افسوس کے سیلابی پانیوں کے تند و تیز ریلوں میں رڑجانے والی زندگیوں کا سانحہ سیاسی حالات کی گرما گرمی میں اہم خبر نہیں بن سکا۔بلوچستان کے دور دراز پہاڑوں پر بسنے والے باسیوں پر مون سون کی۔ غیر معمولی بارشوں نے قیامت ڈھادی ،کچھ علاقے اتنے دور افتادہ تھے کہ جہاں موبائل نیٹ ورک بھی کام نہیں کرتا تھا۔
امدادی کام تاخیر سے شروع ہوئے اوراس تاخیر میں جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوا ۔ صرف بلوچستان میں 14 ہزار مکان سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔سیکڑوں افراد سیلابی پانیوں میں بہہ گئے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں بھی سینکڑوں دیہات زیرِ آب آئے ،سیکڑوں مکان تباہ ہوئے ،قیمتی جانیں سیلاب کی نذر ہوئیںلیکن ملک کے ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ، ان کی خبروں تجزیوں اور تبصروں سے کہیں اندازہ نہیں ہوتا کہسیلاب جیسی ناگہانی آفت نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیلاب سے تباہ ہونے والے گھر اورغریبوں کے مال مویشی املاک تباہ ہوئیں اور غریب ہی سیلاب کی بپھری لہروں کی نذر ہوئے۔
یہ ریاست عام حالات میں جو سلوک غریبوں کی زندگیوں کے ساتھ کرتی ہے ، وہی اس ناگہانی آفت میں غریبوں کے ساتھ ہونا تھا۔بات بس ایک صورت میں مختلف ہوسکتی تھی اگر پاکستان کے ٹی وی چینلز اپنا فوکس سیلاب اور متاثرین سیلاب کو بناتے، اس ایشو کو پرائم ٹائم میں جگہ دیتے۔منہ سے روٹی چھین لینے والی مہنگائی میں غریب پر کیا گزرتی ہے یا پھر سیلابی ریلوںمیں تہہ آب آنے والی کچی بستیوں کے مکینوں کی زندگیاں کیسے تہہ و بالا ہوتی ہیں، کیسے ان کے پیارے ان کی آ نکھوں کے سامنے موت کے پانیوں کی نذر ہوگئے یہ سب خبریں الیکٹرانک میڈیا پر اس اس جذبے اور شدت سے نہیں آئیں جو ان کا استحقاق تھا۔جس حادثے کو میڈیا اپنے پرائم ٹائم میں جگہ دے دے ۔وہ حادثہ سرکار کی نظر اور نظر کرم میں آجاتاہے۔اس دائرے کے باہر کوئی قیامت بھی ٹوٹ جائے سرکار کی نگاہ میں جگہ نہیں پاتی۔
قدرتی آفات اس ملک میں آتی رہی ہیں ،ریسکیو کا نظام کبھی بھی آپ ٹو دا مارک نہیں رہا لیکن ایسی کٹھور اورمردہ بے حسی پہلے کبھی نہیں دیکھی کہ سیلابی ریلوں میں انسانوں کی لاشیں تیرتی دکھائی دے رہی ہیں، کہیں زندہ لوگ سیلابی پانیوں کی نظر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن ان کو بچانے والا کوئی نہیں۔مفلوک الحال بے بس کچے گھروں میں رہتے ہوئے پاکستانی سیلابی پانیوں میں میں اپنے گھر کے سامان کے ساتھ بہہ گئے۔ اب ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے ہیں ہر شخص ویڈیو بنانا جانتا ہے۔سیلابی پانیوں کی تباہی مچاتے کچی دیواریں گراتے دریا کے پشتے توڑتے ایسی قیامت خیز ویڈیوز منظر عام آئی ہیں کہ الامان! غربت و افلاس کے مارے ہوئے متاثر ین سیلاب کسی نامعلوم مددگار کو پکار تے رہے۔قدرتی آفت کے سامنے ان کی بے بسی ، دہائیاں اور بین سن کر ایک عام حساس شخص تو تڑپ کے رہ جاتا ہے لیکن شاید ہمارے خطے کے اہل اقتدار واخیتار کوقدرت نے بے حسی کی زرد مٹی سے بنایا ہے۔ ایسے قیامت خیز منظر دیکھ کراحساس ہوتا ہے کہ اس ملک کا کوئی حکمران ہے بھی یا نہیں ہے۔
حکمرانی کے محاذ پر بھی عجیب کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ یوں تو ہر سیاسی جماعت اس وقت حکومت کسی نہ کسی طرح حکومت میں حصے دار ہے۔ شاید اسی لیے کوئی اپنے سر ذمہ داری لینے کوتیار نہیں۔بے یقینی اور سیاسی عدم استحکام کا دور دورہ ہے۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اس ملک کا والی وارث کون ہے۔ ان حالات میں کون ہے جو لیڈ کرے ؟ وزیراعظم شہباز شریف اور مراد علی شاہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر سیلابی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے نظر آئے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر سیلاب زدہ علاقوں کا جائزہ لینا اس سرگرمی کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ اس کا فائدہ اور حاصل حصول سوائے خبر نامے کے لیے ایک فوٹیج بنانے کے اور کیا ہوگا۔حکمران اتنی بلندی سے مسائل کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہیں کہنا پڑتا ہے۔تم آسماں کی بلندی سے جلد لوٹ آنا۔مجھے زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے۔
یہ کڑوا سچ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان میں سیلاب نے قیامت ڈھا دی مگر اس کا کرب ہمیں اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے تجزیوں تبصروں خبروں اور پروگراموں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ کراچی جیسا میٹروپولیٹن شہر بارشیں برداشت نہیں کر پا رہا ،کراچی کی سڑکیں ندی نالے بن چکی ہیں ۔شہر پر جس پارٹی کی حکومت ہے وہ گذشتہ پندرہ سال سے اس شہر پر حکمرانی کر رہی ہے۔یہ جوڑ توڑ کی سیاست کے گرو آصف علی زرداری کا شہر ہے، اسی شہر سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے عارف علوی پاکستان کے صدرہیں۔پی ٹی آئی اس شہر میں مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ مگر انہوں نے بھی اقتدار میں آنے کے بعد کراچی شہر کے مسائل کو حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ذرا سی بارش زیادہ ہوجائے تو اس شہر کی گلیاں دریا بن جاتی ہیں ،کھمبوں میں کرنٹ آ جاتا ہے۔
مجبوری میں آتے جاتے راہ گیر ان کھمبوں میں آئے کرنٹ کی نذر ہونے لگتے ہیں۔کراچی تو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے صنعت و حرفت کا مرکز ہے یہاں پاکستان کا امیر ترین کاروباری طبقہ رہتا ہے۔ اس وقت کراچی پاکستان کے شوبز اور فلم انڈسٹری کا گڑھ مانا جاتا ہے لیکن یہاں سے پیش کیے جانے والے ڈراموں اور فلموں کا گلیمر دیکھ کر ہرگز اندازہ نہیں ہوتا کہ اس شہر نامراد میں لوگ ہر سال بارش کے موسم میں کھمبوں سے کرنٹ لگ کر مر جاتے ہیں۔ مگر ان کی ناگہانی موت کا اس شہر کو جونک کی طرح چمٹے حکمرانوں کچھ اثر نہیں ہوتا۔اہل اقتدار کو آئینہ دکھانا میڈیا کا کام تھا پھر ہمارے ذرائع ابلاغ کو کیا ہوا ؟حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کے ہزاروں افتادگان خاک پر ٹوٹنے والی سیلابی قیامت میڈیا پر اہم خبر نہ بن سکی۔۔!
تبصرہ لکھیے