سابق وزیر اعظم نے پنجاب کا قبضہ واپس ملنے کے جشن سے خطاب کرتے ہوئے غیر ملکی سازش کی پہلی بار واضح الفاظ میں تشریح کی۔ فرمایا، میرے خلاف بیرونی سازش کی گئی اور میں پوچھتا ہوں (کن سے، یہ نہیں بتایا) کہ کیوں میری حکومت ختم ہونے دی گئی۔
حکومت تحریک عدم اعتماد سے ختم ہوئی تھی۔ سابق وزیر اعظم کا سوال گویا یوں ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ اور پھر پیش ہو گئی تھی تو کامیاب ہونے کیوں دی گئی۔ یعنی تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش ہے، اسے پیش کرنے سے کیوں نہیں روکا گیا اور پاس ہونے کے بعد کامیاب ہونے سے کیوں نہیں روکا گیا۔ تحریک عدم اعتماد پاس ہونے سے روکنا، دنیا کے ہر ملک میں، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ ناکام بھی بنا سکتی ہے اور ناکام بنانے میں ناکام بھی ہو سکتی ہے لیکن تاریخ میں پہلی بار معلومات میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے روکنا یا اسے منظور نہ ہونے دینا کسی اور کی ذمہ داری ہے۔
کس کی ذمہ داری ہے، فی الحال اس سوال کو چھوڑئیے اور یہ گراں قدر معلومات اپنے انسائیکلو پیڈیا میں شامل فرما لیجیے کہ تحریک عدم اعتماد کا درست ترجمہ غیر ملکی سازش ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثر ترامیم پیش اور پاس ہوتی رہتی ہیں۔ مناسب ہے کہ جس باب میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا طریقہ لکھا ہے، ایک ترمیم کر کے اس کے عنوان اور متن میں بھی ضروری ترمیم کر دی جائے۔ یعنی باب کا عنوان یوں ہو: غیر ملکی سازش پیش کرنے کا طریقہ اور علیٰ ھذا متن کو بھی درست فرما دیا جائے ۔سابق وزیر اعظم نے فرمایا کہ میرے دور میں جتنی ترقی ہوئی پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ سر کھجاتے کھجاتے خاصا وقت لگ گیا لیکن پرانی باتیں اور پرانی بھی ایسی کہ کئی ماہ گزر چکے ہوں، کہاں یاد آتی ہیں۔ خاں صاحب درست فرماتے ہوں گے، واقعی بے مثال ، بے نظیر بلکہ عدیم النظیر ترقی ان کے دور میں ہوئی ہو گی لیکن کمزور یادداشت کا کیا کیا جائے کہ یاد ہی نہیں آ رہی۔
تھوڑا تھوڑا کچھ کچھ جو کچھ یاد آ رہا ہے وہ البتہ کچھ اور ہی ہے۔ مثلاً دو کروڑ افراد راتوں رات بے روزگار، خط غربت سے یک بیک ڈیڑھ کروڑ افراد کا لڑھک جانا، ترقیاتی اخراجات پر مکمل کٹ، قرضوں کا بڑھ کر 50 ہزار ارب ہو جانا، پرائمری سکولوں سے بچوں کی انرولمنٹ میں 50 فیصد کمی وغیرہ وغیرہ۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟۔ لگتا ہے کسی اور دور کی یادیں خاں صاحب کے دور میں گھس کر بیٹھ گئیں ۔ ضرور یہی بات ہے ورنہ خاں صاحب کا دور تو الف سے یے تک موسلادھار ترقی کا تھا۔ اپنے مختصر، محض 45,40 منٹ کے خطاب میں آپ نے کرپشن کیخلاف اپنے جہاد مسلسل کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ کرپشن کا خاتمہ میری اوّلین ترجیح ہے، ماضی میں دو خاندانوں نے 30 سال کرپشن کی۔
دو خاندان حکومت میں آٹھ آٹھ نونو سال رہے، کل ملا کر زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سال۔ یہ ان خاندانوں کی کمال مہارت ہے کہ 18 سال میں سے 30 سال کرپشن کرتے رہے۔ یاد آیا، خان صاحب کے دور میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، یہ کہ خان صاحب کے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی میں پاکستان کا درجہ کرپشن میں بہت بڑھ گیا اور تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔ جبکہ ان سے پہلے کی چور ڈاکو حکومت میں کرپشن بہت حد تک ختم ہو گئی تھی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ،یقینا ، اسی غیر ملکی سازش کے تحت یہ رپورٹ جاری کی ہو گی ورنہ خان صاحب کا دور اور کرپشن ؟ توبہ توبہ!
مزید فرمایا جو لوگ (ارکان اسمبلی) ہمارا ساتھ چھوڑ گئے، وہ شرک کے مرتکب ہوئے۔ شرک کی حقیقت و ماہیت پر علمائے کرام نے سینکڑوں کتابیں لکھیں لیکن سب تشنہ تھیں، کمی رہ گئی تھی۔ یہ کمی خان صاحب نے پوری کر دی اور حقیقت شرک کا بیان مکمل کر دیا۔ اس گراں قدر فتوے اور فقہی اجتہاد کی ایک نقل مختلف مکاتب فکر کے وفاق ہائے مدارس کو بھیجی جانی ضروری ہے تاکہ وہ درس نظامی میں شامل کر کے یہ ضروری تقاضا پورا کر سکیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں محسن داوڑ نے بتایا کہ پختونخواہ صوبے کے حکمران اور اہم شخصیات (انہوں نے لمبی فہرست پڑھ کر سنائی) ٹی ٹی پی کو بھتہ دیتی ہیں۔
داوڑ صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی، بھتہ نہیں، چندہ دیتے ہوں گے۔ نیک لوگ دوسرے نیک لوگوں کو ہمیشہ سے چندہ دیتے آئے ہیں، اس میں انوکھا کیا ہے اور ٹی ٹی پی والوں کے نیک ہونے میں کسی کو شک نہیں ہے۔ بہت سے نیک لوگ ان دنوں ٹی ٹی پی والوں سے مذاکرات کرنے گئے ہوئے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے نامی گرامی اور جیّد قسم کے نیک علما شامل ہیں۔ ماضی میں ٹی ٹی پی کو برا کہہ کر پکارا جاتا رہا جو اجتہادی غلطی تھی، اب درست کر لی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ لوگ بم پھوڑتے ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی نیت کتنی نیک تھی۔ چندے کی بات چلی ہے تو وزیراعظم کی بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نے اسرائیل اور بھارت سے فنڈنگ لی، کسی نے ازخود نوٹس نہیں لیا۔ یہاں بھی غلط فہمی والا معاملہ ہے۔ فنڈنگ نہیں، چندہ اور چندہ دینا نیک کام ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں، یہ مت دیکھو کون دے رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا دے رہا ہے۔ لگتا ہے شہباز شریف صاحب نے یہ نیک کہاوت نہیں سنی۔
مریم نواز صاحبہ نے کہا ہے کہ غلطی بھی لاڈلے کے حق میں کی گئی اور اس غلطی کی تصحیح بھی لاڈلے کے حق میںکی گئی۔ اس کھلی ناانصافی کا کیا جواز ہے۔ آپ حالیہ فیصلے میں دئیے گئے ریمارکس پر اظہار خیال کر رہی تھیں۔ حیرت ہے، اسے ناانصافی قرار دینے کی کیا دلیل ہے۔ لغت میں اس ’’ردّ و بدل‘‘ کو محاورے کی زبان میں چت بھی میری پٹ بھی میری، کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اور لغت میں کہیں بھی اسے ناانصافی سے تعبیر نہیں کیا گیا ۔ بے شک لغت ملاحظہ فرما لیں۔ کراچی کے نامور گرامی قدر عزیر بلوچ مزید تین مقدمات سے بری ہو گئے۔ اب تک آپ کتنے مقدمات میں بری ہو چکے ہیں، گنتی کے لیے کیلکولیٹر کھولنا پڑے گا۔ گرامی قدر جیسی نیک سیرت باکردار ہستی کیخلاف یہ مقدمات بنانے والے کون ناہنجار تھے؟۔ ان سب ناہنجاروں کو ٹکٹکی سے باندھ دیا جائے تاکہ انصاف کا تقاضا پورا ہو۔
تبصرہ لکھیے