جماعت کا گلدستہ اس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒنے۱۹۴۱ء میں ترتیب دیا تھا۔اس کے بانی کے مطابق۔سید مودودیؒ ۲۶ ؍ اگست ۹۷۰ ء میں اپنی ایک تقریر جو’’جماعت اسلامی کے ۲۹ سال‘‘ کتاب کی شکل میں شائع ہوئی۔
جماعت اسلامی کے قیام کے متعلق فرماتے ہیں’’دراصل یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا کہ کسی شخص کے دل میںیکایک یہ شوق چرایا ہو کہ وہ اپنی ایک جماعت بنا ڈالے اور اس نے چند لوگوں کو جمع کر کے ایک جماعت بنا ڈالی ہو، بلکہ وہ میرے ۲۲ سال کے مسلسل تجربات، مشاہدات، مطالعے اور غور و خوص کا نچوڑ تھا جس نے ایک اسکیم کی شکل اختیار کی تھی اور اسی اسکیم کے مطابق جماعت اسلامی بنائی گئی تھی‘‘ یہ گلدستہ۵ ۷؍ افراد سے بنا تھا۔
پھر پاکستان پوری اسلامی دنیا میں اس کے بانی کے بیانیہ کے مطابق ایسے گلدستے بنتے رہے۔ حتہ کہ دشمن کے کان کھڑے ہوئے۔اس کے خلاف سازشیں ہونے لگی ۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان کا یہ کام ہے کہ دنیا میں اصلاح کے کام کرنے کے لیے کہیں بھی ابتدا ہو، اسے کو وسوے ڈال کر اسے ختم کرنے کے جسارت کرتا ہے۔ مگر اس گلدستے پر اللہ کا ہاتھ تھا اور ہے کہ یہ پھولتا پھلتا ہی جاتا ہے۔کیوں نہ ہو کہ یہ وہ گلدستہ ہے جو انبیاء کے گلدستوں کے قریب ترین ہے۔اس گلدستہ کی کامیابی میں اس کے بانی کی قربانیوں کا ہاتھ ہے۔
صاحبو! ۷۵ سال سے قائم جماعت اسلامی اللہ کے دین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرنے کی جو و جہد کر رہی ہے۔ اس میں اس کے قائم کرنے والے پر سخت آزمائشیں گزری۔ ایک وقت فوجی ڈکٹیٹر کی عدالت نے انہیں قادیانی مسئلہ پر موت کی سزا سنائی۔ڈکٹیٹر ایوب خان نے لاہور کے جلسے میں غنڈے بھیج کر اسے ختم کرنے کے لیے حملہ کرایا ۔ کئی بار قید بند کی صہبتوں سے گزرے۔ مگر چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔جیل کو بھی اپنے علم و ادب کا گہوارہ بنا کر اپنی شعرہ آفاق تفسیر، تفہیم القرآن مکمل کی۔ ان لوگ صرف اور صرف اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اخلاص سے ا س میں شامل ہوئے۔ اپنی زندگیاں کھپا دیں۔دنیا کی چکا چوند کو چھوڑ دیا۔اپنے آرام کو چھوڑ کرصرف اللہ کی رضامندی کے لیے دن رات محنت کی۔
اپنے ہاتھوں کوروکے رکھا۔اِن پر آوازے کسے گئے مگر پروا نہیں کی۔ اِن پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ ان کو تنگ کیا گیا۔ ان سے لڑائیاںلڑی گئیں ۔مگر اِنہوں نے سب کو معاف کر دیا۔ انہوں نے یہ سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے کیا۔ اللہ کی رضاکے لیے دوستیاں کیں ۔اللہ کی رضا کے لیے دشمنیاں کیں۔اے اللہ! آپ نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے۔ ان میں سے کچھ نے دیکھا کہ زندگی کا ایک حصہ مخالفوں کے درمیان گرز ا۔ مگراسلامی نظام قائم نہ ہو سکا۔ یہ تیرے بندے دل برداشتہ ہوکر ایک طرف ہو گئے۔ یعنی کچھ پھول اس گلدستے سے ایک طرف ہو گئے۔ اللہ تیرے کچھ بندے اپنی کمرزوری ’’میں‘‘ کی وجہ سے ایک طرف ہوگئے۔ کچھ معاش کی وجہ سے علیحدگی ہو گئے۔
کوئی جماعت کی اتحادی سیاست سے اختلاف کر کے ایک طرف ہو گیا۔ اور نہ جانے کون کون سی وجوحات نے انہیں اس گلدستے سے الگ کر دیا۔ ہم تو ظاہری باتوں سے واقف ہیں دلوں کے کے تو ہی حال جانتا ہے۔ اللہ کے سخت جان بندے ڈٹے رہے۔ کہا کہ اسلامی نظام تو تب قائم ہو گا جب ہمارا رب چاہے گا۔ بندے کا کام اللہ کے راستے کی طرف بلانا ہے۔ دعوت دینا ہے۔ اللہ کا کا م اپنی زمین پر اپنا کلمہ بلند کرنا ہے۔جب چاہے گا تب کرے گا۔ انہوں نے اپنی’’ میں‘‘ کو اجتماح کے سپرد کر دیا۔ کہ جماعت اسلامی نام ہے اپنی رائے کو اجماح کی رائے کے سامنے قربان کرنے کا ہے۔تیرے ان بندیوں کی نظر اس دنیا میں کمائی کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی طرف تھی۔
وہ اپنی دنیا بنانے کے بجائے اپنی آخرت بناتے رہے۔ اللہ کے یہ بندے ڈٹے رہے اور اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کی دل پہاڑوں جیسے ہیں کہ وہ تیزہوائوں کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں۔ و ہ اب تک بھی ڈتے ہوئے ہیں۔ پکار پکار اپنے رب کی کبریائی بیان کر رہے ہیں۔ کچھ بندے جماعت اسلامی کی اتحادی سیاست سے اختلاف کر کے ایک طرف ہو گئے۔ مگر جماعت اسلامی کا امیر اکیلے فیصلے نہیں کرتا۔ اس کا ایک شورارائی نظام ہے۔ وہ سارے فیصلے کرتا ہے۔ حق ہمیشہ اجماح کے ساتھ ہوتا ہے۔ بہر حال اب تو جماعت اسلامی کی شوریٰ نے اپنی جھنڈے، اپنے بیانیے ، اپنے منشور کے ساتھ میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ گلدستہ بہر حال انسانوں کا گلدستہ ہے۔۔ اللہ نے انسان کو کمزروپیدا کیا گیا ہے۔ یہ راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ کبھی اِسے اُس کی ’’میں‘‘مار جاتی ہے۔ کبھی وطن کی محبت مار جاتی ہے۔ کبھی قبیلے کے بندھن راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ کبھی مال متاع، سونا ،جاگیر، عورتیں،ماں باپ، اولاد، گھر بار، چلتے ہوئے کاروبار۔نہ جانے کتنی چاہتیں ہیںجوانسان کے نفس کو اُبھارتی ہیں۔انسان ان خواہشات میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی حالت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورت توبہ کی آیت نمبر۲۴ میں فرمایا ہے ۔’’اے نبیؐ کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہارے بیویاں اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے مال وہ مال جو تم نے کمائے ہیں ، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز ہیں تو انتظار کرو جہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوںکی رہنمائی نہیں کرتا‘‘ اس آیات کا نزول جنگ تبوک کے متعلق ہے۔جو اُس وقت اُتری۔
جب مدینہ میں فصلوں پک چکی تھیں۔ کانٹنے کے لیے تیار کھڑی تھیں۔سخت گرمی کا زمانہ تھا۔ اور رسولؐ اللہ اُس زمانے کی سپر پاور’’ روم‘‘ کی سرحد کے قریب جنگ تبوک کے لیے جانے کا اعلانیہ اظہار کر چکے تھے۔ہم گلدستے کے ان بکھرے ہوئے پھولوں سے درمندانہ درخواست کرتے ہیں کہ اس میں واپس شامل ہوجائیں۔ اپنے سارے گلے شکوے دور کردیں۔ حق و باطل کی جنگ برپا ہے ۔ حق کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے۔ کہیں آپ پیچھے نہ رہ جائیں۔ خاص کر کراچی جو پاکستان کا دل ہے اس میں امیر جماعت اسلامی کراچی انجینئر حافظ نعیم الرحمان اپنی کشتیاں جلا کر اپنے منشور اپنے جھنڈے اور اپنے کارکنوں سمیت میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے عوام پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور اور تحریک انصاف سے بیزار ہیں۔ مہنگاہی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ اور آئی ایم ایف کے سودی قرضوںنے عوام کا جینا دوبھرکر دیا ہے۔
ان مشکلات کا حل صرف اور صرف جماعت کے پاس ہے۔ آپ اسی نعرے کو لے عوام کے پاس جائیں۔ یہ وقت اختلاف کو ایک طرف رکھ کر اللہ کی ایک رسی کو پکڑنا ہے۔ اگر کراچی میں بلدیہ کاالیکشن جماعت اسلامی نے جیت لیا تو پورے پاکستان کی فضا جماعت اسلامی کے حق میں ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ۔ لہٰذا بکھر جانے والے پھول اپنے پھولوں کے گلدستہ میں واپس آجائیں ۔شکریہ
تبصرہ لکھیے