گزشتہ روز ، اور آج ، دمِ تحریر مورخہ چار اگست دو ہزار بائیس کو بھی ، ٹویٹر پہ ٹاپ ٹرینڈ ہے ، #JunagadhIsPakistan یعنی، "جوناگڑھ ہے پاکستان" ۔ اس سے کیا مراد ہے؟
مراد یہ ہے کہ جونا گڑھ کی خود مختار ریاست کے نواب ، محمد مہابت خان جی نے گیارہ اگست 1947 کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان نے اس حوالے سے سرکاری گزیٹیئر بھی 15 ستمبر 1947 کو جاری کیا تھا۔ جونا گڑھ کے عوام کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی، مگر نواب محمد مہابت خان جی، اپنی رعایا میں خاصے مقبول مقبول تھے۔بر صغیر کے نوابوں اور راجاؤں کو برطانوی عہد میں اپنی ریاستوں میں نیم خودمختار مطلق العنان حکمران کی حیثیت حاصل تھی، جن کے داخلی امور میں تاجِ برطانیہ یا گورنر جنرل انتہائی نزاعی صورتِ حال کے سوا دخل اندازی نہ کرنے کے پابند تھے۔
ہوا کچھ یوں کہ 11 اگست کو عوام کے محبوب حکمران ، نواب محمد مہابت خان جی نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا ، جس پر گاندھی، نہرو، پٹیل کی تکون اور ان کے سرپرست لارڈ ماؤنٹ بیٹن سلگ اٹھے۔ دستوری اور اصولی طور پر ان کو اٹھنے والے یہ مروڑ کسی اعتبار سے بھی کوئی معنی نہیں رکھتے تھے ، کیوں کہ برطانوی حکومت نے تمام ریاستوں اور رجواڑوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کسی سے بھی الحاق کر سکتے ہیں ، اور اگر چاہیں تو آزادانہ طور پہ خود مختار حیثیت سے بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے مجاز ہیں۔ مگر ، آئین شکنوں اور فسطائیوں نے قانون کو کبھی بھی ایک کاغذ کے ٹکڑے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں دی۔ چنانچہ کانگریس اور اس جیسی دیگر ہندوؤں کی نمائندہ تنظیموں نے اپنے ایجنٹ چپکے چپکے جونا گڑھ کی سرحد میں داخل کیے، دوسری جانب جوناگڑھ ریاست کے دو تین ہندو عہدیداروں کو خریدا ، اور نواب مہابت خان جی کے خلاف چھوٹے چھوٹے احتجاج ریکارڈ کروائے ، جن میں حاضری سے زیادہ اس بات کو اہمیت دی گئی کہ جوناگڑھ کے عوام میں پاکستان سے الحاق کے فیصلے پر عدم اعتماد کا تاثر دیا جا سکے۔ بھارت نے ان احتجاجوں اور اکا دکا مقامات پر معمولی جھڑپوں کے واقعات کو بنیاد بنا کر ، اپنی فوج کو جونا گڑھ کی حدود میں داخل کرنے کا اعلان کیا ، کہ وہ جونا گڑھ کے عوام کی امنگوں کا خون نہیں ہونے دیں گے۔
تاریخ کے طالب علم یہ بات سمجھتے ہیں کہ 1971 میں اندرا گاندھی نے بھارتی افواج کو مشرقی پاکستان پر چڑھائی کا حکم دیتے وقت بھی یہی بہانہ بنایا تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی امنگوں کا خون کیا جا رہا ہے۔ جونا گڑھ کی بد قسمتی یہی تھی کہ اس کی جغرافیائی سرحدیں پاکستان سے ملحق نہ تھیں ، چنانچہ بھارتی فوج نے جونا گڑھ پر حملہ کیا ، اور پاکستان عالمی سطح پر احتجاج کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ اگرچہ یہ سوال بھی کہیں کسی نہاں خانۂ دل میں جاگزیں ہو سکتا ہے کہ اگر ملحقہ سرحدیں ہوتیں تو بھی قبلہ جنرل گریسی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خلاف کیا کرتے، مگر وہ کسی اور وقت کی بحث ہے۔
بہر حال ، نواب مہابت خان کی افواج نے بھارتی افواج کا سامنا کیا مگر ایک چھوٹی سی ریاست کا بھارت کی فوج سے کیا مقابلہ تھا!!! چنانچہ نومبر 1947 میں بھارتی افواج نے جونا گڑھ کو غصب کر لیا۔ نواب صاحب اپنے خاندان اور اپنے دیوان یعنی وزیر اعظم ، شاہ نواز بھٹو کے ساتھ پاکستان چلے آئے۔ نواب مہابت خان جی کا انتقال 1959 میں ہوا ، اور ان کے صاحب زادے نواب دلاور خان جی نے ان کے بعد نواب کا لقب اختیار کیا۔ نواب دلاور بعد ازاں مارچ 1976 سے پانچ جولائی 1977 تک گورنر سندھ کے عہدے پر فائض رہے ۔ دیوان صاحب، شاہ نواز بھٹو کے بھتیجے ، ممتاز بھٹو اس وقت وزیرِ اعلی سندھ تھے، اور وزیر اعظم تھے شاہ نواز بھٹو کے صاحب زادے ، ذوالفقار علی بھٹو۔ اس خانوادے کو تو سارا پاکستان ہی جانتا ہے۔
5 اگست کا جونا گڑھ سے کیا تعلق ہے؟
73 برس سے فراموش کردہ جونا گڑھ تب دوبارہ پاکستان اور بھارت کی اہم سرخیوں میں شامل ہوا ، جب 2020 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کا نقشہ جاری کیا ، جس میں جونا گڑھ کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا۔بھارت کے تن بدن میں تو گویا آگ ہی لگ گئی۔ اصولاً یہ بالکل درست تھا ، کہ بھارت نے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود اس پر قبضہ کر رکھا ہے ، اس بہانے کہ وہاں کے راجہ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ پچھتر برس سے احتجاج کرنے والے کشمیریوں اور اس حوالے سے پوری مہذب دنیا کا احتجاج جس بھارت پر اثر نہیں ڈال سکا ، اس کا کسی بھی معاملے پر چیخنا چلانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
تبصرہ لکھیے