ہوم << تکلیف دہ سیاست، فوج کو سلام اور فارن فنڈنگ- محمد اکرم چوہدری

تکلیف دہ سیاست، فوج کو سلام اور فارن فنڈنگ- محمد اکرم چوہدری

میں نے پہلے بھی لکھا تھا پھر لکھ رہا ہوں سیاسی فوائد سمیت کوئی فائدہ ایسا نہیں ہے جو رشتوں، دیرینہ دوستی اور تعلق سے زیادہ اہم ہو۔ میں نے دہائیوں سے چودھری برادران کو ایک ساتھ دیکھا ہے، ان کی اصل طاقت بھی یہی ہے۔

ملک کی اہم شخصیات جب بھی ظہور الٰہی روڈ پر واقع چودھریوں کی رہائش گاہ دورہ کرتیں تو یہی لکھا جاتا تھا کہ چودھری برادران سے ملاقات ، اہم سیاسی معاملات پر بات چیت لیکن گذشتہ چند دنوں میں ہونے والی تبدیلیوں نے وقتی طور پر اس روایتی جملے کو توڑ دیا ہے۔ میرے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست ، مال و دولت ، عہدے، گاڑیاں، وزارتیں سب کچھ یہیں رہ جانا ہے۔ دنیا شاید یاد نہ رکھے کہ کون وزیراعظم تھا یا وزیر اعلیٰ تھا لیکن یہ ضرور یاد رکھا جائے گا کہ کون آخری سانس تک بھائی کے ساتھ رہا۔ لوگوں کو متحرک کرنے اور انہیں اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کے لیے کسی وزیراعظم یا وزیراعلی کی مثال تو نہیں دی جا سکتی لیکن ایک بھائی کی مثال ضرور دی جا سکتی ہے۔ ہم ویسے ہی اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ ان حالات میں سیاسی خاندانوں کا تقسیم ہونا اچھی بات نہیں ہے۔

پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم (ق) کے سربراہ و سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین نے اپنے چچا زاد بھائی و وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے درخواست کی ہے کہ 'اپنی رہائش گاہ واپس آجائیں۔ رہائش گاہ پر ایک طرف میرا کمرہ ہے تو دوسری طرف پرویز الٰہی کا ہے۔" یہ دہائیوں کا تعلق ہے اور اس موقع پر توڑنے کے بجائے جوڑنے کا کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی فائدے کے لیے بھائیوں کو جدا کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ویسے بڑے چودھری صاحب نے اس بہانے یہ بھی بتا دیا ہے کہ ان کے پرویز الٰہی کے کمرے ساتھ ساتھ ہیں۔ اگر پرویز صاحب بات نہ بھی سنیں تو چودھری شجاعت صاحب اپنے کمرے میں کھڑے ہو کر بھی پرویز صاحب کو آواز لگا سکتے ہیں۔ اب یہ دوسری طرف والے پرویز الٰہی پر ہے کہ وہ چودھری شجاعت حسین کو جواب دیتے ہیں یا نہیں لیکن شجاعت حسین نے دل کی بات کر دی ہے۔

دونوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور تبدیلی کو بھی تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔ ودھری شجاعت کہتے ہیں کہ "سب ٹھیک ٹھاک ہے اور سب ٹھیک ٹھاک رہے گا۔ میرے بیٹوں کے متعلق بات کی گئی اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بیٹوں نے ہر موقع پر مجھ سے پوچھ کر کام کیا اور مجھے اپنے بیٹوں پر فخر ہے۔" بنیادی طور پر یہی مسئلہ ہے آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ شجاعت اور پرویز صاحب نہیں بلکہ بیٹوں ہے درمیان ہے اولاد کو بھی چاہیے کہ وہ والدین کو امتحان میں نہ ڈالے۔ خاندانی روایات اتحاد کا سبق دیتی ہیں تو ذاتی انا کو خاندانی روایات اور بزرگوں کی محبت پر قربان کر دینا چاہیے۔

مستقبل انہی کا ہے لیکن انہیں بزرگوں کو تقسیم کر کے آگے بڑھنے کے بجائے ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔ چودھری شجاعت کہتے ہیں "ق لیگ کہاں ٹوٹی ہے، کوئی نہیں ٹوٹی، ہوش کے ناخن لیں، اپنے خاندان اور گھر کا مذاق نہ بنائیں، انہوں نے پارٹی اور خاندان کو تقسیم کرنے کی سازش کی ہے۔" سازش کو ناکام بنانے کے لیے سازش کرنے والوں کی نشاندھی ضروری ہے۔ چودھری صاحب کے بقول ڈائیلاگ میں چند سیڑھیاں اترنی اور چڑھنی پڑیں گی۔۔خوشی محسوس کررہا ہوں کہ سب کو ہمارے خاندان کی فکر ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مونس الہیٰ کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں، سالک کو وزیر بنا لیتا ہوں لیکن میں نے کہا مونس ہی وزیر بنے گا۔" شجاعت صاحب نے دل کی باتیں کی ہیں انہیں پرویز الہٰی کی مختلف سیاسی حکمت عملی اور سوچ کا دکھ بھی ہے۔ ایسے ہونا نہیں چاہیے۔ یہ خاندان پاکستان کی سیاست ک حسن ہے اور یہ حسن قائم رہنا چاہیے۔ بہرحال میری نیک خواہشات ہیں اللہ انہیں دوبارہ ایک ساتھ بیٹھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ہیلی کاپٹر میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سوار ہیں۔ ہیلی کاپٹر میں کور کمانڈر 12 کور سمیت 6 افراد سوار تھے اور ہیلی کاپٹر سے فلڈ ریلیف آپریشن کا معائنہ کررہے تھے۔ ہیلی کاپٹر کا ائیر ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہوا۔ ہیلی کاپٹر لسبیلہ میں فلڈ ریلیف آپریشن میں مصروف تھا۔ہیلی کاپٹر کی تلاش کا آپریشن جاری ہے۔ہیلی کاپٹر میں کور کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد اور 12 کور کے انجینیئر بریگیڈیئر خالد سوار ہیں۔ہیلی کاپٹر میں سوار افراد میں پائلٹ میجر سعید، معاون پائلٹ میجر طلحہٰ اورکریو میں چیف نائیک مدثر بھی شامل ہیں۔

یہ آپریشن اس وقت جاری ہے جب ملک میں ہر سیاست دان کو اپنی سیاست کی فکر ہے وہ سب جو افواجِ پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔ باتیں بنانے میں مصروف تھے اور فوجی جوان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ باتیں کرنا آسان ہے اور صرف باتیں بنانا اس سے بھی آسان ہے لیکن مشکلات میں گھرے پاکستانیوں کے لیے میدان میں نکلنا مشکل ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر مشکل وقت میں فوجی جوانوں نے بلا خوف و خطر جان کی پرواہ کیے بغیر میدان میں خدمات انجام دی ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ گذشتہ روز بھی فوج کو نشانہ بنایا گیا کاش کہ کوئی بات کرنے سے پہلے حالات کو ہی دیکھ لے۔ ملک میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ کیا سیاست دانوں کی ذمہ داری نہیں کہ وہ کم از کم اس مشکل وقت میں غیر ضروری بیانات سے گریز کریں۔ مشکلات کا شکار سیلاب متاثرین کیا سوچ رہے ہوں گے کہ ان کی قسمت کے فیصلے کرنے والوں کو بیانات کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے اچھا کیا ہے انہیں ملک بھر میں جہاں کہیں بھی سیلاب نے تباہی مچائی ہے ہر جگہ جانا چاہیے۔

آج پاکستان تحریکِ انصاف فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔ قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے کسی بھی سیاسی جماعت نے اگر قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ اگر کہیں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کی سزا بھی موجود ہے۔ فیصلہ کیا آتا ہے اس بارے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا بظاہر تو پی ٹی ائی کی مشکلات میں اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اگر دیگر سیاسی جماعتیں خوشیاں منانے کی تیاریاں کر رہی ہیں تو یاد رکھیں ایسے فیصلے کسی بھی کسی کے بھی خلاف آ سکتے ہیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے حساب کتاب کو درست کریں۔

Comments

Click here to post a comment