بچپن میں لاہور ، راولپنڈی اور گوجرانوالہ کے اندرون شہر کی گلیوں کے بازاروں، شاہ عالمی، انارکلی، اعظم مارکیٹ، گوالمنڈی، راجہ بازار، موتیوں بازار، کرتار پورہ، آرئناں والی گلی وغیرہ میں جاتے تھے تو مجھے پرانے دور کے بنے چھجوں والے گھر اور عمارات بیحد فیسینیٹ کرتے تھیں۔
پرانی مساجد، مندر، چرچ، قلعے سب انہی گلیوں کوچوں میں پائے جاتے تھے۔تاریخ کی کتب میں راولپنڈی کے راجہ بازار اور اس کی گلیوں میں موجود بازاروں کی جوتفصیلات ہیں وہ کچھ خوشگوار اور قابل فخر تو نہیں مگر حیران کن ضرور ہیں۔ راولپنڈی کی تشکیل اٹھارویں صدی میں شروع ہوتی ہے اور یہ شہر قصبے سے شہر میں تبدیل ہونا شروع ہوتا ہے تو ا س کے ساتھ ہی جرنیلی سڑک پر اہم پڑاؤ ہونے کی وجہ سے یہ تجارتی قافلوں کی ایک اہم سرائے بھی قرار پاتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں ناچ گانے کارواج فروغ پانے لگا۔رنجیت سنگھ نے راولپنڈی کو تخت لاہور کے ماتحت کر دیا لیکن مری اور ملحقہ پہاڑی علاقوں کے لوگوں نے مزاحمت کی جس کی وجہ سے یہ علاقے کشمیر کے راجہ گلاب سنگھ کو بطور جاگیر دے دیے گئے۔
اس دور میں اگرچہ راولپنڈی لاہور کے ماتحت تھا لیکن یہاں گلاب سنگھ کا سکہ بھی چلتا تھا اور اسی کی نسبت سے راجہ بازار قائم ہوا۔سردیوں میں سری نگر کے راجہ سمیت امرا راولپنڈی آ کر ٹھہرتے تھے۔ سکھوں کے اقتدار کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 14 مارچ 1849 کو چھتر سنگھ اور شیر سنگھ کی قیادت میں سکھ فوج نے راولپنڈی میں ہتھیار پھینک دیے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز فوج نے شہر پر قبضہ کیا اور اس کی فوج لیاقت باغ میں خیمہ زن ہوئی تو انہوں نے ہوس مٹانے کے لیے ایک طوفان برپا کر دیا۔
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ستمبر 1851 میں جب یہاں چھاؤنی قائم کی گئی تو اس کے ساتھ ہی کوئلہ سنٹر اور چھاؤنی پولیس سٹیشن کے درمیان ریڈ لائٹ ایریا قائم کیا گیا۔ بعد میں جب کیپیٹل سینما بنا تو گورے ویک اینڈ پر رقص و سرود کی محفلیں سجاتے تھے واپسی پر چونکہ وہ اسی کے پا س سے گزرتے اس لیے لڑائی جھگڑے معمول بن گئے جس کی وجہ سے اس علاقے کو سٹی پولیس سٹیشن کے عقب میں منتقل کر دیا گیا۔جہاں پہلے ہی شراب خانہ اور چنڈو خانہ موجود تھے۔ یہاں بھی لوگ نشے میں بد مست ہو کر عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے اس لیے گوروں نے یہاں باقاعدہ ریڈ لائٹ ایریا قائم کر دیا اور پیشہ ور خواتین کو کمر ے بنا کر الاٹ کیے گئے۔ یہ علاقہ عین اس جگہ تھا جہاں آج نرنکاری بازار ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران راولپنڈی میں دفاعی ضروریات کے پیش نظر دو ڈویژن فوج تعینات کی گئی جس کی وجہ سے اپریل 1915 میں نرنکاری بازار والے علاقے میں فوجیوں اور پمپس میں لڑائی ہو گئی فوجیوں نے پمپس کومار مار کر بھگا دیا۔ تاریخ راولپنڈی و پاکستان از محمد عارف راجہ میں لکھا ہے کہ جب یہاں آئے روز لڑائیاں معمول بن گئیں تو مولوی عبدالحق نے ہندو اور سکھ برادریوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا اور یہ علاقہ ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر انہوں نے سرد مہری دکھائی جس کی وجہ سے مسلمان رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جو 1920 سے 1927 تک جدوجہد کرتی رہی۔
مقامی انتظامیہ کا موقف تھا کہ راولپنڈی کا یہ علاقہ بند کرنے کا مطلب پورے ہندوستان کے ریڈ لائٹ ایریاز بند کرنا ہے اس لیے یہ مقامی انتظامیہ کی بجائے وائسرائے کا دائرہ اختیار ہے۔ دوسرا اگر یہ قحبہ خانہ بند کر دیا گیا تو انگریز فوج گھروں میں داخل ہو کر شہر کا امن تباہ کر دے گی۔ اس کمیٹی کی قیادت ایک جوشیلے رکن منشی قائم دین کے پاس تھی لہٰذا ایک ہندو پمپ کے ہاتھوں انہیں قتل کروا دیا گیا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ یہ سب کچھ پولیس کی آشیر باد سے ہوا ہے اس لیے مسلمانوں نے مشتعل ہو کر نرنکاری بازار پر حملہ کر دیا اور جس ہندو پر قتل کا الزام تھا اسے مار دیا اور پیشہ ور خواتین پر تشدد کیا جس کی وجہ سے وہ دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئیں۔
شدید احتجاج اور تصادم کی وجہ سے انتظامیہ نے ریڈ لائٹ ایریا رتہ امرال میں بلیاں والی سرائے میں منتقل کر دیا گیا۔ اسی نسبت سے یہاں واقع پل کو آج بھی چکلہ پل کہا جاتا ہے۔ رتہ امرال بھی ایک سکھ رتہ سنگھ کے نام سے موسوم ہے۔ اس زمانے میں جسم فروشی کے لائسنس پولیس کی جانب سے جاری کیے جاتے تھے۔ ’راولپنڈی سے راولپنڈی تک‘ کے مصنف حافظ عبد الرشید لکھتے ہیں کہ ’راجہ بازار میں ریڈ لائٹ ایریازموجود تھے۔ ایک نرنکاری بازار میں جہاں عورتیں آنکھوں میں موٹا سرمہ ڈالے، ہونٹوں اور دانتوں پر دنداسہ کے سرخ اور سیاہ نشان، بالوں میں گھنا سرسوں کا تیل، طاقچے پر لیمپ کے سامنے کرسی بچھائے ہوئے ہر راہ گیروں کو ’آؤ نا آؤ جی‘ کہتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اور اس طرح قصائی گلی میں گانے والیاں سرشام ہی سارنگی اور طبلہ کے ساتھ تانیں اڑاتی تھیں۔‘
نرنکاری بازار اور رتہ امرال کا ذکر اب تاریخ کی ایک آدھ کتاب میں ہی ملتا ہے لیکن راولپنڈی کا جو مشہور بازار حسن ہے وہ قصائی گلی کے نام سے مشہور ہے جس کی رونقیں 1970 کی دہائی تک قائم رہیں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں کالو نامی قصاب کی دکان تھی جہاں چھوٹا گوشت ملتا تھا۔ سکھ دور میں گائے اور بھینس وغیرہ حلال کرنا ممنوع تھا انگریز دور تک سرعام ذبیحہ کی اجازت نہ تھی اس لیے مسلمان ہر جمعرات کو مل جل کر ذبیحہ کرتےاور چھپ چھپا کر گوشت آپس میں تقسیم کر لیتے۔شہر کی واحد گوشت کی دکان چونکہ یہاں قائم تھی اس لیے یہ قصائی گلی کے نام سے مشہور ہو گئی۔ اس گلی میں نیچے والی دکانوں پر ڈھول، طبلے اور شہنائی بجانے والے بیٹھا کرتے تھے جبکہ اوپر والی منزلوں پر قائم جھروکوں میں رقاصائیں داد نظارہ دیتی تھیں۔ اس گلی کے ارد گرد سرائیں بھی موجود تھیں جو اس بات کی علامت تھیں کہ دور دور کہ شہروں سے لوگ ناچ گانا سننے یہاں آتے تھے۔
راولپنڈی فرام دی راج ایئرز،‘ از علی خان میں درج ہے کہ یہ گلی رات کو آباد ہوتی اور دن یہاں بہت دیر سے نکلا کرتا۔ یہاں سرشام ہی گانے اور گھنگروں کی آوازیں سنائی دینے لگتیں۔ اہل دل اپنا سب کچھ فرشِ راہ کر کے جاتے۔ گلی کے باہر تانگے ہر وقت کھڑے رہتے جو یہاں آنے والوں کو واپس ان کے گھروں میں پہنچاتے۔ یہاں شادی بیاہ کے لیے دو معروف بینڈ بھی تھے جن میں سے ایک سٹار آف انڈیا تھا جس کے موسیقار سارا دن اردو، پنجابی اور انگریزی دھنیں بجاتے رہتے تھے۔ لوگ شادی بیاہ کے لیے اس بینڈ کی بکنگ کیا کرتے تھے۔قصائی گلی کی رقاصائیں صرف یہاں ہی رقص و سرود کی محفلیں نہیں سجاتی تھیں بلکہ امرا خوشی کے مواقع پر انہیں اپنے گھروں میں بھی بلاتے تھے۔ چونکہ پوٹھوہار میں شادی بیاہ کی تقریبات مہینہ بھر جاری رہتی تھیں اس لیے یہ رقاصائیں بھی اپنے ناچ گانے سے پورا مہینہ رونقیں دوبالا کرتیں۔ بارات میں یہ رقاصائیں دولہا کے گھوڑے یا ہاتھی کے آگے آگے ناچتے ہوئے جاتی تھیں جن پر لوگ پیسوں کی برسات کیا کرتے تھے۔
آج قصائی گلی جائیں تو آپ کو ان دکانوں میں جہاں سے سرسنگیت پھوٹا کرتے تھے اور ان چوباروں میں جہاں ڈھول اور طبلے کی لے پر رقص ہوتے تھے اب کراکری کی دکانیں نظر آتی ہیں۔ دو تین کوٹھے اب بھی ایسے موجود ہیں جن کے در ماضی کی طرف ادھ کھلے سے ہیں۔ تاہم یہ لوگ یہاں کے ماضی کی روایت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایک شہر میں سال دو سال سے زیادہ قیام نہیں کرتے بلکہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔پروفیسر شہباز علی کہتے ہیں 1990 تک یہاں گانا بجانا ہوتا تھا اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے یہاں گانے بجانے والیوں کو لائسنس دیا جاتا تھا جو جسم فروشی کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ ان کے اوقات بھی مقرر تھے جو شام سات سے رات دس بجے تک تھے ا س کے بعد پولیس آ کر سیٹیاں بجاتی تھی کہ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اسی نسبت سے ’ٹائم لگانے‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی۔ مقررہ اوقات میں لوگ ان کا گاناسننے آ جاتے تھے۔
ان کے ساتھ سازندے بھی ہوتے تھے۔ ان کے کوئی مقررہ نرخ نہیں تھے لوگ اپنی اسطاعت کے مطابق بیلیں بھی دیتے تھے۔ لیکن پھر یہ لوگ بدلتے ہوئے وقت کی نظر ہو گئے۔ جن کے اپنے کوٹھے تھے انہوں نے دکانداروں کے ہاتھوں فروخت کر دیئے اور جو کرائے پر تھیں وہ چھوڑ گئیں۔ سازندوں نے بھی اپنے پیشے بدل لیے۔ اب یہ تاریخ کا ایسا باب ہے جس کے کواڑ ماضی کی جانب ہی کھلتے ہیں۔‘ ایسی ہی کہانی لاہور کی فوڈ اسٹریٹ کی بھی ہے جو شاہی مسجد کے عقب میں اور گوالمنڈی میں موجود ہیں۔
تبصرہ لکھیے