ہوم << حیا کا جنازہ (سچی کہانی) - قیصرہ پروین

حیا کا جنازہ (سچی کہانی) - قیصرہ پروین

اس کا نام مریم تھا.وہ میانوالی کی رہائشی تھی اور اس کا تعلق ایک پٹھان گھرانے سے تھا -وہ دو بہنیں اور ایک بھائی تھا - اس کے دادا غازی جبکہ ابو اپنے علاقے کے نمبردار تھے . ان کے گھر کے ساتھ ایک حویلی تھی جہاں اسکے دادا اور ابو بیٹھ کر لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑوں کے فیصلے کرتے .

اور لوگ ہنسی خوشی ادب واحترام کے ساتھ ان فیصلوں کو مان لیتے .ان کی عورتیں نماز روزہ اور پردے کی پابند تھیں ،ٹوپی والے بھرکے پہنے جاتے تھے ، کسی کو جرت نہ ہوتی تھی کہ بلا وجہ گھر سے باہر گھومے پھرے - شاید خاندانی خون اور رعب و دبدبے کا بھی اثر تھا کہ ہر کوئی نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی عزت کا بھی خیال رکھتا تھا -مریم کا گھر ایک مہمان خانہ بھی تھا ، جہاں ہر آنے جانے والا مسافر نہ صرف رات بسر کرتا بلکہ اس کی جائز ضرورتیں بھی پوری کی جاتیں -مریم چونکہ گھر میں بڑی تھی اسی لیے دوسرے بہن بھائی کی نسبت اس کی ہر جائز و نا جائز خواہش پوری کر دی جاتی - میٹرک کا ریزلٹ آتے ہی اس نے کالج میں داخلہ لینے کی ضد شروع کر دی . ان کے گاؤں کے قریب کوئی گرلز کالج نہ تھا لہذا اس نے پنڈی میں کسی نہ کسی کالج میں داخلہ لینے کی فرمائش کی ، اس کے ابو کسی صورت اسے گھر سے باہر بھیجنے پہ راضی نہ تھے اور ویسے بھی وہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی تھی جو کہ ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی ضد کر رہی تھی .

مریم کی رگوں میں پھٹان خون دوڑ رہا تھا جو نہ کسی سے دب سکتا تھا اور نہ کسی ڈر کا خوف رکھتا تھا.اس نے دیکھا کہ گھر میں اس کی بات کوئی بھی سننے کو تیار نہیں تو اس نے گجرانوالہ میں اپنی پھپھو کو فون کیا ، ان کی بیٹی بھی میٹرک کر کے ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی .اس کی پھپھو چونکہ چھوٹی تھیں اس لیے ان کی بات کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی - انھوں نے پھتیجی کے کہنے پہ اپنے میکے آ کر اپنے بھائی اور ابا جی کو مریم کو ہاسٹل بھیجنے پہ راضی کر لیا کہ اس کی بیٹی فاطمہ بھی داخلہ لے گی .پھر وہ دن آ گیا جب مریم اور فاطمہ نے راولپنڈی کالج میں داخلہ لے لیا . رہاہش کا مسلہ ہاسٹل کی صورت میں حل ہو گیا . گھر کے پابند ماحول سے نکل کر ایک اجنبی اور آزاد ماحول میں قدم رکھنا ان کے لیے بہت مشکل تھا .چھوٹی اور بغیر آستین کی قمیضیں ،بغیر دوپٹے، کھلے بال ، آنکھوں میں کاجل ، ہونٹوں پہ ہلکی سی لپسٹک لگائے لڑکیوں کو وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھیں . یہ کس دنیا کی مخلوقِ تھیں ، فاطمہ نے بھی تو ایسا ماحول نہ دیکھا تھا .

آہستہ آہستہ کالج کا اثر سر چڑھ کر بولنے لگا، ، بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے دوستی کر کے وہ بھی اپنی روایات کی حدوں کو پھلانگنا چاہتی تھیں -مگر کیسے ان کے خاندان کی بدنامی انھیں ایسا کچھ بھی کرنے سے روکے ہوئے تھی .پڑھائی میں دونوں اچھی تھیں اس لیے تعلیم کے مدارج طے کرتی چلی گئیں کالج کے آزادانہ ماحول سے نکل کر اب انھوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ، کہاں میانوالی ، گجرانوالہ اور کہاں اسلام آباد کا آزادنہ ماحول , جہاں نہ دن کا پتہ چلے اور نہ رات کے گزر جانے کا . اپنی زندگی اور اپنی مرضی کا قانون .دونوں کے نمبر اچھے تھے اس لیے داخلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہوا -دونوں نے ایم ، اے عریبک میں داخلہ لیا . آسمان کو چھونے والی فیسیں اور ہاسٹل کے اخراجات کوئی غریب تو خواب ہی دیکھ سکتا تھا ، داخلہ تو دور کی بات تھی .

ہر مہینے کتابوں ، ہاسٹل اور یونیورسٹی کی فیس کے علاوہ کھانے پینے اور پہننے کے اخراجات کے منی آرڈر آنے لگے - دونوں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ان کے والدین خوش تھے کہ خاندان میں ان کی بچیاں لکھ پڑھ کر اس علاقے کی بچیوں کے لیے مشعلِ راہ بن جائیں گیں . یونیورسٹی کے ساتھ لڑکوں کا کیمپس بھی تھا، اگرچہ گیٹ الگ الگ تھے ، مگر مین گیٹ ایک ہی تھا . سکیورٹی سخت تھی مگر جب برا وقت آ جائے تو پھر ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے ، شیطان اپنے راستے پہ چلانے کے لیے ہر مشکل راستے کو خوبصورت بنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے . تاکہ اس پہ چلنے میں ہم بہادری سے کام لیں .وہ نقاب میں ملبوس اپنی سہیلیوں کے ساتھ کتابیں لینے چلی جاتیں ، ان کی کئی سہلیاں انھیں نقاب کا طعنہ دیتیں کہ کیا ہر وقت اپنے منہ اور ہاتھ چھپائے پھرتی ہو۔ بھلا خوبصورتی بھی کوئی چھپانے کی چیز ہے .

شروع شروع میں تو انھیں ان کی باتیں بری لگتی تھیں مگر اب انھوں نے بھی اپنے آپ کو اس ماحول کے مطابق ڈھالنا شروع کر دیا .شہر کے بڑے بڑے مال سے شاپنگ کرنا ، کھانا کھانا، سکیورٹی گارڈ کو کتابوں کی خریداری کا کہہ کر آئے روز دوستوں کے ساتھ سیر کو نکل جانا - سکیورٹی گارڈ کی زمہ داری یونیورسٹی تک محدود تھی بھلا اس نے باہر کی دنیا کی حفاظت کا زمہ تو نہ لے رکھا تھا .جب انسان اپنی حدوں کو پھلانگتا ہے تو شیطان بھی ہر طرف اپنے جال پھیلا دیتا ہے .اور انسان اس کے جال میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ اسے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیتا .

اسلامی یونیورسٹی کا نام ان کے والدین کے لیے ایک بہترین تحفظ کی ضمانت تھا ، مگر یہ ان کی غلط فہمی تھی .ہم اپنے طرز عمل سے کسی چیز کو اچھا یا برا بنا سکتے ہیں .ان کی بربادی کا دن اس وقت آیا جب وہ اپنی دوستوں کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے گئیں ان کی ایک دوست جو کہ اسی شہر میں رہتی تھی اپنے ایک کزن اور اس کے دوست کو بھی وہاں لے آئی . دونوں انھیں دیکھ کر چونک گئیں مگر اس نے انھیں اطمینان دلایا کہ علی اور اس کا دوست برے نہیں ہیں -اور یہ تو شہر ہے یہاں لڑکے اور لڑکیاں اگھٹے گھومتے پھرتے ہیں کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا ، ہر کوئی اپنی مرضی سے جیتا ہے .

ان کا یونیورسٹی میں آخری سال تھا تیسس چل رہا تھا . ایک دن شازیہ نے مل کر کوہ دامن جانے کا پروگرام بنایا - ان کا گروپ چھ لڑکیوں پہ مشتمل تھا .علی اور اس کا دوست بھی ان کے ساتھ پکنک پہ گئے اب تو یہ ان کا معمول بن گیا کہ جب بھی چھٹی ہوتی یہ کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتے ، ادھر ان کے ماں باپ سبھی کو فخر سے بتاتے کہ ہماری بچیاں اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں پڑھ رہی ہیں انھیں کیا معلوم کہ ان کی بچیاں ان کی عزت کی دھجکیاں اڑا رہی ہیں .ان کی ایک روم میٹ عروج تھی وہ جب بھی باہر گھومنے پھرنے جاتیں اسے بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہتیں مگر وہ ہر ہار انکار کر دیتی کہ مجھے پڑھنا ہے یا پھر طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر انھیں ٹال دیتی .

فاطمہ اپنے دل کی ہر بات اس سے شیئر کرتی تھی .ایک دن فاطمہ نے عروج کو بتایا کہ ہمارے والدین اپنے اصولوں کے بہت پاپند ہیں وہ ہماری شادیاں اپنے ہی کسی ان پڑھ اور جائل رشتے دار سے کرا دیتے ہیں اور پھر بے چاری عورتیں ساری زندگی اس ان پڑھ اور جائل کے ساتھ اپنی زندگی گزار دیتی ہے .ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہم بھی اس چکی میں نہ پس جائیں لہزا ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم چھپ کر اپنی مرضی سے شادی کر لیں .فاطمہ نے اسے یہ بھی بتایا کہ کل صبح ہم لوگ کورٹ میرج کریں گئے پھر خاندان جانے اور اس کے رسم و رواج .عروج بہت نیک سمجھدار اور باعزت گھرانے کی لڑکی تھی اس نے جب فاطمہ کی یہ باتیں سنی تو اسے بہت دکھ ہوا، اسے پوری رات یہ سوچ سوچ کر نیند نہیں آ رہی تھی کہ وہ بدنامی کی دلدل سے انھیں کیسے بچائے ان کے اس قدم سے ان کے والدین تو جیتے جی مر جائیں گئے .

ان کے بہتر مستقبل کے کتنے خواب آنکھوں میں سجائے ہوں گئے .خاندان بھر میں ان کی عزت خاک میں مل جائے گی ، کرے تو آخر کیا کرے . فجر کی اذانیں ہوئیں عروج نے وضو کیا ، نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے ان کی حفاظت کی دعا مانگی شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی .مریم اور فاطمہ نئی زندگی کے سفر کے لیے تیار ہونے لگیں .اسی دوران انھیں ان لڑکوں کے فون آنے لگے .فاطمہ نے عروج کو گلے لگاتے ہوئے بتایا کہ آج نو بجے ہم لوگ نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ جائیں گی .انھیں کیا معلوم تھا کہ جس نکاح کو وہ مقدس رشتے کا نام دے رہی ہیں وہ ان کی بدنامی کا باعث بنے والا تھا .

آوارہ لڑکے بھلا کیا کسی کو عزت دے سکتے ہیں وہ تو کسی کی عزت کو داغ دار کر کے چھپکے سے کسی اور شکار کی طرف چل پڑتے ہیں عروج انھیں بچانے کےلئے اپنے دماغ میں طرح طرح کے منصوبے بنانے لگی آخر اس کے زہن میں ایک ہی خیال آیا کہ وہ پرنسپل کو جا کر ان کے متعلق سب کچھ بتا دے . مریم اور فاطمہ تیار ہونے میں مصروف تھیں اس نے اپنی الماری سے تالہ اور چابی لی اور آرام سے کمرے سے باہر نکل کر دروازے کو کنڈی لگا کر تالہ لگا دیا .سیدھی پرنسپل کے آفس گئی اور انھیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا .پرنسپل نے عروج سے چابی لی گارڈ کو ساتھ لیا اور ان کا دروازہ کھلوایا ، وہ دونوں پرنسپل اور گارڈ کو دیکھ کر حیران ہو گئیں .اس دوران ان کے موبائل بج اٹھے ، پرنسپل نے دونوں کے موبائل لیے جب آن کیے تو دونوں کے موباہل پہ ایک ہی آواز آ رہی تھی کہ یار ہم لوگوں نے نکاح کے سارے انتظامات کر لیے ہیں تم لوگ بس جلدی سے اچھی سی تیار ہو کر آنا - پھر ہم لوگ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گئے .

پرنسپل نے دونوں سے موبائل لے لیے اور انھیں کمرے میں بند کر کے ان کے گھروں میں فون کیا . فاطمہ کے والدین دن کو جبکہ مریم کے والدین رات کے پہر اتنا لمبا سفر طے کر کے پہنچے تھے - یہ سفر کتنا پریشانی اور تکلیف دہ مرحلہ طے کرتا ہوا کٹا ہو گا یہ تو وہی جانتے تھے.دونوں کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تاکہ پھر کوئی بھی ایسی حرکت کر کے یونیورسٹی کا ماحول خراب کرنے کی کوشش نہ کرے .مریم کے گھر پہنچتے ہی یہ خبر سارے چک میں مشہور ہو گئی کہ اسے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے .اس کے ابو کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہ رہے .اس دوران انھیں فالج کا اٹیک بھی ہوا ، دو تین سال بعد مریم کے دادا نے اس کی شادی اپنے نواسے کاشف سے طے کردی .ان کا رشتہ بچپن سے ہی طے ہو چکا تھا - کاشف نے میٹرک کیا تو اس کے ابو کا انتقال ہو گیا اب گھر کی ساری زمہ داری کاشف کے کندھوں پہ آن پڑی - ماموں بھی ہر وقت ان کی مدد کو تیار رہتے .

کاشف اپنے ماموں کے احسانات کے بوجھ تلے دب چکا تھا لہزا اس نے مریم سے شادی کی حامی بھر لی .اس طرح مریم کی شادی کاشف سے ہو گئی ادھر فاطمہ کے لیے بھی اچھا رشتہ آیا اور ان کے والدین نے اس کو بھی بیاہ کر ایک بہت بڑے بوجھ سے جھٹکارہ پا لیا - وہ اپنے میاں کے ساتھ امریکہ چلی گئی . حیا کا جنازہ نکلتے نکلتے وہ دونوں ایک بہت بڑی بدنامی سے بچ چکی تھیں کیونکہ ان لڑکوں کا گروپ لڑکیوں کو شادی کے سہانے خواب دیکھا کر ان کی عزت سے کھیل کر انھیں یا تو مار دیتے تھے یا پھر ان کی وڈیو بنا کر انھیں بلیک میل کرتے تھے .مریم نے اپنے ابو اور دادا سے رو رو کر اپنے کیے کی معافی مانگی ، بیٹی تھی ناں ، آخر انھوں نے اسے معاف کر دیا - اسے اپنے ہی علاقے کے سکول میں ٹیچر کی جاب مل گئی .اللہ تعالیٰ نے دونوں کو خوبصورت بچوں سے نوازا اور اب وہ پر سکون زندگی گزار رہی ہیں -