ہوم << وسطِ ایشیا معاشی سپر پاور بن گیا - فہد کیہر

وسطِ ایشیا معاشی سپر پاور بن گیا - فہد کیہر

سامانی دور سے پہلے خراسان بلکہ بغداد میں بھی کچھ ہو جائے تو وہاں کے حالات کا براہِ راست اثر ماورا النہر پر پڑتا تھا۔ لیکن اب یہ خطہ عباسیوں کی گرفت سے مکمل طور پر آزاد تھا۔ سامانی خاندان عباسی خلیفہ کا احترام تو بہت کرتا تھا، لیکن صرف سکّوں اور خطبوں کی حد تک۔ باقی وسطِ ایشیا کی سیاست، معیشت اور دیگر معاملات میں اب عباسیوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ تمام تر محصول بھی سامانی سلطنت ہی کا ہوتا۔

تاریخ کا ایک اصول ہے، کوئی بھی سلطنت عظمت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ وہ ایک معاشی قوت نہ بن جائے۔ سامانیوں کے عروج کی وجہ جہاں کی اُن کی زبردست فوجی و علمی قوت تھی، وہیں اُن کی معیشت کا بھی بہت اہم کردار تھا بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سامانی سلطنت اپنے زمانے کی ایک معاشی سپر پاور تھی۔

سامانی سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں

ایک ایکسپورٹ oriented اکانمی

ویسے تو سامانیوں کا دارالحکومت بخارا تھا لیکن اُن کا معاشی مرکز سمرقند تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج کل دنیا کے کئی ملکوں میں ہے جہاں دارالحکومت کوئی دوسرا شہر ہوتا ہے اور معاشی مرکز کوئی اور۔ مثلاً پاکستان اور امریکا کو ہی دیکھ لیں۔ یہاں مالیاتی مرکز کراچی ہے لیکن دارالحکومت اسلام آباد جبکہ امریکا میں financial capital نیو یارک ہے تو دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی بنا ہوا ہے۔

خیر، تو سمرقند چین، روم، ہندوستان اور وسط ایشیا کے ساتھ تجارت کا مرکز تھا۔ بلکہ یہاں سے برآمدات مشرقِ بعید تک جاتی تھیں یعنی موجودہ انڈونیشیا اور ملائیشیا تک۔ یہاں کا سامانِ تجارت پہلے زمینی راستے سے عراق کی بندرگاہ بصرہ تک جاتا تھا، جہاں سے یہ دُور پرے کی سرزمینوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا۔

وسطِ ایشیا و ایران کے تجارتی راستے

سامانی سلطنت کی معیشت کا انحصار معدنیات اور دیگر تیار مصنوعات کی برآمد پر تھا۔ ٹن، سیسے، تانبے اور دیگر دھاتیں مقامی کانوں سے نکالی جاتیں اور ان سے مقامی سطح پر کئی مصنوعات بنتیں۔ مثلاً شفاف شیشہ، نفیس چاقو، خوبصورت برتن اور دوسری جانب زراعت مدد دیتی ریشم اور دیگر نفیس ملبوسات بنانے میں۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانے میں دنیا کا سب سے اعلیٰ کاغذ بھی وسطِ ایشیا میں بنتا تھا۔ تب سامانی کاغذ دنیا بھر میں 'گولڈ اسٹینڈرڈ' سمجھا جاتا تھا۔

مختصراً یہ کہ سامانی سلطنت کی معیشت مکمل طور پر ایک export oriented اکانمی تھی۔ سامانی دور کی اہمیت اور معیشت سے اُن کے تعلق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج تاجکستان کی قومی کرنسی انہی کے نام پر 'سامانی' کہلاتی ہے۔

تاجکستان کی کرنسی آج بھی سامانی کہلاتی ہے۔ 100 سامانی کے اس نوٹ پر اسماعیل سامانی کی تصویر بھی بنی ہے اور پس منظر میں سامانی مزار بھی ہے

سامانی دینار، اپنے زمانے کی کرپٹو کرنسی

یہ سب تجارت سامانی چاندی کے درہم کے ذریعے کرتے تھے، جسے کئی صورتوں میں ڈھالا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کانسی کے چھوٹے سکّے بھی ہوتے تھے جو مقامی سطح پر تجارت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ لیکن بین الاقوامی تجارت اس مشہور دینار سے ہوتی تھی جو 97 فیصد خالص سونے سے بنتا تھا۔

یورپ بھر میں غارت پھیلانے والے وائی کنگز Vikings تو ان اشرفیوں کے دیوانے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنی تمام تر لوٹ مار سے حاصل کردہ دولت کے بدلے یہ دینار لے لیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہ صرف مشرقی یورپ بلکہ بحیرۂ بالٹک کے ساتھ واقع ملکوں سے آج بھی کھدائی میں یہ دینار ملتے ہیں۔

اسماعیل سامانی کے پوتے نصر دوم کے عہد کا ایک سکہ (سن 933ء)

سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے آرلینڈا ایئرپورٹ کے قریب آثار قدیمہ کی دریافت میں نویں صدی کی یہ سامانی کرنسی برآمد ہوئی۔ محققین کے مطابق اس خطے میں جو بھی قدیم کرنسی برآمد ہوتی ہے، ان میں سے تقریباً ایک تہائی کا تعلق تو بغداد سے ہوتا ہے یا سامانی علاقوں سے۔ یعنی تاشقند، بخارا، سمرقند اور بلخ کی ٹکسالوں سے ڈھلے ہوئے سکّے قطب شمالی کے قریب تک پہنچ گئے۔ اس کے علاوہ سامانی درہم کے قدم بھی بحیرۂ روم کے علاوہ شمالی افریقہ اور چین،ہندوستان یہاں تک کہ سری لنکا تک پہنچے۔

یوں سمجھ لیں کہ جس طرح آجکل کرپٹو کرنسی کا دور دورہ ہے اور ہر شخص اپنا سرمایہ اس جدید کرنسی میں محفوظ کرنا چاہتا ہے، سامانی دینار اور درہم بھی اپنے زمانے کی کرپٹو کرنسی ہی تھے۔

دفاعی بجٹ اور سامانیوں کا زوال

سامانی دور کے اِس مضبوط سیاسی، عسکری و معاشی نظام نے خطے میں امن و امان قائم کیا اور ایک تقریباً ایک صدی تک وسطِ ایشیا اپنی بلندیوں پر رہا، لیکن ہر عروج کو زوال ہے۔ سامانیوں کو بھی زوال آیا اور اپنے ہی فیصلوں کی وجہ سے آیا۔ دراصل شمال اور مشرق دونوں طرف کے قبائلی ترکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سامانیوں کو اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ کرنا پڑتا تھا۔ ایک زمانہ ایسا آیا کہ ریاست کا آدھا بجٹ دفاع پر خرچ ہو جاتا تو ایک لحاظ سے آمدنی و اخراجات میں عدم توازن زوال کی بنیادی وجہ بنا۔ لیکن اس زوال کی ایک اور وجہ بھی ہے جو مشہور مؤرخ ابن خلدون کے الفاظ میں قوموں کے عروج و زوال کا آفاقی اصول ہے۔

وہ یہ کہ امن کا دور دورہ ہو تو جنگی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ سامانیوں نے جن اقوام کے بل بوتے پر یہ عروج حاصل کیا تھا، وہ سب شہری زندگی کی عادی ہو گئیں، تجارت اختیار کر لی اور مختلف فنون سے وابستہ ہو گئیں۔ یوں نسل در نسل اُن قوموں کی جنگجویانہ صلاحیتیں کمزور پڑتی گئیں۔

بالآخر بغداد کے عباسیوں کی طرح سامانیوں کو بھی ترکوں پر انحصار کرنا پڑا کہ وہ اُن کی طرف سے لڑیں۔ ترک پہلے نچلے درجے کے سپاہی بنے، پھر خود کو ثابت کرتے گئے اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ نصر دوم کے عہد میں سلطنت کے اعلیٰ ترین عہدے بھی ترکوں کے پاس تھے۔ اب وہ محض فوجی خدمات ہی انجام نہیں دے رہے تھے بلکہ اہم معاملات میں صلاح و مشورہ اور ریاستی امور میں مرکزی کردار بھی ادا کرنے لگے تھے۔

بغداد کے ترکوں کے مقابلے میں یہ ترک سامانیوں کے وفادار بھی تھے اور بہت اچھے مسلمان بھی۔ لیکن ان کا اسلامی نظریہ بہت سطحی تھا بلکہ آج کل کی اصطلاح میں کہیں تو بہت شدت پسندانہ۔ آزاد خیال اور مذہب بیزاروں کو تو چھوڑیں، اہل تشیع سے بھی بہت خار کھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سامانی حکمرانوں نے اسماعیلی شیعہ طبقے کے ساتھ رعایتیں برتنا شروع کیں اور وسطِ ایشیا میں اسماعیلیوں کے اثرات بڑھنے لگے تو انہوں نے 943ء میں علما کے ساتھ مل کر بغاوت کر دی۔ اسماعیلی اثرات کے خاتمے کے لیے پھر سلطنت میں جو کچھ ہوا، اس نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی اور سامانی حکومت کو کمزور کر دیا۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ رودکی کو بھی اسی زمانے میں اندھا کر کے بخارا سے نکال دیا گیا تھا۔

آخری سامانی حکمران

آخری سامانی حکمران منتصر کی حکومت واپس لینے کی کوشش میں لڑی گئی جنگوں میں سے ایک۔ سن 1003ء۔ یہ خاکہ چودہویں صدی کے ایک مصور نے بنایا تھا

یوں مختلف وجوہات کی بنا پر سامانیوں کا اقتدار کمزور ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ 999ء میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ سامانیوں کا آخری حکمران ابو ابراہیم اسماعیل تھا جو خود کو منتصر کہتا تھا۔

جس حکومت نے سامانی حکومت کو ختم کیا، وہ قراخانی کہلاتے تھے۔ ایرانی انہیں آلِ افراسیاب کہتے ہیں جبکہ انہیں ایلک خانی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خوارزم کا ایک ترک مسلمان خاندان تھا، جس نے گرگانج کواپنا مرکز بنایا۔

قراخانیوں میں سب سے پہلے حسن بن سلیمان عرف بغرا خان سامانی علاقوں پر حملہ آور ہوا تھا۔ انہوں نے 992ء میں اسپیجاب، فرغانہ، ایلاق، سمرقند بلکہ سامانی دارالحکومت بخارا پر بھی قبضہ کر لیا۔ لیکن اسی سال بغرا خان کا انتقال ہو گیا اور سامانیوں کو بخارا واپس لینے کا موقع مل گیا۔ بعد ازاں علی بن موسیٰ عرف قراخان نے سامانیوں کے خلاف مہم جاری رکھی ، یہاں تک کہ 999ء میں شاش، سمرقند اور بخارا ایک مرتبہ پھر سامانیوں سے چھین لیے۔

منتصر نے کوشش تو بڑی کی، 1004ء میں خراسان واپس بھی آیا، لیکن کامیاب نہ ہو سکا اور اپنی جان بھی گنوا بیٹھا۔ یوں سامانی سلطنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ وہ علاقہ جو کبھی اُن کے پاس تھا، اب دو طاقتوں کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا۔ ایک طرف یہ قراخانی تھے جو نہ صرف ماورا النہر بلکہ مشرقی ترکستان میں کاشغر، ختن، یارقند وغیرہ کے حکمران تھے تو دوسری جانب آمو دریا کے پار ایک نئی طاقت خراسان اور افغانستان پر قابض ہو چکی تھی۔ یہ سامانیوں کے اپنے ترک جرنیل تھے جنہوں نے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی جو اپنے دارالحکومت غزنی کے نام پر غزنوی کہلائی۔ اسی خاندان میں محمود غزنوی جیسا فاتح پیدا ہوا جس کے ہندوستان پر 17 حملوں کو ایک افسانوی حیثیت حاصل ہے۔

مزارِ قائد اور سامانی مزار

افسوس کی بات یہ ہے کہ سامانی دور کے زیادہ تر آثار گردشِ زمانہ کی نذر ہو گئے۔ کیونکہ سامانی اور ہمارے ادوار کے درمیان چنگیز خان آتا ہے۔ تیرہویں صدی میں اٹھنے والا منگول طوفان سب سے پہلے اسی خطے سے ٹکرایا تھا اور سب کچھ ملیامیٹ کر دیا۔ بہرحال، جو بھی بچا، ان میں سب سے مشہور یہ عمارت ہے جسے سامانی مزار کہتے ہیں۔

ذرا غور سے دیکھیں، ہو سکتا ہے یہ عمارت آپ کو دیکھی بھالی لگ رہی ہو۔ کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار جیسی۔ جی ہاں! ماہرِ تعمیر یحییٰ مرچنٹ نے مزارِ قائد کا نقشہ سامانی مزار سے متاثر ہو کر ہی بنایا تھا۔

بہرحال، سامانی مزار میں تین قبریں ہیں جن میں سے ایک اسماعیل سامانی کے پوتے نصر دوم کی ہے کیونکہ اس پر نام درج ہے۔ لیکن باقی دو قبروں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک قبر اسماعیل سامانی کی ہے۔

یہ مزار نہ صرف سامانی بلکہ ابتدائی اسلامی طرزِ تعمیر کا بھی شاہکار ہے۔ یہ اُس دور میں بنایا گیا تھا جب اسلامی دنیا میں عموماً مزارات بنانے کا رجحان نہیں تھا یعنی ہم اسے اپنے طرز کی اوّلین عمارتوں میں شمار کر سکتے ہیں۔

جب سامانی دور کی بیشتر یادگاریں منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئیں تو سامانی مزار کیسے بچ گیا؟ اصل میں یہ دریائے زرفشاں میں آنے والے سیلابوں کی زد میں آنے کی وجہ سے منوں مٹی تلے دب گیا تھا۔ آج سے 100 سال پہلے بھی دنیا میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ شاہکار بھی وجود رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ 1926ء میں سوویت یونین نے یہاں آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام شروع کیا اور پھر یہ مزار دریافت ہو گیا۔

آج سامانی مزار اسلامی دنیا کی قدیم ترین عمارتوں میں سے ایک ہے اور یہ سامانی دور واحد یادگار بھی ہے۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment