ہوم << بکرا عید، کیا تھی، کیا ہو گئی -عبداللہ طارق سہیل

بکرا عید، کیا تھی، کیا ہو گئی -عبداللہ طارق سہیل

عید قرباں، بکرا عید، بقر عید دراصل عید الاضحی ہے۔ اس کی مبارک ہو۔ یہ عید ہے کیا، بہت موٹی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں، مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کا ایک مختصر سا کتابچہ ”عیدین“ کے نام سے ہے، اسے پڑھ لیجئے اور پھر حیران ہوئیے کہ عید الاضحی دراصل تھی کیا اور پاکستان پہنچتے پہنچتے اس کی شکل کیا ہو گئی۔ ایسی کہ پہنچانی ہوئی صورت بھی پہنچانی نہیں جاتی۔

عید سے کئی دن پہلے ٹی وی پر ”کک پرسن“ آ جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بکرے کے جسم کا کون سا حصہ کیسے پکانا ہے۔ نئی نئی ڈشوں پر بحث ہوتی ہے۔ لذّت کام و دھن کے فضا ئل بیان کئے جاتے ہیں اور یہی کچھ یو ٹیوب پر ملتا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک پیٹ کا پجاری عید کی واحد غرض و غایت پر پروگرام کرتا ہے، یہ کہ کھانا ہے اور بس کھاتے ہی جانا ہے۔ عید نہ ہوئی، پیٹیوﺅں کا میلہ ہو گئی۔

سارا گوشت خود ہی کھانا ہے، محروم طبقات کو نہیں دینا ہے۔ بہت سے لوگ نئی فرج بلکہ دو دو لے آتے ہیں کہ ایک میں اتنا گوشت کہاں آئے گا۔ یہ گوشت وہ عام دنوں میں ، سستے میں (یہی کوئی ڈیڑھ ہزار روپے کلو) میں خرید کر کھا سکتے ہیں، پھر بکرا خود قربان کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ عید پر محروم طبقات کی محرومی اور بڑھ جاتی ہے۔ قربانی کر نہیں سکتے، ان میں گوشت بانٹنے کی رسم اٹھتی جا رہی ہے۔ نیا کلچر رہائشی بستیوں کا یہ آیا ہے کہ ایلیٹ اور سیمی ایلیٹ کلاس نے قلعہ بند دیواروں والی کالونیاں بنا لی ہیں جہاں سب کھانے والے رہتے ہیں، کھلائے جانے والے نہیں۔ اب ان میں سے کوئی بانٹنا چاہے بھی تو کسے۔ عید بھی ”سٹیٹس سمبل“ اور دولت کا تہوار بن گئی۔

خود اسلام دولت اور امارت میں بٹ گیا۔ حضرت خواجہ نصیر الدین گولڑہ شریف والے بڑے زبردست عالم دین تھے ، رگ رگ میں روح اسلام بسی تھی، نکتہ آفرینی میں کمال حاصل تھا۔ ایک بار کسی نے پوچھا، حضرت سیّد زادی کا نکاح کسی غیر سیّد زادے سے ہو سکتا ہے۔ طنزاً ارشاد فرمایا، اسے چھوڑو، یہ پوچھو کہ امیر سید زادی کا نکاح غریب سید زادے سے ہو سکتا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ اب تو بعض حلقوں میں برگزیدہ اور جید عالم دین بھی وہی مانا جاتا ہے جو کئی کروڑ کی گاڑی میں سفر کرے، کرولا، ہنڈا جیسی ”نیچ ذات“ کی گاڑیوں کو ہاتھ لگانا بھی خلاف شرح سمجھے۔کسے یاد ہو گا کہ جب ہادی¿ اعظم، رہبر عالم نے مکہ میں اسلام کی صدا بلند کی تو غریب تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس پر لبیک کہا۔

اچھا اسے چھوڑئیے ، آگے چلتے ہیں۔ عید قرباں صرف انسانوں کی عید نہیں، یہ بکروں کے لیے بھی جشن کا دن ہے۔ کیسے؟ آپ نے سنا نہیں کہ مرگِ انبوہ جشنے دارد ، اسی لیے تو اسے بکرا عید یعنی بکروں کی عید بھی کہتے ہیں۔ شاعر البتہ ایک اور بھی تھا جو حیران تھا کہ یہ عجب تماشا دیکھا کہ بروز عید قرباں وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا، شاعر کا مدعا یہ تھا کہ ثواب بکروں کو ملنا چاہیے۔ تو عرض ہے کہ یہ کیسے فرض کر لیا کہ بکروں کو ثواب نہیں ملے گا؟ بجا یہ کہیں نہیں لکھا کہ بکروں کو ثواب ملے گا لیکن یہ بھی تو کہیں نہیں لکھا ہوا کہ بکروں کو ثواب نہیں ملے گا۔

بھئی سادہ سی بات ہے روحیں اللہ کی ذات سے ظہور میں آئیں۔ ترتیبِ عناصر کو فنا ہے، روح کو نہیں۔ غور فرمائیے:۔ اللہ نے خود بتایا کہ جسم (انسانوں کے بھی، حیوانات کے بھی) اس نے مٹی اور پانی سے بنائے لیکن روح کے بارے میں کیا فرمایا یہ کہ اسے بنایا نہیں، پھونکا اور وہ بھی اپنی روح سے (آیت 29 سورہ الحجرات) روح فنا نہیں ہوگی۔ جیسی ہو گی ویسی کیفیت عالمِ ثانی میںپا لے گی۔ قربانی کی روح ایک اور بھی ہے۔ یہ کہ بکرا کئی دن پہلے لاﺅ۔ اتنے دن کہ اس کے ساتھ پیار ہو جائے۔ آپ کو بھی اور آپ کے بچوں کو بھی۔ پھر اسے ذبح کریں گے تو دکھ ہو گا، تکلیف ہو گی، طبیعت پر رقت طاری ہو گی۔ یہ دکھ درد بھی قربانی ہے۔ یعنی ایک قربانی مال خرچ کرنے کی، ایک اُسے ذبح کرنے کی جس کے ساتھ اُنس ہو گیا ہے۔

لیکن ہم نے اس دوسری قربانی کا دروازہ بھی بند کر دیا۔ عید کی رات بکرا لائے صبح کاٹ ڈالا قصہ ختم۔ چلئے جناب ، بہت ہو گیا، جو بھی ہے آپ سب کو، ہم سب کو عید مبارک۔

تحریک انصاف والوں نے بڑی دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ ہم جب ”امپائر“ کہتے ہیں یا ”ان“ پر تنقید کرتے ہیں تو مراد فوج نہیں، الیکشن کمشن ہوتا ہے۔ مطلب، پھر یہی سمجھا جائے کہ امریکہ نے الیکشن کمشن کے ساتھ مل کر تبدیلی سرکار کی چھٹی کرائی۔ میر جعفر اور میر صادق بھی یہی الیکشن کمشن ہے، غدّار بھی یہی، یزید بھی یہی، باطل قوتیں بھی اسی الیکشن کمشن کی ہیں۔

فواد چودھری نے ”دلیری“ دکھاتے ہوئے اعتراف کیا کہ رانا ثناءاللہ پر منشیات کا مقدمہ جھوٹا تھا۔ اور میں نے کابینہ کے اجلاس میں اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ لیکن ساتھ ہی ”دیدہ دلیری“ سے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ مقدمہ بنانے کا فیصلہ ہمارا نہیں تھا، ”ان“ کا تھا۔ تو یہاں بھی ”ان“ سے مراد الیکشن کمشن ہو گا۔ مطلب یہ نکلا کہ رانا ثناءاللہ پر منشیات کا مقدمہ بھی الیکشن کمشن نے بنایا۔ اب یہ سوال بھی ہے کہ وہ -14 کلو ہیروئن کہاں گئی جو تب رانا صاحب سے برآمد کی گئی تھی؟۔ شاید الیکشن کمشن کے دفتر ہی میں ہو گی۔

البتہ ایک سوال پھر بھی جواب طلب ہے۔ رانا ثناءاللہ پر ہیروئن ڈالنے کا فیصلہ ”الیکشن کمشن“ کا تھا تو وفاقی کابینہ میں فواد صاحب نے مخالفت کسی کی کی؟ کیا الیکشن کمشن کے فیصلوں کی حتمی منظوری کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب دیا کرتے تھے؟ امید ہے یہ معمہ فواد صاحب اگلی پریس کانفرنس میں حل کر دیں گے۔

عید سے پہلے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ نے دو خوشخبریاں، عید کا تحفہ بنا کر، وعدہ فردا کے روپ میں سنائی ہیں۔ ایک یہ کہ مہنگائی جلد کم ہو گی اور دوسری یہ کہ گھی سو ڈیڑھ سو روپے کلو کے حساب سے سستا ہو جائے گا۔ اب یہ اہل لغت کا کام ہے کہ لفظ ”جلد“ کے معنے تلاش کریں۔ یہ معلوم کریں کہ ”جلد“ کی مدّت کیا ہے، کم سے کم نہ سہی، زیادہ سے زیادہ سہی۔ یہ معاملہ اصل لغت کا ہے، عوام کا معاملہ تو بہت سادہ ہے، یعنی یہی کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔

Comments

Click here to post a comment