سامانی سلطنت کے ایک حکمران منصور اوّل نے جیسے ہی تخت سنبھالا، سب سے پہلے خراسان جیسے اہم صوبے کے گورنر الپ تگین کو معزول کر دیا۔ الپ تگین دراصل ایک ترک غلام تھا، جو ترقی کی منازل طے کرتے کرتے سامانی سلطنت کا سپہ سالار بنا اور سب سے اہم صوبے خراسان کا گورنر بھی تھا۔ لیکن ماضی میں اُس نے ولی عہدی کے معاملے پر بحث میں منصور کو تخت پر بٹھانے کی مخالفت کی تھی۔ بس یہی حرکت اُسے مہنگی پڑ گئی۔ یوں خراسان کے بجائے غزنی جیسا دور دراز صوبے کی امارت الپ تگین کے نصیب میں آئی۔ سن 962ء میں وہ غزنی پہنچا، یہ شہر آج افغانستان میں واقع ہے اور اس ایک فیصلے نے افغانستان بلکہ پاکستان کی تاریخ بھی انقلاب برپا کر دیا۔ کیسے؟ یہی سب ہم بیان کریں کے آج کی قسط میں۔
الپ تگین جیسے ہی غزنی پہنچا، اس نے خود کو 'شاہِ غزنی' کہلوانا شروع کر دیا۔ ویسے تو وہ سامانیوں کی وفاداری کا دم بھرتا رہا، لیکن مستقبل کی ایک نئی ریاست کی بنیاد ضرور رکھ دی تھی، اس نئی سلطنت نے بعد میں خطے سے سامانی اقتدار کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
الپ تگین کا دور بہت ہی مختصر رہا۔ وہ ایک سال بھی غزنی پر حکومت نہ کر سکا اور انتقال کر گیا۔ اس کی جگہ غزنی کی امارت ابو اسحاق ابراہیم نے سنبھالی۔ یہ بھی ایک ترک افسر تھا، جو تقریباً تین سال یہاں کا امیر بنا رہا۔
سن 977ء میں سبک تگین امیرِ غزنی بنا، جو مشہورِ زمانہ فاتح، اور مخالفین کے لیے بدنامِ زمانہ، محمود غزنوی کا باپ تھا۔ سبک تگین دراصل الپ تگین کا غلام تھا اور بعد میں اس کا داماد بھی بنا۔
مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ غلاموں کا نچلے درجوں سے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنا مسلم معاشروں میں ایک عام سی بات تھی۔ اس کے مقابلے میں مغرب میں غلامی نہ صرف انسانی تاریخ کا بھیانک ترین روپ تھا بلکہ آج بھی نسل پرستی کی جڑیں کسی نہ کسی صورت میں نظر آتی رہتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلم تاریخ میں تو کئی عظیم حکومتیں اصل میں غلاموں کی ریاستیں تھیں، مثلاً مصر کے مملوک اور ہندوستان کا خاندانِ غلاماں۔ اب غزنی میں جو ریاست بننے والی تھی وہ غلاموں کی طاقت کا علانیہ اظہار تھی۔
الپ تگین کے بیٹے محمود غزنوی نے 998ء میں غزنی کو ایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ریاست بنا دیا۔ اس سے پہلے کے تمام حکمران دراصل غزنی میں سامانیوں کے امیر کہلاتے تھے، لیکن محمود اپنے لیے 'سلطان' کا لفظ استعمال کیا۔ وہ تاریخ کا پہلا حکمران تھا جس نے خود کو سلطان قرار دیا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں اس کا لشکرِ جرّار تہران سے لاہور اور سندھ سے وسطِ ایشیا تک چھا گیا۔
محمود کو ہندوستان پر 17 حملوں کی وجہ سے عالمگیر شہرت ملی۔ جس کے دوران اس نے پشاور، ملتان، لاہور، قنوج، اجمیر، گوالیار اور سومنات پر حملے کیے۔ موجودہ پاکستان کا بیشتر حصہ اُس کے دور میں غزنوی سلطنت کا حصہ بنا اور یوں خطے کے مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
اک نیا طرزِ حکومت
محمود غزنوی نے خطے میں ایک بالکل نئے طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی۔ اُس زمانے میں کسی فوج میں غلاموں کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ عباسی، سامانی، فاطمی بلکہ سبھی ریاستوں میں حکمران اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اپنے گرد غلاموں کی فوج رکھتے تھے تاکہ انہیں دیگر طاقتور عناصر سے تحفظ حاصل ہے۔ لیکن پوری فوج غلاموں پر مشتمل ہو؟ ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ فوج میں بڑی تعداد مختلف قبائل کے آزاد لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی، چاہے وہ عرب ہوں یا فارسی۔
خود ترک حکومتوں کا بھی یہی حال تھا، قراخانیوں کی فوج کا بیشتر حصہ بھی آزاد افراد پر مشتمل تھا۔ لیکن محمود غزنوی وہ پہلا مسلم حکمران تھا جس کی پوری "وار مشین" ہی غلاموں پر مشتمل تھی۔ اس کے افسر، سپاہی، سبھی غلام ہی تھے۔
یہ ریاست کی تشکیل اور اسے چلانے کی ایک بالکل نئی حکمت عملی تھی۔ آج کے الفاظ میں کہیں تو مکمل طور پر فوجی طرزِ حکومت تھا، جس کے توسیع پسندانہ عزائم کی خطے کو بڑی قیمت چکانا پڑی۔ محمود غزنوی کی تیزی سے نقل و حرکت کرنے والی یہ فوج شاید ہی کبھی ایک لاکھ سے کم ہوئی ہو۔ یہ رنگ، نسل یا مذہب سے بالاتر ایسی فوج تھی، جس کا مقصد صرف ایک تھا: محمود کے ہر حکم کی پیروی کرنا۔
ابتدائی دور
جب محمود غزنوی نے اقتدار سنبھالا تو اسے فوراً ہی شمال سے قراخانی فوج کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں مسلم تاریخ کی دو ابتدائی ترک ریاستیں آپس میں ہی لڑ پڑیں۔ دونوں کی نظریں تھی سامانی ریاست کی باقیات اور اس کے دارالحکومت بخارا پر۔ اس مہم میں کامیابی محمود غزنوی کو ملی اور تبھی اس نے خود کو سلطان قرار دیا، دنیا کا پہلا سلطان!
لیکن حقیقت یہ تھی کہ دونوں ریاستوں میں سے کوئی بھی دوسرے پر مکمل طور پر غالب نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ دونوں نے مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کر لیا اور آمو دریا کو سرحد قرار دیا۔
یعنی جس طرح مشرق میں محمود غزنوی کی سرحدی حدود آج کی جدید پاک-بھارت سرحد سے ملتی جلتی ہیں۔ وہیں شمال میں بلکہ افغانستان اور دیگر وسطِ ایشیائی ریاستوں کی سرحد بھی وہی جو محمود غزنوی نے طے کی تھی۔
پھر محمود نے سیستان میں صفاری خاندان کی باقیات کا خاتمہ کیا اور 1001ء میں پشاور کی جنگ میں راجا جے پال کو شکست دی۔ راجا اس شکست سے اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ خود کشی کر لی۔ اس کے ساتھ ہی کسی مسلم ریاست کے قدم اُن علاقوں میں جمنا شروع ہو گئے جو بعد میں پاکستان کا حصہ بنے۔
چند سالوں بعد جب ملتان پر قابض اسماعیلی طاقتوں نے جے پال کے بیٹے آنند پال سے مدد طلب کی تو محمود نے ملتان پر حملہ کر دیا اور اسماعیلی کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ یہی نہیں بلکہ آنند پال کو بھی شکست دی اور پھر 1008ء میں اٹک کے قریب ہندوستانی راجاؤں کی ایک مشترکہ فوج کو بھی ہرایا۔
پاکستان کا موجودہ صوبہ پنجاب کا 1023ء میں باضابطہ طور پر غزنوی ریاست کا حصہ بنا۔
سومنات اور منات
محمود غزنوی کے بڑے کارناموں میں سے ایک، بلکہ دوسروں کے الفاظ میں کہیں تو اس کی بدنام ترین مہمات میں سے ایک، 1025ء میں سومنات کی فتح تھی۔ بھارت کی ریاست گجرات میں واقع یہ مندر دسویں صدی میں چولکھیا شاہی خاندان نے بنوایا تھا اور یہ علاقے کے امیر ترین مندروں میں سے ایک تھا۔ محمود نے اس مندر پر قبضہ کیا اور اس کے بت توڑنے کا حکم دیا۔ اسے یہاں سے بہت کثیر مال و دولت ملا جس کے ساتھ وہ غزنی واپس لوٹ گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اُس زمانے کے بیشتر مؤرخین نے اس مندر اور محمود کے حملے کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا، یہاں تک کہ ہندو مؤرخین کی اکثریت نے بھی زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے، جس طرح کے آج کیا جاتا ہے۔ بہرحال، دو مؤرخین ایسے ہیں جنہوں نے سومنات کی فتح کا ذکر بہت حیرت انگیز پیرائے میں کیا ہے۔ یہ فرخی سیستانی اور ابو سعید گردیزی تھے، جنہوں نے لکھا ہے کہ اسلام کی آمد کے وقت عرب میں جن بتوں کی پوجا کی جاتی تھی، ان میں سب سے مشہور لات، عزیٰ اور منات تھے۔ فتحِ مکہ کے بعد نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بتوں کو توڑنے کا حکم دیا تھا۔ لات اور عزیٰ کا تو خاتمہ کر دیا گیا، لیکن جب مسلمان پہنچے تو انہیں منات کا بت نہیں ملا۔ اِن مؤرخین کے مطابق یہ بت مسلم لشکر کی آمد سے پہلے ہی عرب سے نکال کر ایسے علاقے میں پہنچا دیا گیا تھا جہاں بت پرستی رائج تھی۔ ممکنہ طور پر یہ جزیرہ نما کاٹھیاواڑ کا علاقہ سومنات ہی تھا، جو ریاست گجرات ہی میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ محمود غزنوی تمام تر پیشکشوں کے باوجود بت توڑنے پر بضد رہا اور یوں بت فروش کے بجائے بت شکن کہلایا۔
کیا سومنات میں منات ہی کا بت تھا؟ اس بارے میں یقین سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر کسی نے محمود غزنوی کو اس بات پر قائل کر لیا تھا، تو نتیجہ بہرحال بت ٹوٹنے کی صورت ہی میں نکلنا تھا۔
سومنات کے بعد محمود نے مغرب کی جانب پیش قدمی کی اور رے، اصفہان اور ہمدان تک خاندانِ بنی بویہ سے چھین لیے اور پھر 1030ء میں انتقال کر گیا۔ اس کا مزار آج بھی غزنی میں موجود ہے۔
تبصرہ لکھیے