ہوم << ’’یوم عاشور ‘‘ غم وآ ندوہ کا دن - سید عارف سعید بخاری

’’یوم عاشور ‘‘ غم وآ ندوہ کا دن - سید عارف سعید بخاری

"یوم عاشور " کی فضیلت سے انکار ممکن نہیں۔نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓنے اُس روز 72جانثاروں کے ہمراہ میدان کربلاکی تپتی ہوئی سرزمین پر اسلام کی سربلندی اور حق و صداقت کی بقاء کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ، اپنی قربانیوں سے اسلامی تاریخ میںایسے انمٹ نقوش چھوڑے گئے کہ جو رہتی دنیا تک راہ ِحق میں قربان ہونے والوں کیلئے مشعل ِ راہ بن گئی ۔

امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ اسلامی تعلیمات کے مطابق امن کے داعی تھے،آپ ؓ نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بعض لوگوں کی طرف سے بیعت کی درخواست پر کوفہ تشریف لائے تھے لیکن یزید کے ناہنجار اور بدنیت ساتھیوں نے اپنے ناپاک مقاصدکی تکمیل کیلئے امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ اور آپؓ کے ساتھ اہل خانہ اور جانثاروں کو بھی شہید کر ڈالا ۔ یزید کے ساتھیوں نے اس وقت اہلبیت اطہار کے معصوم بچوں کو بھی معاف نہیں کیا ،جو اسلامی و دنیاوی تاریخ کا المناک و دل خراش سانحہ ہے ۔

ماہ محرم الحرام مسلم اُمہ کے لئے بلا تفریق عقیدہ و مسلک غم وآ ندوہ کا مہینہ ہے ،اس ماہ مسلم اُمہ امام عالی مقامؓ اور ان کے خانوادوں کی قربانیوں کو یاد کرتی ہے،ایک طرف حضرت امام حسینؑ کے چاہنے والے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گریہ و زاری کرتے ہیں ، مجالس عزا ء اور ماتمی جلوسوں کا انعقاد کرتے ہیں ،آپؓ اور آپ ؓ کے اہل خانہ و جانثاروں پر گذرنے والی قیامت کوبیان کرتے ہیں ،اپنے پیاروں کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں تو دوسری طرف دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی اپنے اپنے عقائدکے مطابق آپ ؓ کو سلام پیش کرتے ہیں ۔

14صدیاں قبل پیش آنے والا واقعہ کربلا فی زمانہ کسی شخص نے اپنی آنکھوں سے نہیںدیکھا،تمام واقعات روایت کی صورت ہم تک پہنچے ہیں ،سچ تو یہ ہے کہ مظلومین کربلا پر ڈھائے جانے والے مظالم کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کا یارا کس کو تھا؟ کس میں اتنی ہمت و طاقت تھی کہ وہ ان مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر اسے بیان بھی کر پاتا ،لیکن روایت کے ذریعے پہنچے والے واقعات یقینا روح فرسا اور دل ہلا دینے والے ضرور ہیں ۔مقام افسوس ہے کہ مسلکی اختلافات قومی المیہ بن چکے ہیں،ہرطبقہ اپنی سوچ و فکر کے مطابق واقعہ کربلا پیش کرکے اپنے دل کو اطمینان دلا رہا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا ہے ۔

بلاشبہ امام عالی مقام ؑ اور اُن کے خانوادوں کے ساتھ "یوم عاشور" کو ڈھائے جانے والے مظالم سے درد دل رکھنے والا حساس شخص انکار بھی نہیں کر سکتا ۔ماضی پر نظر دہرائیں توپتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے لے کرایوبی حکومت تک ملک بھر میں تمام مکاتب فکر میں اتفاق و اتحاد ، اخوت و بھائی چارے کا ماحول میسر تھا اور ماہ محرم کے دوران اس پراور زیادہ عمل کیا جاتا تھا، ماہ محرم میں مجالس عزاء اور ماتمی جلوسوں کیلئے انتظامیہ سے اجازت نامہ (لائسنس)لینا لازم تھا ،مجالس عزاء برپا ہوتیں یا جلوس نکلتے تو ان میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہ کی جاتی .

حقیقت تو یہ ہے کہ جلوس کے راستوں کے ساتھ ساتھ اور بالکونیوں پرہر مکتب فکر کی خواتین و حضرات ،بچے بوڑھے او ر جوان موجود رہتے ، انتشار و نفاق کی بجائے محبتوں بھرا ماحول ہوتا ، اہلسنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے احباب جلوسوں کے راستوں میں سبیلیں لگاتے اور لنگر تقسیم کرتے نظر آتے ۔ لیکن ہماری بدقسمتی کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مذہبی اور لسانی تعصبات کو ہوا دی جانے لگی ، بعد ازاں سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس وقت صورتحال مزید خراب ہو گئی ،جب آزادی ء اظہار کے نام پر بعض علمائے کرام نے ’’فتویٰ سازی‘‘ کو اپنا شعار بنا لیا ۔

" فتویٰ" جاری کرناکسی مفتی کاکام ہے جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر دوسرا عالم فاضل شخص اپنے تئیں خود کو فلاسفر سمجھ کر مخالفین کو ’’گالی ‘‘ دینے لگا، تکفیر کے فتوے عام ہونے لگے ۔منبر رسولؐ کو اصلاح ملت کی بجائے تفرقہ بازی کے لئے استعمال کیا جانے لگا ۔گویا ان عاقبت نا اندیش لوگوں نے ملک کو تفرقہ بازی کی آگ میں جھونک دیا ۔عقائد کی بنیاد پرہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔مجالس کے انعقاد اور جلوسوں کے روٹس پر اعتراض معمول بنالیا گیا۔جبکہ مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔

ایک طرف پاکستان میں’’ مسلکی اختلاف ‘‘کشیدگی کا سبب ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے پڑوسی ملک بھارت میںتعصب کی بنیادصرف اور صرف مسلم اور ہندو نظریات ہیں مگر پاکستان میں لوگوں کے اپنے اپنے نظریات ہیں ، ہر فرقہ اپنی جگہ خود کو’’ مسلمان ‘‘کہلانے کا دعویدار ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے سوا کسی دوسرے کو مسلمان سمجھنے کو تیار نہیں، پاکستان میںاکثریت مسلمانوں کی ہے ، آئین پاکستان میں اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں ۔لیکن ہم تو اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق دینے پر تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ انتشار و نفاق نے ملکی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے ،ہماری اس سوچ و فکر کا فائدہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اٹھا رہا ہے ۔

اتحاد بین المسلمین کا پیغام عام کرناوقت کی ضرورت ہے لیکن وہ بھی صدالبصحرا ہوتا جا رہا ہے ۔کسی کو اپنے دین کی فکرہے اور نہ ہی اپنے نظریات میں بہتری لانے پر دھیان ۔ ایک خدا اور رسول ؐکے ماننے والوں کے اعمال اسلامی تعلیمات سے مطابقت ہی نہیں رکھتے ۔ بیشک ! ہم امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓسے محبت کا دم بھرتے ہیں مگرہم میں کردار حسینی ؓکا فقدان پایا جاتا ہے ، امام عالی مقامؓ نے حق کیلئے وقت کے یزیدوں سے ٹکرا جانے کا درس دیا لیکن ہم انہی یزیدی قوتوں کے آلہ کار بن کر دین اسلام کے ابدی پیغام تک کو بھلا چکے ہیں ۔

محرم الحرام کاماہ مقدس ہمیں اخوت، رواداری اور اتحاد و یگانگت کا درس دیتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مسلک و عقائد پر ثابت قدم رہیں، دوسروں پر تنقید سے گریز کریں کیونکہ مذاہب عالم میں کہیں بھی دیگر اقوام کے مذہبی عقائد پر تنقید کا درس نہیں دیا جاتا ۔ ’’یوم عاشور ‘‘ حقیقی معنوں میں مظلومین ِکربلا سے منسوب دن ہے کہ جب اُمہ آپؓ کی یاد مناتے ہوئے آپؓ کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کا عہد کرتی ے ۔’’یوم عاشور ‘‘ پر ہمیں اپنے اعمال و افعال پر غور کرنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں ۔سوال تو یہ ہے کہ آج ہمیں عبادات کیلئے سخت سیکورٹی حصار کی ضرورت کیوں پیش آ نے لگی ہے ۔؟کیا50سال قبل کہیں اس کی ضرورت پیش آتی تھی ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ماضی میں امن ،اخوت اور بھائی چارے کی فضا میں عقائد کی بنیاد پر سبھی مکاتب فکر کو آزادی اور تحفظ حاصل تھا۔ کاش! ہم ماضی کی ان روایات کو بحال کرنے کی تدبیر کر سکیں ۔ اس میں شک نہیں کہ مذہب کے نام پرکشیدگی کی فضا ہماری اپنی ہی پیدا کردہ ہے۔عدم برداشت کی وجہ سے اختلافات میں شدت اور ماحول میں گرمی پیدا ہونا معمول بن چکا ہے ۔ اس لئے ہماری ماہ محرم الحرام خصوصاً "یوم عاشور " تمام اہل اسلام سے درخواست ہے کہ ہم اپنی صفوں میں گھسے ہوئے اسلام اور وطن دشمن عناصر کو پہچانیں ،ان پر نظر رکھیں ۔

"یوم عاشور "انسانیت سے محبت کرنے والوں کا دن ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم مسلکی اختلافات کوبھلاکر اخوت و محبت کی فضا پیدا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ وطن عزیز امن کا گہوارا بنے اور ہمارا کردار دیگر اقوام کے لئے باعث تقلید ہو۔دُعا ہے کہ امسال بھی یوم عاشور اور سارا ماہ محرم امن و سلامتی کے ساتھ گذرے اور ملک بھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے ۔

اللہ ہم سب کاحامی وناصر ہو ۔