میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان میں لبرل سیکولر اور اسلامسٹ دوستوں کے درمیان کوئی فکری معرکہ ہے. میں اس سے اتفاق نہیں کرتا. اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل اور سیکولر لوگ ایک محدود اقلیت ہیں۔ پاکستان میں اصل فکری معرکہ شدت پسند اور معتدل اسلامسٹ سوچ کے مابین ہے.
شدت پسند اور انتہا پسند اسلامسٹ وہ لوگ خیال کیے جاتے ہیں جو اپنا فہم اسلام ہی حتمی سمجھتے ہیں اور کسی دوسرے گروہ کے فہم کو درست تسلیم نہیں کرتے. ان کے نزدیک ایک ہی ناجی فرقہ ہے اور وہ فرقہ وہ خود ہیں، باقی سب کے بارے نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گمراہ لوگ ہیں جن کا عقیدہ درست نہیں۔ وہ دلیل اور مکالمے کا کام صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگوں سے اپنی سچائی کو منوایا جائے۔
اس گروہ کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلے وہ لوگ ہیں جو اپنے موقف کے لیے تشدد اور مسلح جدوجہد کو جائز خیال کرتے ہیں. یہ عقیدے کی سربلندی کے لیے دوسروں کی جان لینا خواہ وہ بے گناہ ہی ہو، جائز سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ خلافت کی بحالی کا نعرہ لگاتے ہیں، جمہوریت کو یہ لوگ کفر کے مترادف خیال کرتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو خود کو نسبتا معتدل اور سافٹ چہرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے فہم اسلام کو حتمی سچائی خیال کرتے ہیں اور دلیل اور مکالمے کا مقصد صرف یہی سمجھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنی فکر کا تابع کیا جائے مگر یہ لوگ عدم تشدد اور پرامن ذرائع سے اپنی بات کو آگے پہنچانے پر یقین رکھتے ہیں ان میں سے بعض لوگ خلافت کی بحالی چاہتے ہیں اور کچھ لوگ بعض شرائط کے ساتھ جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں۔
معتدل اسلام پسندوں کے درمیان بھی کافی فکری اختلافات موجود ہیں مگر یہ گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مذہبی عبادات اور ریاستی امور کو الگ الگ دیکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہر فرقے اور ہر مسلک کو اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دیتے ہیں. ان کے نزدیک اسلام کے نفاذ سے مراد کسی مخصوص فہم کا نفاذ نہیں بلکہ تمام مسالک کو اپنے فقہ کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت، اور پرامن طور پر رہنے اور اپنے فہم کی تبیلغ کی آزادی دینا ہے۔
ان لوگوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ لوگ ہیں جو ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں یا اس کو برقرار رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ جمہوریت کے ذریعے حکومت کی بات کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو خلاف اسلام نہیں سمجھتے۔ کسی فرقے کے عقائد کو درست کرنے کی بات نہیں کرتے۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں تدریجی طور پر اسلام کو نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں۔
دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اسلام کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کی طاقت کے بغیر سماج میں رواج دینے کی ضرورت ہے. یہ سماجی اقدار اور تزکیہ نفس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی تشکیل کرنے والا ایک منبع ہے مگر جب ہم زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ظاہر، عقیدے اور نظریے کی سلامتی کا ڈھنڈوا پیٹتے ہیں اور دنیا سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ یہ ہم سے ہمارا عقیدہ چھین لے گی یا خراب کر دے گی۔ اس گروہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر ہم لوگ ایک ایسا سماجی دبائو تشکیل نہیں دے سکتے جس سے ہماری اسلامی اقدار کا تحفظ ہو تو ہم کو اپنی اقدار کے بارے غور کرنے کی ضرورت ہے. ایک اور استدلال یہ ہے کہ اسلام کی ایسی تعبیر جو ریاستی جبر کے بغیر نافذ نہیں کی جا سکتی، پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں کیا سقم یا خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کے بجائے اسے ریاست کی قوت سے اس کو نافذ کروانا چاہتے ہیں. ان کے خیال میں مذہبی حلقوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ سماجی جرائم کے بارے میں شعور پیدا کریں. بغیر نکاح کے جنسی تعلق کے بارے میں نوجوانوں میں ایک شعور پیدا کریں، حیا کی اسلامی تعلیم کے بارے کام کریں، اگر اسلامی اقدار کو ریاست کے ڈنڈے کے بغیر فروغ نہیں دے سکتے اور مذہب کی ریاستی امور میں مداخلت چاہتے ہیں تو اس سے تنگ نظری، فرقہ واریت اور شدت پسنندی ہی جنم لیتی ہے۔ یہ گروہ ایک ایسی فلاحی اور رفاہی ریاست کی بات کرتا ہے جہاں کسی گروہ کو مذہب کی حتمی اور جبری تعبیر کا حق نہ ہو اور نہ کوئی گروہ یہ دعوی کرے کہ اس کو ریاست میں ایسا مقام عطا کیا جائے کہ وہ اسلام کی ایسی حتمی تعبیر کرے جو جبرا نافذ کی جائے اور جس کو نہ ماننے والے کافر، مرتد یا گمراہ قرار پائیں
واہ...یہ بالکل ایسا ہے جیسے ستاروں کی روشنی میں اپنا حال جاننااور آج کا دن کیسا رہے گا...آپ لاکھ اختلاف کریں مگر پھر بھی آپ کو لگے کہ یہ سب آپ میں ہے اور آپ ہی کے بارے میں ہے...
اسلام پسند گروہوں میں فکری خلیج – دائود ظفر ندیم: پاکستان میں مسلمانوں کی خاموش اکثریت کا تعلق تو اس مکتبہ سے ہے جو اسلام کو سیاست کا نہیں ذہنی و روحانی تسکین کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں مذہب کو سرمایہ داری اور سوشلزم کے مابین جنگ میں خواہ مخواہ گھسیٹا گیا۔ مذہبی جنونی بھی جلد سمجھ جائیں گے کہ ہزار ڈیڑھ ہزار سال پہلے کئے گئے سیاسی فیصلے آج کی دنیا میں نظیر نہیں بن سکتے
ترکی میں صدر طیب اردوان کی حکمران اسلامی پارٹی اور فتح الله گولن کی اسلامی تحریک کے درمیان حالیہ کشمکش کے تناظر میں محترم داؤد ظفر ندیم کا کالم " اسلام پسند گروہوں میں فکری خلیج" قابل مطالعہ ہے. میں ان کے تجزیہ اور رائے سے اتفاق کرتا ہوں. یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف شدت پسند مسلمانوں کے گروہوں بلکہ معتدل اسلام پسند گروہوں میں بھی اختلافات کی خلیج موجود ہے. ایک طرف وہ اسلام پسند ہیں جو مذہب اسلام اور اس کی اقدار کو ریاستی طاقت کے ذریعے نافذ کرنے پر یقین رکھتے ہیں. دوسری طرف وہ اسلام پسند ہیں جو اسلامی اقدار کو اس طرح پیش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی ریاستی جبر کے بغیر بھی شہریوں کو قابل قبول ہوں. دوسرے لفظوں میں موخر الذکر اسلام پسند مذہب کو ریاستی امور سے الگ رکھنا چاہتے ہیں. یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر اہل مغرب نے کلیسا کے ظلم و ستم سے نجات پائی. ہمیں بھی القائدہ، طالبان، اور داعش جیسے تشدد پسند گروہوں سے نجات پانے اور ایک فلاحی رفاہی ریاست قائم کرنے کے لئے یہی راہ اپنانا ہو گی.