ایک غلط فہمی جو عام پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ طاہری خاندان کی حکومت مرکز سے آزاد ہونے والی پہلی ریاست تھی، جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ تمام تر اختیارات اور قوت ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ اسے ایک نیم خود مختارانہ حکومت کہا جا سکتا ہے۔
طاہریوں کی حیثیت خراسان میں عباسیوں کے صوبیدار جیسی تھی۔ ہاں! اَن کی طاقت بہت زیادہ تھی، جس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ طاہر کے مرنے کے بعد بھی مامون کی ہمت نہیں ہوئی کہ طاہر کے بیٹے طلحہ کے سوا کسی دوسرے کو خراسان کا والی بنائے۔ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ طاہری خاندان اپنا جانشیں خود مقرر کرتا تھا اور عباسی خلیفہ صرف مہرِ تصدیق لگاتا تھا، بس!
خلافت کے بعد گورنری بھی نسل در نسل
پھر طاہری خاندان کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ عین اُسی دور میں جب طلحہ خراسان جیسے اہم صوبے کا والی تھا، طاہر کا دوسرا بیٹا عبد اللہ مصر و حجاز کا گورنر بنایا گیا۔ پھر 828ء میں طلحہ کی وفات کے بعد خراسان کا صوبہ اسے دے دیا گیا۔ یوں "خلافت" کے بعد گورنری بھی نسل در نسل چلنے لگی۔ یعنی ثابت ہو گیا کہ خراسان اور وسطِ ایشیا میں بات نیم خود مختاری سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ خطہ اب مکمل طور پر آزاد تھا، جو صرف ظاہراً خلیفہ کی اطاعت کرتا تھا۔
طاہری خاندان اپنی اطاعت کو ظاہر کرنے کے لیے بغداد کو خراج دیتا، قیمتی تحائف بھی بھیجتا اور وہ سب کچھ کرتا جس کی اُن سے توقع کی جاتی تھی۔ عباسیوں کا راج محض خراج، تحفے تحائف، خطبوں اور سکّوں تک ہی محدود تھا، حقیقی اختیارات طاہری خاندان کے پاس تھے۔
860ء کی دہائی میں جب دار الخلافت سامرا اور بغداد میں حالات قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ منتصر باللہ کے بعد یکے بعد دیگرے کئی خلیفہ ترک فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے، اُس دور میں گویا اسلامی دنیا کے اصل حکمران طاہری ہی تھے۔
طاہرِ اعظم، عبد اللہ بن طاہر
طاہریوں میں سب سے زیادہ شہرت و نیک نامی طاہر بن حسین کے بیٹے عبد اللہ بن طاہر نے پائی۔ بطور گورنر خراسان اس کا دور 828ء میں شروع ہوا اور 844ء میں اپنی وفات تک جاری رہا۔ وہ الجزیرہ، یعنی دجلہ و فرات کی درمیانی وادی اور بعد ازاں مصر میں بڑی بغاوتوں کے خاتمے کی وجہ سے پہلے سے ہی مشہور تھا۔ پھر اتنے طویل عرصے تک سب سے اہم صوبے کا والی بھی رہا۔بلاشبہ اُس دور میں عبد اللہ بن طاہر سے زیادہ طاقتور کوئی شخصیت پوری اسلامی دنیا میں نہیں تھی۔
عبد اللہ نے مرو کے بجائے نیشاپور کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ یہ مرو سے 160 میل جنوب مغرب میں واقع شہر ہے۔ مرو تو موجودہ ترکمنستان میں ہے لیکن نیشاپور ایران میں واقع ہے۔
عبد اللہ کے دور میں جہاں وسطِ ایشیا و خراسان میں نئے عہد کا آغاز ہوا، وہیں خوشحالی بھی بہت آئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے دور میں صرف خراسان سے محصول ساڑھے پانچ کروڑ درہم سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔
وسط ایشیا، عسکری و معاشی کے بعد ایک علمی قوت
طاہریوں کے دورِ عروج میں وسطِ ایشیا عسکری اور معاشی مرکز سے بھی آگے بڑھ گیا اور اُس کی علمی طاقت بھی عروج کی جانب بڑھنے لگی۔ بغداد کے زوال کے بعد بھلا مرو اور نیشاپور کو کون روک سکتا تھا؟ 873ء میں طاہری خاندان کے خاتمے تک نیشاپور اسلامی دنیا کا دوسرا سب سے اہم شہر بن چکا تھا۔علمی اور ثقافتی لحاظ سے نیشاپور بغداد کی ٹکر کا شہر تھا بلکہ مسلم دنیا میں فلسفے کا مرکز تھا۔
ویسے طاہری خاندان کو ایک اہم کام کا سہرا بھی جاتا ہے۔ انہوں نے ہی فارسی کو پہلوی کے بجائے عربی رسم الخط میں لکھنے کا کام مکمل کیا تھا۔ تب سے آج تک فارسی عربی رسم الخط ہی میں لکھی جاتی ہے۔
ویسے طاہری خاندان کا راج مکمل ہونے کے بعد نیشاپور خطے کا دارالحکومت نہیں رہا۔ اب وسطِ ایشیا مسلسل سیاسی انقلابات کی زد میں تھا۔ صرف ایک صدی میں اس شہر پر تین بار مختلف حکومتوں کے قبضے ہوئے اور یہ دوبارہ کبھی دارالحکومت نہیں بن سکا۔ پہلے ایران-افغانستان سرحد پر واقع شہر زرنج کو یہ اعزاز حاصل ہوا، پھر بخارا، پھر افغانستان کے شہر غزنی اور غور اس خطے میں قائم ہونے والی حکومتوں کے مراکز بنے اور بالآخر ایک مرتبہ پھر مرو دار الحکومت بن گیا۔ البتہ مذہبی تعلیم، سیاسی فکر، ریاضی اور سائنسی علوم کے مرکز کی حیثیت سے نیشاپور کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی، یہاں تک کہ 1221ء میں چنگیز خان کے لشکر نے اس شہر کو ملیا میٹ کر دیا۔
تاریخ میں درج ہے کہ منگولوں کی جانب سے شہر کے ہر جاندار کو قتل کرنے کا حکم تھا، یہاں تک کہ جانوروں تک کو زندہ نہ چھوڑا گیا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نیشاپور میں لڑائی کے دوران چنگیز خان کا داماد توکوچار مارا گیا تھا۔ اس پر چنگیز کی بیٹی نے ہر جاندار کے قتل کا پروانہ جاری کر دیا تھا۔ یوں مرو جیسے عظیم شہر کے صرف تین دن بعد سقوطِ نیشاپور بھی ہو گیا۔
طاہری خاندان کا خاتمہ
خیر، یہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ ہم بات کر رہے تھے طاہری خاندان کی۔ عبد اللہ بن طاہر کی وفات 844ء میں ہوئی، جس کے بعد اس کا بیٹا طاہر ابن عبد اللہ ثانی حکمران بنا، جس کے دور میں بغاوت کے ابتدائی آثار رونما ہوئے۔ سیستان کا علاقہ طاہریوں کی گرفت سے نکل گیا اور جب اُس کا بیٹا محمد بن طاہر حکمران بنا تو اس کی نا اہلی کی وجہ سے طبرستان میں زیدیوں نے ایک نئی حکومت کھڑی کر لی۔ یہاں تک کہ 873ء میں صفاری خاندان نے طاہریوں کا خاتمہ کر کے ایک نئی حکومت کا اعلان کر دیا۔ یہ بنو امیہ اور بنو عباس کے بعد مرکزی حکومت سے علیحدہ ہونے والی پہلی مکمل خود مختار حکومت تھی اور اس بات کا اعلان بھی کہ اب وسیع و عریض سلطنتوں کا دور ختم ہو گیا۔ اتحاد کی مالا ٹوٹ چکی، موتی بکھرنے کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
تبصرہ لکھیے