ہوم << ہمارا قاتل کون- آصف محمود

ہمارا قاتل کون- آصف محمود

احمد اعجاز صاحب کی پوسٹ پڑھی اور دل لہو سے بھر گیا۔ ان کی جواں سال بھتیجی کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے کرب کا اظہار لفظوں میں کیا اور نیچے دوستوںنے ’ بہت افسوس ہوا‘ کا فرض کفایہ ادا کر دیا۔ ایک رسم دنیا تھی ، ادا ہو گئی۔ میں مگر تب سے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ اس بچی کا انتقال ہوا ہے یا اسے ہمارے ڈاکٹروں ، ہمارے نظام صحت اور ہماری اجتماعی بے حسی نے مل کرقتل کیا ہے۔ تصور کیجیے کہ ایک بچی کو اس کے والدین جنوبی پنجاب کے ایک دور دراز گائوں سے لاہور لاتے ہیں۔ یہاں اس کا بائی پاس ہوتا ہے۔

بائی پاس کے بعد اب اسے پیس میکر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرز معائنہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں پیس میکر ڈالنے کے لیے آپ کی باری تین ماہ بعد آئے گی۔آپ گھر جائیں اور تین ماہ بعد اگر زندہ ہوں تو آ کر پیس میکر لگوا لیں۔ بے بس والدین بچی کو واپس لے جاتے ہیں اور وہاں اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ کوئی مہذب معاشرہ ہوتا تو اس ’ قتل عمد‘ پر طوفان اٹھ کھڑا ہوتا لیکن یہاں پورا معاشرہ نفسیاتی طور پر بیمار ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے یہ بات سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں کہ ہسپتالوں میں ہمارے مریضوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، ہمیں اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں کہ دل کے مریض کو لیہ سے لاہور کیوں آنا پڑتا ہے اس کا علاج لیہ میں کیوں نہیں ہو سکتا ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو عشروں کی جمع پونجی برباد ہو جاتی ہے ، ہماری جانے بلا کہ ہمیں طبی سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں۔

ہمارے پاس صرف ایک ہی موضوع ہے اور ہم سب مل کر سارا دن اور ساری رات جب تک جاگ رہے ہوتے ہیں اپنے اپنے حصے کے سیاسی آقا کی مدح سرائی میں مصروف ہوتے ہیں۔کوئی ہینڈ سم کا سہرا کہہ رہا ہوتا ہے، کوئی بیانیے کی آرتی اتار رہا ہوتا ہے اورکسی کا بھٹو زندہ ہوتا ہے ۔ ہم نفسیاتی طور پر اپاہج ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے اپنے سیاسی قائد اور اس کی آل اولاد کے سیاسی مستقبل کے لیے سارا دن پریشان رہتے ہیں، لمبی لمبی بحثیں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو کاٹنے کو دوڑتے ہیں لیکن ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارا بیٹا، ہمارا باپ ، ہماری ماں یا ہم کبھی بیمار پڑ گئے تو علاج کہاں سے ہو گا اور کیسے ہو گا؟ اشرافیہ یہاں بیمار ہو جائے تو ایئر ایمبولینس آ جاتی ہے ، یہ گرفتار ہو جائیں تو ہسپتال میں وی آئی پی وارڈ ان کے لیے مختص ہو جاتا ہے ، جیل چلے جائیں تو وہاں خصوصی میڈیکل یونٹ تعینات کر دیا جاتا ہے۔

ان کی پلیٹ لیٹس کم ہو جائیں تو شاہی پروٹوکول کے ساتھ انہیں بیرون ملک علاج کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔ لیکن عام آدمی بیمار ہو جائے تو اسے صرف سسک سسک کر مرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ہم وہ جاہل ہیں جو پھر اپنوں کے جنازوں میں بھی سیاسی بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ خبردار میرے قائد اور اس کی آل اولاد کی شان میں کسی نے گستاخی کی۔ آئین آج کل ہر طرف زیر بحث ہے۔ چنانچہ رعایا بھی آئین آئین کرتی رہتی ہے۔ اشرافیہ کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو آئین آئین ہونے لگتی ہے۔ آئین سے محبت انتہائی مبارک چیز ہے المیہ مگر یہ ہے کہ یہاں آئین بھی صرف اس وقت زیر بحث آتا ہے جب اشرافیہ کے حق اقتدار اور حصول اقتدار کے لیے قانونی دلائل درکار ہوتے ہیں۔ آئین نے ایک عام شہری کو کون کون سے بنیادی انسانی حقوق دے رکھے ہیں، ان پر نہ کبھی بات ہوتی ہے نہ یہ کسی بحث کا عنوان بنتے ہیں۔ بنیادی حقوق کے ان اقوال زریں کی حقیقت کیا ہے؟آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ آج بھی وطن عزیز کے آئین کے مطابق صحت بنیادی انسانی حق نہیں ہے۔

آئین کو کبھی کھول کر دیکھیے ۔ صحت نام کا کوئی حق مل جائے تو مجھے بھی بتائیے گا۔ اس معاشرے نے آج تک یہ سوال اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق میں صحت کاحق شامل کیوں نہیں ہے۔ آزادی رائے آپ کا بنیادی حق ہے لیکن صحت آپ کا بنیادی حق نہیں ہے۔ پیشہ ور آئینی ماہر جو ہر دربار کا فانوس بن کر جگمگاتے ہیں ، اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ زندگی آپ کا بنیادی حق ہے تو سمجھیے اس میں صحت بھی شامل ہے۔ علم کی دنیا میں مگر اس دلیل کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ زندہ رہنا ایک الگ معاملہ ہے اور صحت ایک الگ معاملہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عام ادویات اور جان بچانے والی ادویات میں فرق ہوتا ہے اور فرق روا رکھا جاتا ہے۔گویا آپ دو درجن بیماریوں میں گھر کر اگر مر نہیںرہے تو پھر ’ ستے خیراں ہیں‘۔ کبھی ہسپتالوں میں جائیے۔ لوگ پرچی کے لیے لائنوں میں ایک ایک پہر ذلیل ہو تے ہیں۔لیکن آپ یقین کریں لوگوں کو لائنوں میں لگے بھی میں نے سیاسی بحثیں کرتے دیکھا ہے۔

ان کے مریضوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہوتا لیکن یہ ہسپتالوں کی کینٹین میں بیٹھ کر عمران خان ، بلاول اور مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے لیے دکھی ہوئے پھرتے ہیں۔ احمد اعجاز سیاسی پوسٹ کرتے ہیں تو نیچے احباب اپنی اپنی دانشوری لے کر داد شجاعت دینے لگتے ہیں لیکن احمد اعجاز نے ایک انسانی المیے پر لکھا ہے کہ میری بیٹی تم ہماری جہالت اور ڈاکٹروں کی نا اہلی سے زندگی ہار گئیں تو سب رسمی سا اظہار افسوس کر کے چلتے بنے۔ یہ انسانی المیہ کسی بحث اور غورو فکر کا عنواان نہ بن سکا۔ گویا یہ معاشرہ شعوری طور پر اس پستی میں گر چکا ہے جہاں اس نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس کے اپنے دکھ اور المیے اس کا نصیب ہیں ، انہی صرف تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لینا ہے۔ البتہ اشرافیہ کے دکھ اور پریشانیوں پر بولنا بھی ہے ، احتجاج بھی کرنا ہے اور سر بھی پیٹ لینا ہے۔ حیرت ہوتی ہے یہ کیسی مطمئن رعایا ہے جو گیلے کاغذ کی طرح زندگی گزار رہی ہے ۔نہ لکھے جانے کے قابل نہ جلائے جانے کے قابل۔ لیکن اسے اپنے مسائل اور دکھوں کا کئی احساس نہیں۔

یہ صرف اپنے اپنے شاہی خاندان اور اپنے اپنے شاہوں شہزادوں اور شہزادیوں کو روتی ہے۔ شاہی خاندان کی خوشیوں پر یہ خوش ہو جاتی ہے اور شاہی خاندان کے دکھوںپر یہ رو پڑتی ہے۔ یہاں آ کر معاملات میری سمجھ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ یہ سماجیات کے ماہرین کا کام ہے کہ وہ رہنمائی کریں کہ معاشرے کی اس ذہنی کیفیت کو کیا نام دیا جائے؟ کیا یہ کوئی بیماری ہے یا یہ شعوری شکست کی کوئی بد ترین شکل ہے کہ لوگ اپنے دکھوں اپنے مسائل اور ا پنی محرومیوں پر بات ہی نہیں کرتے۔کیا یہ صدیوں کی غلامی کے اثرات ہیں یا یہ کوئی تازہ شعوری واردات ہے جس نے اس قوم کو بے حس کر دیا ہے؟ ہم مر رہے ہیں ، ہمارے بچے مر رہے ہیں۔ہمارا قاتل کون ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس قوم کو اپنے قاتلوں سے محبت کا عارضہ لاحق ہو چکا ہو۔