڈل عمران - عبداللہ طارق سہیل

پاکستان کو مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے وجود سے پاک کرنے کا عظیم مشن پرویزمشرف نے شروع کیا اور دس برس کے وقفے کے بعد اسے آگے بڑھانے کا بیڑہ عمران خان نے اٹھایا اور ان تھک محنت سے وہ کام محض ساڑھے تین سال کی مدت میں کر دکھایا جو مشرف آٹھ سال میں نہیں کر سکا تھا۔ یعنی کمال کر دکھایا۔ البتہ اس کمال میں کچھ کسر بہرحال رہ گئی تھی۔ یہ کمی اب شہبازشریف حکومت پوری کر رہی ہے۔

مسئلہ محض اس بے رحم قسم کے مذاق کا نہیں ہے جو 15 تاریخ کو کیا گیا۔ پہلے خبر چلائی گئی کہ اوگرا نے تیل چند روپے سستے کرنے کی سفارش کی ہے۔ بعدازاں خبر آئی کہ سمری مسترد کرتے ہوئے تیل مزید سات روپے مہنگا کر دیا گیا ہے۔ مہنگا کرنا تھا تو اس مذاق کی کیا ضرورت تھی۔اس فیصلے پر نوازشریف ناراض ہوئے اور مریم نواز بھی‘ لیکن وہ دونوں بڑی شخصیات ”فیصلوں“ کے باب میں اب غیر متعلق ہیں۔ حکومت اور مسلم لیگ دونوں کی سربراہی شہبازشریف کے پاس ہے جو پرویزمشرف کی آئیڈیالوجی اور عمران خان کی ”پریکٹیالوجی“ دونوں سے متاثر ہیں۔ ان کا انداز حکمرانی بھی دونوں سے مشتق اور عبارت ہے بلکہ یوں کہئے کہ دونوں کا ”مرکب“ ہے۔ اس مرکب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ فیصلے کرتے وقت عوام نہیں‘ اشرافیہ کا مفاد دیکھا جاتا ہے۔ لیکن شہبازشریف اشرافیہ کی اتنی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے جتنی عمران خان نے حاصل کی۔ عوام پر بمباری تیز کرکے دیکھ لیں‘ وہ نتیجہ نہیں ملے گا جو شہبازشریف چاہتے ہیں۔

یہ مت سمجھئے کہ حکومت میں مسلم لیگ کی نمائندگی نہیں ہے۔ نمائندگی ہے‘ لیکن محض ایک وزیر کی۔ یعنی رانا ثناءاللہ کی۔ شہبازشریف انہیں وزیر نہیں بنانا چاہتے تھے‘ لیکن پھر اوپر سے حکم آ گیا جو ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔ واضح رہنا چاہئے کہ اوپر سے مراد نوازشریف بالکل نہیں ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ رانا ثناءاللہ بیک وقت اوپر والوں کی بھی پسند ہیں اور نوازشریف کی بھی۔ نوازشریف کی امور حکومت میں ایک بھی نہیں چلتی۔ یہ رانا ثناءاللہ والی اگر چلی ہے تو نوازشریف کی نہیں کسی اور کی چلی ہے۔ بہرحال رانا ثناءاللہ کی وجہ سے ہم ”تکنیکی“ اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) بھی اتحادی جماعتوں کا حصہ ہے اور اگر مریم نواز گرفتار نہیں ہوئی ہیں تو شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رانا ثناءاس بات کے مخالف ہیں۔

متوسط طبقہ خاصا سخت جان ہے۔ پرویزمشرف نے آٹھ سال اس کا بے رحم استصیال کیا‘ یعنی صفایا اور صفایا ہو بھی گیا۔ تعلیم کے دروازے اس پر بند‘ مہنگائی نے اس کے ہاتھ پاﺅں مفلوج کر دیئے۔ آدھی تنخواہ یا آمدنی بجلی‘ گیس کے بلوں کی نذر‘ لگتا تھا کہ یہ طبقہ قصہ پارینہ بن گیا‘ لیکن پھر زرداری کے پانچ اور نواز کے چار سال کے دوران اس نے ”باﺅنس بیک“ کیا اور پھر سے پھلنے پھولنے اور پھیلنے لگا۔ دن بدن اس کا تناسب بڑھنے لگا‘ لیکن حیف کہ در چشم زدن فصل بہار آخر شد۔ مشرفی ڈاکٹرائن زیادہ تگڑی ہوکر تبدیلی کے روپ میں نازل ہوئی۔ وہ سرکار ختم ہوئی تو مڈل کلاس کو امید ہوئی کہ پھر سے دور بہار آیا‘ لیکن پتہ چلا کہ مسلم لیگ نواز تو بدستور اقتدار سے باہر ہے۔ اس کی جگہ مفتا لیگ‘ معاف کیجئے گا‘ مفتاح اسماعیل لیگ نے لے لی ہے جس کا رول ماڈل عمران ہے نہ کہ نوازشریف۔

اگلے اگست تک عوام کو اسی مفتا لیگ‘ معاف کیجئے گا مفتاح اسماعیل لیگ ہی کو بھگتنا ہے۔ جو بچ گئے‘ وہ اگلے برس کے بعد کچھ نیا دیکھنے کی امید کر سکیں گے۔ جو نہ بچ سکے‘ اپنا استغاثہ خدا کے حضور پیش کر دیں گے۔ شیخ رشید لندن تشریف لے گئے۔ بعض احباب کہہ رہے ہیں کہ ملک سے فرار ہو گئے۔ اس سے پہلے یہ سن کر کہ ایٹمی دھماکے ہونے والے ہیں‘ فرار ہوئے تھے۔ اب انہیں کون سے دھماکوں کی خبر ملی ہے کہ یوں اچانک فرار ہو گئے۔ ویسے انصاف کی بات ہے کہ وہ فرار نہیں ہوئے بلکہ تشریف لے گئے ہیں۔ یعنی یہاں سے فرار سے نہیں‘ لندن پدھارے ہیں۔ اور منزل ان کی لندن بھی نہیں‘ سکاٹ لینڈ ہے۔ وہاں کے دل فریب ساحل‘ میامی کے ساحلوں سے بھی زیادہ خوبصورت‘ اگرچہ رونق میامی میں زیادہ ہے۔

شیخ صاحب بھاری بھرکم شخصیت ہیں‘ بھاری بھرکم کو فارسی میں ”فیل تن“ کہا جاتا ہے۔ ایک اورفیل تن شہزاد اکبر بھی سکاٹ لینڈ میں موجود ہیں۔ ساحل پر اٹکھیلیاں کرتے ہوئے ان کی تصاویر سامنے آ ئی ہیں۔ شیخ صاحب بھی وہاں پہنچنے والے ہیں۔ خوب گزرے گی۔ بیٹھیں گے دوفیل تن۔ شیخ صاحب (ن) میں سے (ش) اور (ز) سے (ب) نکالنے کی باتیں اکثر کیا کرتے تھے‘ لیکن یہ تو انہوں نے کبھی بتایا ہی نہیں تھا کہ (پ) سے (ش) نکل جائے گی۔ یہاں (پ) سے مراد پاکستان ہے۔ یہاں ان کے مرشد عمران خان پر کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ ایسے میں ان کا ساتھ چھوڑ جانا اچھا نہیں۔ خود انہوں نے فرمایا تھا کہ اب جینا مرنا عمران کے ساتھ تھا۔ اب کیا ہوا کہ آخری وقت شہزاد اکبر کے ساتھ بتانے‘ ان کا ساتھ نبھانے چل پڑے۔

ان کے مرشد پر برا وقت ایک طرف سے نہیں آیا بلکہ اطراف سے بلائیں نازل ہو رہی ہیں۔ فارن فنڈنگ ہے‘ توشہ خانہ ہے اور نہ جانے اور کیا کیا ہے اور اب یہ شہباز گل کی بلا۔ کہتے ہیں شہباز گل نے بم کو لات ماری‘ لیکن نظر آنے والی بات کا پوسٹ مارٹم کرنے والوں کا کہنا ہے کہ گل نے لات نہیں ماری‘ گل تو دراصل خود ”لات“ ہیں جسے مارا کسی اور نے ہے اور جنہیں لات ماری ہے وہ اب چھوڑنے والے نہیں۔ نہ لات کو‘ نہ لات مارنے والے کو۔ کڑا وقت تو ہے ہی‘ اب تک ساتھ نبھانے والے ”سیانے“ بھی رفتہ رفتہ دم توڑ رہے ہیں۔ خاص طور سے امریکی سازش والا بیانیہ تو جس طرح سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے۔ وہ دیکھا نہیں جاتا۔ شاید اس کی اسی دردناک حالت پر رحم کھاتے ہوئے خان صاحب نے اس کی مرسی کلنگ Mercy Killing کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ میں لابی انگ کیلئے معاہدے‘ امریکی سفیر سے ملاقاتیں‘ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ رابطوں کیلئے امریکہ میں مقیم اپنے عہدیداروں کو ہدایات اسی ”مرسی کلنگ“ کا حصہ ہیں۔

لیکن فی الوقت سیاسی نظریں شہباز گل والے معاملے پر ہیں۔ وہ جو خان صاحب کے چیف آف سٹاف تھے اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ننگا کرکے مارا گیا اور جس کے بارے میں خان صاحب ہی کے وزیر پنجاب کرنل ہاشم کا کہنا ہے کہ ننگا کرکے مارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ سب جھوٹ ہے۔

Comments

Click here to post a comment