آج سبھی چودہ اگست پر بڑے دُلار کے ساتھ اپنے بچپن کو یاد کر رہے ہیں کہ کیسے اس دن کی تانگھ ہوا کرتی تھی اور کیسے منایا کرتے تھے ۔ اپنے بچوں کے ساتھ اپنا بچپن جینا اچھا لگ رہا ہے ۔ مجھے ایک اور چودہ اگست کی یاد آ رہی ہے جب ہم بچے نہیں چنگے بھلے گھوڑے تھے۔
روہی ٹی وی اسلام آباد کی رات کی شفٹ بارہ بجے ختم ہوتی اور ہم سب شفٹ فیلو ایک ہائی ایس وین میں اپنے گھر واپسی کا سفر شروع کرتے۔ اسلام آباد پنڈی کے کونے کوںے میں رہنے والے روہی ٹی کی جیالے وین میں سوار ہو کر اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتے۔ لڑکیاں ایک دوسرے سے قریب کے علاقوں میں تھیں۔ ان کا نمبر آخر میں آتا تھا۔ سبھی کو پچھلی دو سیٹوں پر ٹھونس کر باقی میل کولیگ آگے کی سیٹوں پر براجمان ہوتے۔ اور خوشدلی سے ہر آنے والے نئے بندے کے لیے ایسےجگہ بنتی جاتی جیسے گاڑی ربڑ کی بنی ہے اور کھینچ کر لمبی کر دی جاتی ہے۔
شفٹ کا سفر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ہوتا تو اس ایک ڈیڑھ گھنٹے کو روہی ٹی وی کے صحافی، کیمرہ مین ، این ایل ای ، اینکرز، ایڈیٹرز ، سب ایڈیٹر سبھی صرف اور صرف ’’ گلوکار ‘‘ بن کے گزارتے۔ کبھی اردو غزلوں کا دور چلتا، ایک مصرعہ ایک نے پڑھا دوسرا اور نے اچک لیا تیسرا کہیں کسی اور کونے سے شروع ہوجاتا۔ غزل جتنی آتی اتنی گا لینے کے بعد گلوکار رضا کارانہ طور پر نئی غزل شروع کر لیتے ۔ بغیر کسی تعطل کے یہ ٹرانسمیشن چلتی چلی جاتی ۔ کبھی کشور کمار شروع ہو جاتا اور کبھی غلام علی ۔ کبھی عالمگیر تو کبھی صرف نورجہاں ۔ کبھی مزید ترقی کرتے ہوئے نور جہاں اور نصیبو لعل کے پنجابی گانے۔ عطااللہ عیسی خیلوی تو کبھی عابدہ پروین ۔ علاقائی زبانوں کے گلوکار بھی وافر تھے ۔ سرائیکی تو ہم تھے ہی ، پٹھان بھائی ہندکو بولنے والے سبھی اپنا حصہ ملاتے ۔ حالات کے مطابق مزید ورائیٹی جیسے رمضان میں نعتیں محرم میں مرثیے اور اگست میں ملی ںغمے ہماری محفل کی شان بڑھاتے ۔
ایسے ہی ایک تیرہ اگست کی رات ملی نغمے گانے والوں کی ٹولی میں آخری پانچ چھ فنکار باقی تھے ۔ ہم اسلام آباد سے پنڈی میں داخل ہورہے تھے اور فیض آباد انٹرنس پنڈی بوائز کی زندہ دلی سے ٹریفک جام کا شدید شکار ہو چکا تھا ۔ ارد گرد سے سبھی محب وطن سکوٹروں کے سائلنسر نکالے گاڑیوں کے اوپر چڑھے بیٹھے یا آدھے لٹکے اپنی وطن سے لا زوال محبت کا اظہار کر رہے تھے ۔ وین میں موجود فنکاروں نے بھی ترنگ میں آکر پاس کھڑی ایک گاڑی سے بلند آواز نغمے کی آواز کے ساتھ اپنی آوازیں بھی بلند کر دیں ۔
یہ ہی وہ عظیم دن تھا جب پتہ چلا کے ہمارے شفٹ انچارج اور سیئنر صحافی عمران پرواز صاحب ، اینکر پرسن اور نیوز ریڈر شمائلہ حسین، پروڈیوسر اینکر وائس اوور آرٹسٹ آسیہ امین ، رپورٹر اور سی جی پروڈوسر ایم سی آر پروڈیوسر صائمہ خان ، سپورٹس اور ویدر بوائے عباس حسین اور ناچیز جو اس وقت روہی ٹی وی میں بھی ناچیز ہی تھی ، کس قدر جذبہ حب وطنی سے لبریز ہیں ۔ ہم آواز ہو کر ایسے اونچے سر لگائے کہ ساتھ والوں کو اپنے سپیکر بند کرنے پڑ گئے ۔ اے جذبہ جنون تو ہمت نا ہاررررررررر ۔۔۔۔۔۔
آس پاس والے سبھی ہماری تال سے تال ملا نے لگے ۔ گاڑی دھیرے دھیرے آگے کی طرف سركتی لیکن ہمیں کہاں ہوش تھا ۔ سڑک پر موجود جھنڈے اٹھائے اگست کے رنگ میں رنگے جوان ، بچے ، بوڑھے ، گاڑیوں میں موجود بچیاں اور خواتین ہمارے ساتھ گا رہے تھے ۔ جوش میں آکر مزید جذباتی اور اونچے سر والا نغمہ شروع ہوچکا تھا۔ پل کے دوسری طرف ایک بڑے سائز کا جھنڈا حرکت کرتا نظر آیا۔ نوجوان جھنڈا تھامے گاڑیوں کے اوپر سے اسے گزار کر لا رہے تھے ۔ وہ جھنڈا تھامے اسے ہماری گاڑی کے اوپر لے آئے ۔ ’’ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں‘‘ گانا کیسا شاندار تجربہ تھا اس کو بیان کرنا الفاظ میں ممکن نہیں، ٹریفک بحال ہوتے ہی ہمارے ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی ۔
چودہ اگست کی عید مبارک
تبصرہ لکھیے