ایرانی معاشرہ صدیوں سے شہنشاہوں کے زیرِنگیں پروان چڑھتا رہا ہے۔ چار ہزار سال قبل مسیح، آریائی نسل کے جو لوگ چراگاہوں کی تلاش میں یہاں آ کر ریوڑوں کی طرح آباد ہوئے۔ انہیں ’’دیوکس‘‘ (Diokes) نامی بادشاہ نے ایک پائیدار اور عظیم سلطنت کے طور پر مجتمع کیا۔
یہ شخص 655 قبل مسیح مر گیا، لیکن اپنے پیچھے ایک شاہ پرست قوم اور ہمدان کا محل چھوڑ گیا جس کی سات دیواریں تھیں جن میں ہر کسی کا رنگ جداگانہ تھا، بیرونی دیوار سفید رنگ کے شاندار پتھروں کی تھی تو دوسری سیاہ، تیسری سرخ، چوتھی نیلی، پانچویں قرمزی، چھٹی روپہلی اور آخری دیوار جس کے اندر شاہی زندگی آباد تھی، وہ سنہری یعنی سونے کی بنی تھی۔ تقریباً تین ہزار سالوں کی تہذیبی روایت نے ایرانی طرزِ معاشرت اور زندگی کو بادشاہوں کی وفاداری، پُرتکلف طرزِ انداز، لکھنؤ کی طرح بلاوجہ اور غیر ضروری گفتگو اور پُرسکون شاہ پرست ماحول سے عبارت بنا دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں فتح کے بعد تیس سال کا وقفہ ضرور آیا، لیکن خلافتِ راشدہ کے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس کی مسلمان بادشاہتوں نے ایران میں شہنشاہیت کی وفاداری کو پھر سے زندہ کر دیا۔
ساسانی، صفوی، قاچار اور پھر آخر میں پہلوی خاندان حکمران ہوا جس کا آخری تاجدار ذلت و رُسوائی سے 16 جنوری 1979ء کو تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے سے آنکھوں میں آنسو لئے دُنیا بھر میں دربدر ہونے کے لئے رُخصت ہو گیا۔ یہ لمحہ ہر کسی کے لئے حیرت کا باعث تھا کہ ایرانیوں جیسی مرنجاں مرنج، نازک اندام اور خوش گفتار قوم دُنیا کے نقشے پر ایسا شعلۂ جوالہ بن کر کیسے اُبھری کہ اس کی دہشت امریکہ تک محسوس کی گئی۔ یہ ایک دم اچانک نہیں ہو گیا تھا۔ اس انقلابی تبدیلی کو 26 سال لگے جو ایران پر اسٹیبلشمنٹ کے غلبے، عروج، ظلم و ستم اور طاقت کے خوفناک استعمال کے سال تھے۔ یہ عرصہ 19 اگست 1953ء سے اس وقت شروع ہوا جب امریکی سی آئی اے اور برطانوی ایم آئی سکس نے منتخب ایرانی وزیر اعظم مصدق کو بالکل عمران خان کی طرح ووٹ خرید کر آئینی طریقے سے برطرف کیا اور سی آئی اے وژن کے مطابق ایرانی قوم کے شاہ پرست مزاج ہونے کی وجہ سے وہاں رضا شاہ کے پہلوی خاندان کو اقتدار پر بٹھایا گیا۔
امریکہ نے رضا شاہ پہلوی کو نہ صرف اس خطے کا تھانیدار بنایا بلکہ اسے ایرانی عوام پر حکمرانی کے لئے سات لاکھ فوج منظم کر کے دی جو جدید اسلحے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ 1957ء میں امریکی سی آئی اے نے ایران کو ایک خفیہ ایجنسی ’’ساواک‘‘ بھی بنا کر دی تاکہ شاہ ایران اپنی قوم پر خوف کے ذریعے حکمرانی کر سکے۔ یہ دونوں رضا شاہ کی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ تھے۔ اس اسٹیبلشمنٹ کے تابع عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ بھی ہوتی تھی۔ ’’ساواک‘‘ نے چھبیس سالوں میں لوگوں کو اٹھانا، عقوبت خانوں میں لے جانا، لاپتہ کر دینا، شاہ کے حق میں وفاداریاں بدلوانا، جیسے وہ تمام کام کئے گئے جو پاکستان جیسے ہر اس ملک میں امریکی سی آئی اے کرتی یا کرواتی ہے جہاں امریکہ اپنی مرضی کی حکمرانی چاہتا ہے۔ ایرانی قوم کو اسٹیبلشمنٹ کے خوف کا لبادہ تار تار کرنے میں تو چھبیس سال کا عرصہ لگا .
لیکن پاکستان میں یہ پہیہ اس قدر تیزی سے چلا ہے کہ صرف نو اپریل 2022ء سے 17 جولائی 2022ء تک اٹھہتر دنوں میں عوام نے خوف کی یہ دیوار عبور کر کے ثابت کر دیا کہ عوام باشعور ہو کر مقابل پر آ کھڑے ہو جائیں تو پھر ان کے سامنے چند لاکھ سپاہیوں کی حیثیت پرکاہ جیسی ہو کر رہ جاتی ہے۔ مدتوں سے لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ ریاست اپنا رُعب و دبدبہ جسے عرفِ عام میں رِٹ (Writ) کہتے ہیں، اپنی افرادی قوت اور اسلحے کی بنیاد پر قائم نہیں رکھتی بلکہ اسکی یہ رٹ دو وجوہات سے قائم ہوتی ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ لوگ دل سے اس کی عزت کرتے ہوں اور دوسری بات یہ کہ وہ عوام کے دلوں میں اپنا خوف برقرار رکھے اور اسے کوئی چیلنج نہ کرے۔ دُنیا بھر کی تمام حکومتیں اسی خوف اور محبت کے ملے جلے جذبوں سے اپنے اقتدار کو مضبوط کرتی ہیں۔
پاکستان میں بھی گذشتہ تقریباً ساٹھ سال سے امریکی سرپرستی میں ایک نہ نظر آنے والی (Invisible) قوت رہی ہے جو 1958ء سے 1988ء تک تین مارشل لائوں کی صورت کھل کر حکومت کرتی رہی، مگر گذشتہ 34 سال سے اس اسٹیبلشمنٹ کی حالت ’’پسِ چلمن‘‘ اور ’’پسِ پردہ‘‘ رہ کر اقتدار کی طنابیں اپنے ہاتھ میں رکھ کر کھیلنا تھا۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی اشرافیہ ان انگریز کے وفاداروں کے خاندانوں پر آج بھی مشتمل ہے جو 1920ء کے الیکشنوں میں 95 قومی اور 637 صوبائی سیٹوں پر منتخب ہو کر آئے تھے۔ انگریز فوج اور انگریز سول بیوروکریسی کے لگائے ہوئے یہ ’’عوامی نمائندگی کے درخت‘‘ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر رقص کرنا ہی جانتے ہیں۔ ان خاندانوں نے اسٹیبلشمنٹ کو کبھی چیلنج نہیں کیا تھا، اس لئے اس کا خوف قائم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 17 جولائی 2022ء کی شام، ضمنی انتخابات کے نتائج پر تبصرے کرنے والا کوئی بھی تجزیہ نگار، دانشور، صحافی یقین سے یہ نہیں کہہ پا رہا تھا کہ اس قوم نے ’’اسٹیبلشمنٹ کے خوف کے لباس کو تار تار کر دیا ہے‘‘۔
لیکن پھر اچانک ایسا ہو گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسا صرف اٹھہتر دنوں میں ہی ممکن ہو گیا۔ یہ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ پچھہتر سالہ مایوس قوم کا ایک ایسا ردّعمل تھا کہ جس نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ بلکہ سرکاری مشینری اور تیس سالہ سیاسی تجربے کو بھی شکست دے دی۔ ایرانی انقلاب کی تاریخ سے اسکی مماثلت ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ایران کی طرح اپنی طاقت پر بلا وجہ اندھا اعتماد تھا۔ انہوں نے گذشتہ بائیس سالوں میں جس کو جب چاہا بیرون ملک بھیج دیا اور جب چاہا واپس بلا لیا، جب چاہا دھو دھلا کر صاف کر دیا اور جب چاہا بددیانتی کا لباس پہنا دیا۔ عوام روز ان کٹھ پُتلی سیاست دانوں کی بے بسی کے رونے سنتے تھے کہ ’’ہمیں فون کال آ گیا‘‘، ہمارے کیس نکال لئے گئے، ہمیں دھونس دے کر وفاداریاں تبدیل کروائی گئیں، ہم ازخود کچھ کرنے کے قابل نہیں۔
یوں یہ لیڈر ان کی نظروں سے گرتے گئے۔ دوسری مماثلت یہ تھی کہ ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر ’’ساواک‘‘ کی طرح اسٹیبلشمنٹ نے گذشتہ پندرہ سال اپنی عقوبتوں کے نشان چھوڑے تھے۔ محسوس یہ ہوتا ہے یہ تبدیلی اٹھہتر دنوں میں آئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کی طرح پاکستان میں بھی اس لاوے کو پکنے میں بائیس سال لگے ہیں۔ ایران میں بھی جب 1978ء کے اپریل میں تحریک کا آغاز ہوا تھا تو شاہ ایران کو اپنی فوج کی برتری، سیاست دانوں کی کمزوری اور ’’ساواک‘‘ کی خفیہ قوت پر بھروسہ تھا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی اعتماد اور یقین 17 جولائی کے دن حکومتی دماغوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اندازہ لگائیں، حکومتی مشینری، خفیہ ایجنسیوں کی سپورٹ اور میڈیا کنٹرول، تینوں حکومتی ہاتھ ہوں ، پھر پیچھے باقی کیا رہ جاتا ہے۔ مگر وہی ہوا جو اچانک ایران میں ہوا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس اندھے مضبوط اعتماد والے گنبد میں بھر پور شگاف پیدا ہو گیا۔
اصل وجہ یہ ہے کہ عوام کو عمران خان کی صورت ایک ایسا فرد ملا جو اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لے کر آگے بڑھا تھا مگر اس کا دامن باقی سیاستدانوں کی نسبت کم میلا تھا اور ابھی تک لوگوں کا اس کے ساتھ رومانس بھی قائم تھا، لوگ اس کے پیچھے چل پڑے۔ لیکن دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ’’فنڈ برائے آبادی‘‘ کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 63 فیصد آبادی 19 سے 33 سال کی عمر کے افراد کی ہے اور 14 سال سے کم 34 فیصد ہیں، جبکہ میرے جیسے بوڑھے، دقیانوس اور خوفزدہ نسلوں کے افراد صرف 5 فیصد ہیں۔ یہ ہے نوجوانوں کی وہ طاقت جس نے گذشتہ پچھہتر سال والے خوف کا لباس تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔
ابھی تک یہ صرف ایک جمہوری فیصلہ ہے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ نے اس 63 فیصد کے فیصلے کو دبانے یا بدلنے کی کوشش کی تو پھر اس ملک میں کچھ بھی تباہ وبرباد ہو سکتا ہے۔ ایسے پُر اعتماد نوجوانوں کو تو کسی لیڈر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
تبصرہ لکھیے