ہوم << منصبِ قضا (حصہ دوم) - مفتی منیب الرحمن

منصبِ قضا (حصہ دوم) - مفتی منیب الرحمن

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شُریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شُریح کوروزِ روشن کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے، کیونکہ آپ نے اپنے بیٹے حسَن اوراپنے غلام قَنبر کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔

قاضی نے کہا:بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیںہے ،اس لیے اُن کے خلاف فیصلہ دیا ۔یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیر مسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوا ،قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیا ،(یہ معیارِ عدل دیکھ کر )اُس نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھریہ آپ کے خاکستری اونٹ سے گر گئی اور میں نے اسے اٹھالیاتھا۔مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا ،کلمہ شہادت پڑھا ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کاوظیفہ دو ہزار درہم مقرر کیا ،پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا،(السنن الکبریٰ للبیہقی ج:10، ص:136، ملخّصاً)۔میرٹ کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

(۱)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک پالتو بکری کا دودھ دوہا گیا، اس وقت آپ ﷺاُن کے گھر میں تھے، حضرت انس کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر اس دودھ میں ملایا گیا تھا، رسول اللہ ﷺ کو وہ دودھ پیش کیا گیا، آپ نے اس دودھ سے پیا، پھر اس پیالے کو اپنے منہ سے الگ کردیا، آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں جانب ایک اَعرابی تھا، حضرت عمر کو یہ خوف ہوا کہ آپ اپنا پس خوردہ دودھ اَعرابی کو دیدیں گے تو انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ! ابوبکر آپ کے پاس ہیں، آپ ان کو عطا کردیں، لیکن آپ نے وہ دودھ اس اَعرابی کو دے دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا، پھر آپ نے فرمایا: دائیں طرف سے دو، پس دائیں طرف سے دو، (صحیح البخاری:2352)‘‘۔ سو آپﷺ نے فضیلت پر اصول کو ترجیح دی اور میرٹ کو قائم رکھا، کیونکہ ہر کام کو دائیں جانب سے شروع کرنا آپ کی سنت ہے۔

علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو دائیں جانب بیٹھا ہو، اس کو ترجیح دینی چاہیے خواہ وہ کم درجہ کا ہو اور جب اصول یہ ہے کہ دائیں جانب سے ابتدا کرنی چاہیے تو اس اصول پر عمل کرنا چاہیے اور نبی ﷺ نے اپنے اس عمل سے یہ بتایا ہے کہ اصول کو توڑنا نہیں چاہیے، خواہ اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے اعرابی کو حضرت ابوبکر پر ترجیح دینی پڑے، (عمدۃ القاری ،ج:12،ص:270)‘‘۔

(۲)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ کے پاس بحرین سے مال آیا اور یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے والے اموال میں سب سے زیادہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کو مسجد میں پھیلادو، رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے چلے گئے اور آپ نے اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، جب آپ نے نماز پڑھ لی تو آپ اس مال کے پاس آکر بیٹھ گئے، آپ جس شخص کو بھی دیکھتے، آپ اس کو اس مال سے عطا کرتے، اچانک آپ کے پاس(آپ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے .

اور انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے دیجیے! کیونکہ میں نے اپنا فدیہ بھی دیا تھا اور عقیل کا فدیہ بھی دیا تھا، تو رسول اللہ ﷺنے اُن سے فرمایا: آپ لے لیں، انھوں نے اپنا کپڑا بچھایا اور اس میں مال ڈالا حتیٰ کہ اس کی چوٹی (بڑا ڈھیر) بن گئی، پھر وہ اس کو اٹھا نہ سکے، انھوں نے کہا: یارسول اللہ! آپ کسی سے کہیے کہ وہ اس کو اٹھاکر میرے اوپر رکھ دے، آپ نے فرمایا: نہیں، انھوں نے کہا: پھر آپ اس کو اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں، آپ نے فرمایا: نہیں، انھوں نے اس سے مال کم کیا، پھر بھی اس کی چوٹی بن گئی، پس انھوں نے کہا: یارسول اللہ! آپ کسی سے کہیے : یہ مال اٹھاکر میرے اوپررکھ دے، آپ ﷺنے فرمایا: نہیں، انھوں نے کہا: اچھا!آپ خود اٹھاکر میرے اوپر رکھ دیں.

آپ نے فرمایا: نہیں، انھوں نے اس سے کچھ مال کم کیا، پھر اٹھاکر اس کو اپنے کندھے کے اوپر رکھ لیا، پھر چلے گئے اور ان کی حرص پر تعجب کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی نظر مسلسل ان کا پیچھا کرتی رہی حتیٰ کہ وہ نظر سے اوجھل ہوگئے اور جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی تھا، رسول اللہ ﷺ وہاں سے نہیں اٹھے،(صحیح البخاری:421)‘‘۔ غور کا مقام ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کے چچا بھی تھے اور آپ سے عمر میں بھی بڑے تھے، لیکن آپ چونکہ بحیثیتِ حاکم مال کو تقسیم فرمارہے تھے، اس لیے آپ نے عدل کے اصول کو قائم رکھا اور قرابت کو ترجیح نہیں دی، کیونکہ آپ نے ہر ایک کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ جتنا مال خود اٹھاسکتا ہے، اٹھالے۔

(۳)’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھے نبی ﷺ کے پاس لے گئیں، وہ آپ سے یہ شکایت کرنے گئی تھیں کہ چکی پیسنے سے ان کے ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں اور ان کو یہ خبر پہنچی تھی کہ آپ کے پاس کچھ غلام آئے ہیں، لیکن حضرت سیدہ کی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی، پھر جب رسول اللہ ﷺ گھر آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدہ فاطمہ کے آنے کی آپ کو خبر دی، پھر رسول اللہ ﷺہمارے پاس آئے، اس وقت ہم اپنے بستر میں جاچکے تھے، ہم آپ کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: اپنی جگہ پر رہو ،آپ آکر میرے اور حضرت سیدہ کے درمیان بیٹھ گئے، حتیٰ کہ آپ کے قدموں کی ٹھنڈک میںنے اپنے پیٹ پر محسوس کی، پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتائوں جو تم دونوں کے سوال سے بہتر ہے، جب تم دونوں اپنے بستروں پر جائو تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ پڑھو، ۳۳ مرتبہ الحمد للہ پڑھو اور ۴۳ مرتبہ اللہ اکبر پڑھو، پس یہ پڑھنا تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے، (صحیح البخاری:۵۳۶۱)‘‘۔پس غور کیجیے! نبی ﷺ کے پاس مالِ غنیمت میںغلام اور باندیاں آئیں، آپ نے ان میں سے سب لوگوں کو حصہ دیا، نہیں دیا تو اپنی سب سے محبوب ترین صاحبزادی کو، جن کے ہاتھ پر چکی پیستے پیستے چھالے پڑ گئے تھے۔ آج ہمارے ہاں اقربا پروری اور دوست نوازی کا جو دور دورہ ہے، کیا اسے شِعار نبوت سے کوئی نسبت ہے ۔

قاضی کو مغلوب الغضب ہوکر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے،حدیث پاک میں ہے:’’حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا:کوئی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ،(مسلم:1717)، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ غصے کے عالم میں اس سے بے انصافی ہوجائے،اسلام نے یہ اصول بھی بتایا کہ فیصلہ کرنے میں بہتر معیار کو قائم رکھنا چاہیے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور دائود اور سلیمان کو یاد کیجیے !جب وہ ایک کھیت (کے تاراج ہونے کے بارے میں )فیصلہ کر رہے تھے ،جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو اجاڑ دیاتھا اور ہم ان کے اس فیصلے کو دیکھ رہے تھے ، سوہم نے سلیمان کواس کا صحیح فیصلہ سمجھادیااورہم نے دونوں کوقضا کی اہلیت اور ( نبوت کا)علم عطا کیاتھا ، (الانبیاء:78-79)‘‘، اس کی تفصیل میںعلامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے:

’’حضرت دائود علیہ السلام کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک شخص کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں آگئیں اور کھیت کا نقصان کردیا، حضرت دائود علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ بکریوں کی قیمت اس مالیت کے برابر ہے جس کا کھیت والے نے نقصان اٹھایا تھا، انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریاں کھیت والے کو دیدی جائیں ،حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ کھیت والا اپنے پاس بکریاں رکھے اور ان سے فائدہ اٹھائے.

اور بکریوں والے کھیت کو دوبارہ اصل حالت پر لانے کے لیے کھیتی باڑی کریں اور جب کھیت پہلی حالت پر واپس آجائے تو بکریاں ان کے مالکوں کو لوٹادیں اور کھیت والے اپنا کھیت لے لیں ، اس میں دونوں کا نقصان نہ ہوگا، حضرت دائود نے یہ فیصلہ سن کر حضرت سلیمان کی تحسین فرمائی اور اپنی رائے سے رجوع کرلیا، فقہی اصطلاح میں حضرت دائود نے حضرت سلیمان کے استحسان کے مقابلے میں اپنے قیاس سے رجوع فرمالیا،(شرح صحیح مسلم، ج:3،ص: 319-320)‘‘۔

Comments

Click here to post a comment