ہوم << وقت الٹ دے نہ بساط ہستی - سعد اللہ شاہ

وقت الٹ دے نہ بساط ہستی - سعد اللہ شاہ

اپنی طرف سے بھی تو اشارہ نہیں ملا خواہش کا پھول دل میں دوبارہ نہیں کھلا ہوتا نہیں ہے ایسے فقط اتفاق ہے اس چارہ گر سے زخم ہمارا نہیں سلا سخن وری میں تدریسی بات کوئی اچھی بات نہیں مگر شعر کے محاسن پر تو بات ہو سکتی ہے۔

ایسے ہی دل چاہا کہ بتا دوں کہ اس غزل میں دو دو قافیے استعمال ہوئے ہیں جیسے شعر ذوبحریں بھی ہوتا ہے آپ خود ہی دیکھ لیں لہروں کی واپسی سے یہ دھوکہ ہوا ہمیں اپنی جگہ سے کوئی کنارا نہیں ہلا تو بھی تو جانتی ہے کہ خوابوںمیں کچھ نہیں اے چشم وا مجھے یہ سہارا نہیں ملا غفلت شعار اس پہ بھی ناراض ہو گیا ہم نے زبان پر جو اتارا نہیں گلہ، چلیے یہاں تک ہم نے سخن وروں کے لئے ایک بات کی ’صلائے عام ہے یا ان نکتہ داں کے لئے‘ وہی کہ’ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں ‘ مندرجہ بالا غزل کا آخری شعر یہ ہے: ہر اک کو لفظ و معنی کا تلخاب کس لئے جس کو نہ ہو یہ جام گوارا نہیں پلا میں جان بوجھ کر کالم کو ادب سے مس کرتا ہوں کہ مجھے بات کرنے میں سہولت رہے.

اور کچھ قرینہ سلیقہ اور اسلوب تحریر کو نکھار دے اگرچہ لامعنویت اور بے معنویت رواج پا چکے ۔خیر یہ تو بے مقصدیت اور بے معنونیت جیسے باتیں ہیں آپ پریشان نہ ہوں میں اپنے موضوع کی طرف آ رہا ہوں کہ کم از کم وہ شخص جسے ہزاروں لوگ سنتے ہیں اور اس کی بات کو سچا اور کھرا جانتے ہیں کچھ نہ کچھ سوچ کر بولے، کل ہی میں بھارت کے طاہر کی غزل سن رہا تھا پہلا مصرع مجھے یاد نہیں گرہ لگا دیتا ہوں: بولنا خوبصورت اگر بولنا مدتوں سوچنا مختصر بولنا کہتے بھی تو ہیں نا، کہ پہلے تلو پھر بولو ایسے انجم رومانی کا ایک شرارتی شعر ذھن میں آ گیا: پہلے تولو وحید قریشی پھر بھی نہ بولو وحید قریشی مجھے ان باتوں کا خیال دو اشخاص کی پریس کانفرنس سن کر آیا ظاہر ہے دونوں حضرات یعنی عطا تارڑ اور شہباز گل کی مکمل کانفرنس سننا تو دل گردے کا کام ہے بلکہ بازاری قسم کا کام ہے دونوں میں انیس بیس کا فرق ہو گا ویسے تو دونوں انیس بیس سے نکل کر اکیس بائیس میں پہنچ گئے .

میری مراد بے لحاظی اور بدتمیزی میں گریڈیشن کرنا ہے تو یہ توبہ الامان عطا تارڑ کے ساتھ محمد احمد خاں تھے جو نہایت سلجھی ہوئی بات کرتے ہیں۔ شہباز گل نے تو عطا تارڑ کے والد گرامی کو رگڑ دیا ایک میں نہیں کئی لکھنے والے لکھ چکے کہ خان صاحب کو نا کے دوستوںنے بہت نقصان پہنچایا اصل میں وہ گاڑیاں بہت خطرناک ہوتی ہیں کہ جن کا بگڑنے والا کچھ نہ ہو ۔ اگر مجھے اجازت دیں تو میں اپنے تحفظات کا یا خدشات کا اظہار کر لوں بلکہ یوں کہیں کہ اپنی حیرتوں کا کہ مجھے ہرگز ادراک نہیں ہو سکا کہ آخر عمران خان کو گھڑیاں بیچنے کی کیا ضرورت پیش آئی انہیں کیا کمی ہے اور پھر ایک وضعداری اور رکھ رکھائو ہوتا ہے اس پریہ منطق کہ وہ اپنی گھڑیوں کے ساتھ جو مرضی کریں اور ایک اور جواز جو ہمارے پی ٹی آئی والے دیتے ہیں کہ عمران خان کی دستخط شد شرٹ بارہ کروڑ میں بک جاتی ہے ۔یہ کریں اگر کوئی کہہ دے کہ چلیے چھوڑیے نارمل ہو جائیے نارل باتیں کیجئے بہتر نہیں۔

یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ پوری دنیا کے سامنے آپ ایک دوسرے کو تماشہ بنا رہے ہیں ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کر کے اپنے اپنے رہنمائوں کی طرف داد طلب انداز میں دیکھتے ہیں چلیے کوئی حسن وعشق کی بات ہوتی تو اور بات تھی کوئی میر کہہ دیتا اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی یہاں تو دنیاوی مفادات ہیں اور بس محبت اور خلوص کی بات نہیں: اس نے غرور حسن میں کیا کچھ کہا مجھے جو کچھ بھی آیا منہ میں وہ کہتا گیا مجھے ویسے ہمارے رہنمائوں کو بھی مرغے لڑا کر بڑا سکون ملتا ہے اس حوالے سے آڈیو ویڈیو سی ڈیز کا بھی بہت اہم رول ہے لیکن اس جسارت کے پیچھے بھی شیطانی کا اذھان کارفرما ہیں پہلی مرتبہ محترمہ پنکی کی بھی آڈیو ریلیز ہو گئی جس میں وہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ہدایات دے رہی ہیں .

پی ٹی آئی والے اسے بالکل جعلی قرار دے رہے ہیں۔ یہاں تو اچھی باتیں بس بے معنی لگتی ہیں فیصلہ آپ ابھی کر لیں جناب شہباز شریف قوم سے فرما رہے ہیں کہ قوم پریشان نہ ہو مشکل وقت سے نکل آئے پہلی بات تو یہ کہ آپ بھی عمران خاں کا ۔کہاہوا جملہ گھبرانا نہیں کا مترادف جملہ بول رہے ہیں دوسرا یہ کہ آپ برے وقت سے کیسے نکل آئے یہ بات عوام سے پوچھیں جن کے لئے ضروریات زندگی خریدنا بھی عذاب بن چکا ہے خدا کا خوف کریں آپ بھی پی ٹی آئی کی طرح اشاریے آسمانوں پر پہنچاتے ہیں میر نے ایک نہایت بلیغ شعر کہا تھا: دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں اندر سے مکان گر رہا تھا تو قبلہ مکان کو دیکھیے اس کی اساس پر حملہ کیا جا رہا ہے سب نے اپنے اپنے نظریات کو پس پست ڈال دیا ہے سب نظریاتی باہر سے اندر کے گند پر کڑھتے رہتے ہیں .

یہ کیسے چالاک لوگ ہیں کہتے ہیں پٹرول کی قیمتیں ان کے بس میں نہیں۔آئی ایم ایف کے معاہدے دستخط کس کے ہیں گویا انہوں نے عوام کو بے رحم مگرمچھوں اور درندوں کے سامنے ڈال دیا ہے اب ان سے بچنا نہ بچنا عوام پر ہے۔ بندہ پوچھے آپ کس مرض کی دوا ہیں کیا آپ بھینس کا دودھ پینے کو ہیں اور بھینس کو چارہ عوام ڈالے، فکر نہ کریں قوم کا پارہ چڑھتا جا رہا ہے چلیے آخر میں محترم طارق عزیز نے کسی کے اشعار پڑھے تھے جو یہاں برمحل لگتے ہیں: کیوں صبا کی نہ ہو رفتار غلط گلی غلط غنچے غلط خار غلط ایک دریا ہے بس اپنے رخ پر کشتیاں آر غلط پار غلط وقت الٹ دے نہ بساط ہستی چال ہم چلتے ہیں ہر بار غلط

Comments

Click here to post a comment