چند دن قبل کوئٹہ میں قرآن پاک کے جلے ہوئے نسخے ملے۔یہ واقعہ نواں کلی میں ایک قبرستان میں پیش آیا ہے۔جہاں قرآن کے چند نسخوں کی بے حرمتی کی گئی۔ لگتا ہے کہ کچھ عناصر نے یہ حرکت دانستہ کی۔ قبرستان کے احاطے میں قرآنی نسخے نذر آتش کیے جانے کے اس واقعے کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ہیں ۔
نواں کلی میں اقلیتی مسیحی برادری کے کئی چرچ ہیں۔ مسیحی برادری کے باشندوں کی کثیر تعداد نواں کلی میں رہتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان نے مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہو۔ پولیس نے دستیاب گواہان کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔ قبرستان میں قرآن کو نذرآتش کرنے کے واقعے کے خلاف کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ احتجاج میں شریک زاہد بلوچ کے مطابق توہین قرآن کے واقعے میں ملوث عناصر کی شناخت کے معاملے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ماخان نامی قبرستان میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔
پولیس نے تمام کیمروں کی فوٹیج حاصل کر لی ہےجس کے ذریعے ملزمان کی شناخت مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ تو پھر اب تک ملزمان کیوں گرفتار نہیں ہو سکے۔کوئٹہ کے ساتھ ساتھ نوشکی، مستونگ، پشین اور دیگر شہروں میں بھی عوام اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ایک نہیں کئی قرآن نذر آتش کیے گئے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ تو ہو نہیں سکتا۔‘‘ اس واقعے کا مقدمہ جامع مسجد لیبر کالونی کے پیش امام مولانا زین اللہ کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے مقامی رہنما مفتی محب اللہ کے مطابق :"پاکستان میں اس طرح کے واقعات ملک کے دیگر حصوں میں بھی رونما ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات کے ذریعے امن دشمن عناصر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ایک مسلمان قرآن کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ تاہم اس معاملے میں کسی بھی انتہا پسندانہ ردعمل کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جو عناصر اس واقعے میں ملوث ہیں ان کو فی الفور گرفتار کیا جائے تاکہ حالات مزید خراب نہ ہوں"۔
ہم مسلمان بھی بڑی عجیب اور جذباتی قوم ہیں قرآن پاک کو پڑھ کر اس پہ عمل تو نہیں کرتے مگر ایسے واقعات پہ اس قدر جذباتی ہو جاتے ہیں کہ اکثر بیگناہ غیر مسلموں کو جلا بھی دیتے ہیں۔اسلام اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ محض شک کہ بناء پر یا کوئی بدلہ لینے کے لیے بغیر مقدمہ چلائے اور ثبوتوں اور گواہان کے بیانات سنے کسی کو سزا دے دی جائے۔مگر ہم ان باتوں پہ عمل کی بجائے اپنی عدالت خود لگانے کے قائل ہیں۔اگر ہم باعمل مسلمان ہوتے تو یقینا بخاری کی اس حدیث آگاہ ہوتے۔" انس بن مالک سے مروی ہے کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے آرمینیہ اور آذربیجان کی جنگ میں شرکت کی تھی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لوگ تلاوت قرآن میں بہت اختلاف کرنے لگے تھے ۔ حذیفہ نے حضرت عثمان سے کہا:" امیرالمؤمنین ! قبل اس کے کہ یہ امت کتاب الٰہی میں یہودیوں اور نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگے اس کو سنبھال لیجئے۔
" یہ سن کر عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو کہلا بھیجا کہ آپ کے پاس قرآن کے جو صحیفے پڑے ہیں وہ ہمارے پاس بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کو کتابی صورت میں جمع کریں پھر ہم ان کو واپس کردیں گے ۔ام المومنین نے وہ صحیفے ارسال کردئیے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ،زید بن ثابت ،عبداللہ بن زبیر،سعد بن العاصر، عبدالرحمان بن حارث بن ہشام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو مومورکیا کہ وہ صحیفوں سے نقل کرکے قرآن کریم کو کتابی صورت میں جمع کردیں۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ "جب تمہارے اور زید کے مابین قرآن میں کسی آیت کے بارے میں اختلاف پیداہوتو قرآن کو قریش کی زبان میں لکھنا۔کیونکہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا تھا ۔"جب وہ تعمیل ارشاد کرچکے تو آپ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ کو واپس کردئیے۔عثمان رضی اللہ عنہ نےجمع کردہ قرآن کے نسخے اطراف ملک میں بھجوائے اس کے علاوہ قرآن کریم کے جو حصے کسی صحیفے یا مصحف میں لکھے گئے تھے اس کے بارے میں آپ نے حکم صادر کیا کہ ان کو نذر آتش کردیا جائے ۔"صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب دوم وسوم،نیز الاتقان ۔ج۶،ص۱۰۲،المصاحف لابن ابی داؤد،ص۱۸۔وتفسیر طبری،ج۱،ص۲۰۔۲۱
اس حدیث سے کچھ علماء نے یہ استدلال فرمایا کہ پرانے مصحف کے اوراق کو کسی صاف جگہ پہ جلایا جا سکتا ہے۔بعض علماء کے مطابق انہیں صاف پانی یعنی کسی دریا، سمندر یا ندی میں بہا دیا جائے اور بعض انہیں کسی صاف جگہ پہ دفنانے کی رائے دیتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی نے قرآن پاک کے پرانے نسخے اس قبرستان میں جلانے کے لیے آگ لگائی ہو لیکن ان کے جلنے سے پہلے اسے واپس جانا پڑ گیا ہو۔اور وہ یہ نہ دیکھ سکا کہ قرآن پاک۔مکمل جل گئے یا نہیں اور وہ راکھ کو دبا نہ سکا۔لیکن مسلمانوں کو غیر مسلموں پہ حملے کے لیے ایک موقعہ مل گیا۔یہ بھی ممکن ہے کہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کے لیے کسی ملک دشمن شخص نے ایسے علاقے میں قرآن جلا کر اس کے اوراق بکھیر دئیے ہوں جہاں عیسائیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔
تاکہ وہاں کے عسائیوں پہ شک کر کے ان کے ساتھ لڑائی کی جائے اور شہر کے حالات خراب ہوں۔ لیکن ان غیر مسلم باشندوں سے اس حرکت کا ارتکاب بعید از قیاس اس لیے بھی ہے کہ وہ یہاں سالوں سے آباد ہیں اور اس سے پہلے ان کی طرف سے کبھی ایسا کوئی عمل منظرعام پر نہیں آیا۔کوئٹہ میں آباد عیسائی، ہندو، سکھ اور پارسی ہمیشہ مسلمانوں کے اور مسلمان ان کے مذہبی مقامات ، کتب اور رسوم کا احترام کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور شہری انتظامیہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے اور ایسے واقعات میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کر کے انہیں قرار واقعی سزا دے تاکہ آئندہ ایسا کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔
توہین مذہب سے متعلق پاکستانی قانون کی دفعہ 295 کے تحت نہ صرف مسجد بلکہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کی توہین کی سزا دو سال تک قید یا جرمانہ جبکہ کسی بھی شہری کے مذہبی جذبات اور عقائد کی توہین کی سزا دس سال تک قید اور جرمانہ ہو سکتی ہے۔ اس قانون کے آرٹیکل 295 بی کے تحت توہین قرآن کی سزا عمر قید رکھی گئی ہے۔
تبصرہ لکھیے