ہوم << فتح مبین اور عالمی تنہائی کا سال - اوریا مقبول جان

فتح مبین اور عالمی تنہائی کا سال - اوریا مقبول جان

عالمی طاقتوں کے وہ تمام اندازے جو انہوں نے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے لگائے تھے، میرے اللہ نے غارت کر دیئے۔ اس نے اپنی اس سنت کو ایک بار پھر زندہ کیا، جس کا اعلان اللہ نے قرآنِ پاک میں یوں فرمایا ہے، ’’بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا‘‘ (البقرہ: 249)۔

گیارہ ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے دن سے لے کر سات اکتوبر تک کے ستائیس دن، غصے، انتقام، دھونس، لالچ، ترغیبات اور عالمی برادری کے وسائل جمع کر کے، نہتے اور کمزور افغانستان پر حملے کی تیاری کے دن تھے۔ اس ایک خوفناک دھمکی کی گونج نے پوری دُنیا کو امریکہ کے قدموں میں جھکا دیا تھا، جب امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو پھر آپ ہمارے دُشمن ہیں‘‘۔ کون نہیں تھا جس نے ملا محمد عمر رحمتہ اللہ علیہ کو مصلحت کے تقاضے نہ سمجھائے ہوں، لڑائی میں بے سروسامانی اور مدِ مقابل ’’طاغوت‘‘ کی بے پناہ قوت سے نہ ڈرا ہو۔ کیا سفارت کار اور کیا سیاسی حکمران، جرنیل اور بقول اقبال، ’’لغت ہائے حجازی‘‘ کے قارون جیّد علمائے کرام، سب ہی تو اس ’’عمر ثالث‘‘ کے قندھار والے کچے مکان کے چھوٹے سے کمرے میں بار بار ’’حاضر ہوئے تھے۔ لیکن میرے اللہ نے تو ان متوکل افغان مسلمانوں کے مقدر میں فتح مبین لکھ دی تھی۔

ان مردانِ کار کے لئے پھر کوئی دلاسہ، تسلی، لالچ، دھونس یا خوف ایسا نہ رہا جو ان کے پائے استقلال میں لغزش لا سکتا۔ یہ پچاس ہزار کے قریب طالبان، میدانِ جنگ میں اللہ کی بتائی ہوئی مومنین کی صفت ’’بنیان مرصوص‘‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ پھر اس دیوار کو بیس سال نہ کوئی ڈھا سکا اور نہ ہی اسے عبور کر سکا۔ یوں 15 اگست 2021ء کو اللہ نے ان کے مقدر میں فتح مبین لکھی اور پوری عالمی برادری کے ’’اجتماعی طاغوت‘‘ کی قسمت میں شکست تحریر کر دی۔ کون تھا جو بیس سال قبل یقین کی اس دولت سے مالا مال تھا، کہ ایک دن امریکہ اور پوری عالمی قوت یوں شکست کھا جائے گی۔ عام دُنیا دار تو ایک طرف رہے، منبر و محراب پر صدیوں سے اللہ کے وعدوں والی آیتیں سنانے والے اور جنگ قادسیہ و جنگ یرموک میں عالمی طاقتوں ایران اور روم پر کمزور مسلمانوں کی فتح کے قصے بیان کرنے والے علماء بھی گنگ تھے۔

آج بھی عالم یہ ہے، کہ سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے دولتِ ایمان سے سرفراز کیا ہے، ان کے علاوہ باقی سب ابھی بھی طالبان کی اس عظیم فتح کو دل سے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ متعصب تو وہ ہیں جو دل کو تسلی دینے کے لئے اسے امریکہ کا ’’حکمت ِ عملی سے نکلنا‘‘ (Strategic Withdrawal) بتاتے تھے۔ اکثر دُنیا دار مسلمان سمجھتے ہیں، افغانوں نے اپنا سب کچھ تباہ کر دیا اور اب اپنے لئے مزید مشکلات خرید لیں۔ اس بدترین شکست کے فوراً بعد پوری عالمی برادری نے اسلامی اماراتِ افغانستان کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی تھیں وہ بھی آج ایک سال گزرنے کے بعد ایک ایک کر کے غلط ثابت ہو چکی ہیں اور یہ حکومت آج اپنا خوش حالی، امن، اطمینان اور سکون کا ایک سال مکمل کر چکی ہے۔

بیس سال افغانستان میں گزارنے والی اور تین ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے والی قوتوں کا سب سے پہلا بھروسہ اس ساڑھے تین لاکھ فوج پر تھا جس کے بارے میں جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ’’اس فوج کو دُنیا کی بہترین ٹریننگ دی گئی، اس کے پاس دُنیا کا بہترین اسلحہ ہے اور اسے دُنیا کا بہترین رہنمائی و جاسوسی کا نظام میسر ہے‘‘۔ مگر اسی فوج کے بارے ایک دن آنکھ میں تیرتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ اس نے کہا، ’’پتہ نہیں یہ لوگ ہمارے بعد کیوں نہیں لڑے‘‘۔ ابھی پندرہ اگست 2021 کا دن نہیں آیا تھا اور پہلے ہی سے عسکری اندازے یہ تھے کہ کابل میں ایک خونریز جنگ شروع ہو جائے گی جس کے نتیجے میں انتہائی قتل و غارت اور خوف و ہراس پورے افغانستان کو گھیر لے گا۔ اور لاکھوں کی تعداد میں افغان ہجرت کر جائیں گے۔ اقوام متحدہ کا ہائی کمیشن برائے مہاجرین ان مہاجرین کی آبادکاری کے لئے منصوبے بنانے لگا۔

پاکستان کے حکومتی سطح پر اعلیٰ اجلاس بلائے گئے اور مہاجرین کے رہنے کے لئے علاقے مختص کر دیئے گئے اور فنڈز بھی علیحدہ ہو گئے۔ مایوسی پھیلانے والے معاشی پنڈتوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے ایک اور خوفناک اور المناک صورتِ حال کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔ اقوام متحدہ جیسے معتبر ادارے کی افغانستان میں خصوصی نمائندہ ڈیبرا لائنز (Deborah Lyons) نے سکیورٹی کونسل میں 17 نومبر 2021ء کو کہا، کہ ’’افغانستان میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لینے والا ہے۔ تقریباً تین کروڑ اسّی لاکھ افغانی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہوں گے اور آنے والی سردیاں ان کے لئے عذاب بن جائیں گی۔ ہجرت اور جنگ کی وجہ سے افغانستان میں ہر طرح کی پیداوار (GDP) میں چالیس فیصد کمی آ جائے گی‘‘۔ ڈیبرا کی یہ گفتگو انقلابِ اسلامی افغانستان کے قیام کے تین ماہ بعد کی گئی تھی۔ پوری دُنیا نے ان کے خلاف تین ماہ سے سفارتی اور معاشی حصار کھینچ رکھا تھا۔

امریکہ نے ان کے دس ارب ڈالر ضبط کئے ہوئے تھے اور دُنیا بھر کے ممالک سے ان افغانوں کا معاشی و سفارتی مقاطعہ کروا رکھا تھا۔ انہیں مکمل یقین تھا کہ ہم انہیں اس طرح برباد کر دیں گے۔ بیس سال وہاں گزارنے کے بعد امریکی یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہم نے افغانوں کے طرزِ معاشرت اور لائف سٹائل میں اتنی جدیدیت داخل کر دی ہے کہ اب طالبان اسے سنبھال نہیں پائیں گے۔ مرکزی شہر کابل اور پندرہ کے قریب دیگر شہروں میں ایسا لائف سٹائل عام کر دیا گیا تھا جو اپنی بودوباش اور اخلاق و آداب میں یورپ سے مرعوب تھا۔ انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن چینلز، کلچرل سینٹرز، مخلوط تفریحی پارک، سینما گھر، کیفے، بار ، تھیٹر، غرض کیا کچھ نہیں تھا جو قدیم افغان سادگی کے لئے بالکل نیا تھا اور جاذبِ نظر بھی۔ یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ پرائمری ہی سے تمام تعلیمی ادارے مخلوط کر دیئے گئے تھے اور نصابِ تعلیم بھی مغربی تعلیم سے متاثر بنا دیا گیا تھا۔

یہ ماحول اگرچہ اشرافیہ اور مڈل کلاس کو ہی میسر تھا لیکن یہ باقی افغانیوں کے لئے بھی حصولِ عزت (Status symbol) کا ذریعہ بن چکا تھا۔ ایسا کرنے والوں کو یقین تھا کہ بیس سال پہاڑوں میں لڑنے والے اور جدید دُنیا سے کٹے ہوئے طالبان اس تبدیلی کو سمجھ نہیں پائیں گے اور اس بدلی دُنیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ لیکن طالبان نے وہاں آ کر سب سے پہلے اسی طرزِ معاشرت اور لائف سٹائل کو بدلنے پر اپنی توجہ کی۔ اس شہری ماحول کا فائدہ دراصل اس ایک مختصر گروہ کو ہی ہو رہا تھا، جسے افغانستان میں چالیس سال سے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اپنی ضروریات کے لئے تخلیق کیا تھا۔ یہ اعلیٰ مراعات یافتہ پرسنل اسسٹنٹ، گائیڈ اور دیگر این جی اوز کے ورکرز تھے۔

ان سے افغانستان میں ایک مصنوعی مغرب زدہ مڈل کلاس پیدا کی گئی تھی۔ توقعات یہ تھیں اب یہ تعداد میں بہت زیادہ ہو چکے ہیں اس لئے یہ جدید ٹیکنالوجی والے ماحول میں پلنے والے قدیم ’’دقیانوسی‘‘ ماحول والے طالبان سے لڑنے کیلئے کھڑے ہو جائیں گے۔ لیکن مغربی طاقتوں کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی، جب 15 اگست 2021ء کے فوراً بعد یہی تیار کردہ ’’مڈل کلاس‘‘ لاکھوں کی تعداد میں افغانستان چھوڑنے کے لئے کابل ایئر پورٹ پر جہازوں کی لائنوں میں لگ گئی۔ آج ایک سال گزرنے کے بعد اور پوری دُنیا کی جانب سے مالیاتی اور سفارتی محاصرے کے باوجود، افغان معیشت مستحکم ہے، قیمتیں پورے خطے میں سب سے کم ہیں، کابل دُنیا کا پُرامن ترین شہر ہے۔

ترقیاتی منصوبے گذشتہ پانچ سالوں کی نسبت زیادہ تیزی سے رواں ہیں۔ تمام پڑوسی ممالک سے ان کے تعلقات ان کی اپنی خواہشات کے مطابق ہیں۔ عالمی برادری نے 15 اگست 2021ء کو عسکری جنگ ہاری تھی اور پسپا ہو گئے تھے، جبکہ ایک سال کے بعد وہ معاشی و سفارتی جنگ بھی ہار چکی ہے۔ کوئی مقاطعہ، محاصرہ اور بائیکاٹ اس آزاد ملک کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکا۔

Comments

Click here to post a comment