ہوم << کیا ہم حالتِ عذاب میں ہیں- اوریا مقبول جان

کیا ہم حالتِ عذاب میں ہیں- اوریا مقبول جان

جب پوری دُنیا ایک آنے والے کل کے خوف سے لرزاں ہو، بڑے بڑے طاقتور ملکوں اور امیر ترین معیشتوں کے حکمران مضطرب ہوں، ایسے میں پینتالیس ہزار ارب روپے کے مقروض ملک ’’پاکستان‘‘ کے حکمران آنے والے دنوں کی مصیبتوں سے بے نیاز اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود سیاسی اور میڈیائی پھلجھڑیوں سے شغل فرما رہے ہوں تو اس قوم کی بدقسمتی پر رونا آتا ہے۔

آسمان پر چھائے بادل جب اَبرِ رحمت کی بجائے لوگوں پر آفت کی صورت برسنے لگے، دریا جو فصلیں آباد کیا کرتے تھے، فصلیں برباد کرنے لگیں، تو پھر کون ہے کہ جو اس میں چُھپے مالکِ کائنات کے اشارے کو نہ سمجھے۔ عالم یہ ہے کہ اگر کوئی اس جانب توجہ دلائے بھی کہ یہ تمام آفتیں، بلائیں، سیلاب، زلزلے اور فتنہ و فساد اللہ کی ناراضگی ہیں، تو ایسے شخص کی ہنسی اُڑائی جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کا گریبان تھام لیتا ہے کہ دیکھو اس اکیسویں صدی میں جب انسان فلوریڈا کے ساحلوں سے چلنے والی ہوائوں کی رفتار کا تعین کر لیتا ہے، اس سے ہونے والے نقصان کا پیشگی اندازہ کرتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے علاقوں کا پتہ دینے پر دسترس رکھتا ہے، طوفان آنے سے کئی دن پہلے خبردار کیا جاتا ہے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا جاتا ہے اور تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔

ترقی کی علامت اس ’’عظیم المرتبت‘‘ جدید ’’حضرت ِ انسان‘‘ کے سامنے تم صدیوں پرانی کہاوتیں سناتے ہو کہ ’’یہ سب اللہ کی ناراضگی ہے‘‘۔ لیکن ان تمسخر اُڑانے والے کم علم حضرات کو اندازہ نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا سائنسی مرکز بھی ابھی تک ان دو آفتوں (زلزلہ و طوفان) کا پیشگی اندازہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ سائنسدانوں کو اس سب کا علم اس وقت ہوتا ہے جب یہ دونوں آفتیں اپنی پوری قوت سے انسانوں کی بستیاں اُجاڑنے کے لئے حملہ آور ہو چکی ہوتی ہیں۔ اللہ نے قرآن میں انسانوں پر اپنے عذاب کی تین صورتیں بتائی ہیں، ’’کہہ دو اللہ قادر ہے اس بات پر کہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے (کوئی عذاب اُٹھا دے) یا تم کو گروہ در گروہ تقسیم کر کے، آپس میں گتھم گتھا کر دے اور ایک دوسرے کے تشدد کا مزا اچھی طرح چکھا دے‘‘( الانعام: 65)۔

انسانی وسائل کا عالم یہ ہے کہ زمین کے چاروں طرف مسلسل سیٹلائٹ گھمانے اور سمندروں کی لہروں کے مدوجزر کا حساب رکھنے کے باوجود، جدید سائنس، طوفان کی پہلے سے خبر دینے کے حوالے سے بے بس ہے: "The precise tracking and Prediction of Tornadoe is not yet a reality. Meteorologists can identify conditions that are likely to lead severe storms." ’’کسی طوفان (سمندری ہو یا زمینی)، کا پتہ چلانا یا اس کی پیش گوئی کرنا ابھی تک حقیقت نہیں بن سکا۔ ماہرین موسمیات زیادہ سے زیادہ ان علامات کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو کسی بڑے طوفان کا باعث بنتی ہیں‘‘۔ سائنس کی بے بسی کا منہ چڑاتا ہوا یہ فقرہ ’’انسائیکلوپیڈیا آف سائنس‘‘ کے تازہ ترین اپ ڈیٹ ایڈیشن میں درج ہے۔ فضائوں کا سینہ چیر کر خلائوں میں سفر کرنے والا اور نئے نئے سیّاروں پر قدم رکھنے والا انسان، اللہ کی قدرت کے سامنے کس قدر بے بس ہے کہ تمام سمندر، زمین اور ہوا کی گردشیں، مستقل اس کی نظروں کے سامنے ہیں، مگر وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ کب ان سمندروں سے سحاب اُٹھے گا، کب یہ ایک طوفان میں بدلے گا اور پھر کب ایک خوفناک عذاب کی صورت بستیاں اُجاڑتا چلے جائے گا۔

آسمانوں سے عذاب کا نزول، اللہ کی بتائی ہوئی عذاب کی صورتوں میں سے پہلی صورت ہے، جب کہ عذاب کی دوسری صورت، پائوں کے نیچے سے عذاب ہے۔ اس عذاب کی پیشگی خبر کے بارے میں بھی انسان مکمل طور پر بے بس ہے بلکہ کم علم اور لاچار بھی نظر آتا ہے۔ یہی انسائیکلوپیڈیا آف سائنس لکھتا ہے: "Neither US Geological survey, nor any other scientists have ever predicted an earthquake. We do not know how, and we do not expect to know how any time in the forceable future." ’’نہ ہی امریکہ کا جیالوجیکل سروے اور نہ ہی کوئی سائنس دان آج تک کسی زلزلے کی پیشگی خبر دے سکا ہے۔ ہمیں بالکل علم نہیں کہ ایسا کس طرح ممکن ہے، بلکہ ہم تو یہ بھی اندازہ نہیں لگا سکتے، کتنے عرصے تک ہم ایسا کرنے کے قابل ہو جائیں گے‘‘۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کی دوسری علامت یعنی ’’پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب اُٹھا دے‘‘ کسی بھی وقت اچانک انسان کو دبوچ سکتی ہے۔

کب اور کس وقت بڑے بڑے محل، زمین کی ایک چھوٹی سی جنبش سے ملبے کا ڈھیر بن جائیں اور کب بستیاں لاوے تلے دب جائیں۔ جدید دنیا کی ہمہ گیر سائنسی ترقی کے باوصف انسان کی بے بسی کا عالم یہ ہے، مگر پھر بھی یہ غافل انسان، اللہ کے اس دعوے کو نہیں مانتا کہ زمین بے وجہ شعلے نہیں اُگلتی اور آسمان بھی اچانک ازخود بستیاں اُجاڑنے والے بادل نہیں برساتا، بلکہ یہ سب ایک قادرِ مطلق کے کنٹرول میں ہے جس کی ناراضگی کی وجہ سے ایسا کچھ ہوتا ہے۔ اللہ کے اس عذاب میں بھی ایک حکمت چُھپی ہے۔ وہ مہربان ربّ، غفلت میں سوئی ہوئی انسانیت کو اس لئے جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اللہ کی سمت لوٹ جائیں اور نیک اعمال سے روزِ محشر کی کچھ تیاری کر لیں۔ اللہ کی نازل کردہ آفت یا مصیبت، جس کے نتیجے میں قومیں اللہ کی طرف لوٹ جائیں، اس سے رجوع کر لیں، استفار کریں، اعمال کو درست کر لیں تو اہلِ علم اسے آزمائش کہتے ہیں۔

لیکن جس طوفان یا زلزلے کے باوجود، اللہ بستی والوں کو توبہ کی توفیق بھی نہ دے، وہ اس کی سائنسی توجیہات کرنے لگیں، سہولیات کا فقدان اور آفت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں کمی جیسی باتوں کا رونا رونے لگیں تو پھر سمجھو یہ اس قوم پر اللہ کا عذاب ہے۔ یہ بھی عذاب کی ایک صورت ہے کہ اللہ عقل و ہوش چھین لیتا ہے۔ لوگ عموماً یہ سوال کرنے لگ جاتے ہیں کہ اللہ کا عذاب غریبوں کی بستیوں پر ہی کیوں آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سان فرانسسکو کے 1906ء کے زلزلے سے لے کر جاپان کے 2011ء کے سونامی تک سہولیات سے مزین شہروں کے برباد ہونے کی بیشمار داستانیں موجود ہیں اگر کوئی غور کرے۔ بلند و بالا عمارتیں نہ زلزلہ سے ہلیں نہ سیلاب کی زد میں آئیں، بلکہ چند لمحوں کے لئے کئی سو فٹ بلند سمندر کی لہر آئی اور گزر گئی، مگر سب کچھ برباد کر گئی۔ کسی بھی قوم پر بحیثیتِ مجموعی عذاب، دراصل اللہ کی ایک وارننگ ہوا کرتی ہے۔

اس عذاب میں مرنے والے غریب و امیر سب نے آخرت میں اللہ کے حضور بھی پیش ہونا ہے۔ اس دن اگر تباہ ہونے والے کچے مکانوں کے مکینوں کے اعمال اچھے ہوئے تو وہ کامیاب و کامران جنت میں جائیں گے اور بستی میں سلامت رہنے والے پختہ مکان والے شخص کے اعمال بُرے ہوئے تو وہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ خود فرماتا ہے ’’ڈرو اس فتنے سے جس کا وبال صرف خاص ظالموں کو نہیں پہنچے گا‘‘ (الانفال: 25)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر خاص و عام پر ایک ساتھ عذاب کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا، ’’اللہ کچھ لوگوں کے عمل کی وجہ سے سب پر عذاب نہیں بھیجتا جب تک لوگ ایسا نہ کرنے لگیں کہ ان کے درمیان برائی ہو رہی ہو اور وہ اس کو روکنے اور منع کرنے پر قدرت رکھتے ہوں مگر ایسا نہ کریں۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو اللہ ہر خاص و عام کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔

عذاب کی تیسری علامت یعنی گروہوں میں تقسیم ہو کر آپس میں گتھم گتھا کا شکار تو ہم برسوں سے ہیں اور دن بدن ہماری حالت ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم ایک منقسم معاشرہ ہیں، رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور مسلک میں بٹا ہوا، ایک دوسرے سے نفرت کرنے والوں کا ایک بے ہنگم ہجوم ہے۔ ہم پر عذاب کی تینوں صورتیں مسلّط ہیں۔ ایسے کون ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم حالتِ عذالت میں نہیں ہیں۔ ہم اس قدر عذاب کا شکار ہیں کہ تکبّر کی وجہ سے ہماری جبینیں اللہ کے سامنے استغفار کے لئے نہیں جھک رہیں، ہم سیاسی شعبدہ بازیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment