بلاشبہ عباسی دور میں وسطِ ایشیا و خراسان پوری ملتِ اسلامیہ کا سب سے طاقتور حصہ تھا۔ معاشی لحاظ سے بھی اور عسکری لحاظ سے بھی کوئی اِس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
عسکری لحاظ سے اس خطے کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگائیں کہ بنو امیہ کی حکومت اسی سے ٹکرا کر پاش پاش ہوئی تھی۔ 'ابھرتے سورج کی سرزمین' یعنی خراسان سے انقلاب نہ اٹھتا، تو بنو عباس کبھی تنِ تنہا اقتدار حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ پھر عباسیوں کے دور میں امین الرشید جیسا طاقتور خلیفہ بھی خراسان کی قوت کے سامنے ٹِک نہیں پایا، اور نہ صرف اپنا اقتدار، بلکہ جان بھی گنوا بیٹھا۔
اب معاشی لحاظ سے خراسان کی اہمیت دیکھیں: پوری عباسی سلطنت میں سب سے زیادہ ٹیکس یعنی محصول یہیں سے اکٹھا ہوتا تھا۔ اُس زمانے کی ایک دستاویز کے مطابق ابتدائی عباسی دور ہی میں خراسان سے سالانہ دو کروڑ 80 لاکھ درہم کا خراج حاصل ہوتا ہے۔ جو بعد ازاں تقریباً 6 کروڑ درہم تک جا پہنچا۔
یہی وجہ ہے کہ خراسان کا والی خلیفہ کے بعد پوری مسلم دنیا کا دوسرا طاقتور ترین فرد سمجھا جاتا تھا۔ مامون الرشید کی خلافت میں، بلکہ اس کے آغاز سے بھی پہلے طاہر بن حسین نے یہ بات ثابت کر دی تھی۔
وسطِ ایشیا پر طاہری راج
طاہر بن حسین کو "ذو الیمینین" کہا جاتا تھا، یعنی ایسا شخص جس کے دونوں ہاتھ میں دائیں ہاتھ کے برابر طاقت ہو۔ انتہائی بہادر اور دلیر تھا، اسی نے 812ء میں مامون الرشید کے لیے بغداد فتح کیا اور امین الرشید کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اب وہ اسلامی دنیا کے مرکز بغداد کا غیر علانیہ حکمران تھا، جب دار الخلافت ان ہنگاموں سے کہیں دُور مامون کے شہر مرو میں تھا۔
تقریباً چھ سال بعد مامون دل پر پتھر رکھ کر مرو سے بغداد کے لیے روانہ ہوا۔ راستے میں بہت اہم واقعات پیش آئے، مامون کے مقرر کردہ اگلے خلیفہ امام علی رضا زہریلے انگور کھانے سے وفات پا گئے جبکہ مامون کا وزیر بلکہ وزیرِ اعظم فضل بن سہل قتل ہو گیا۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کی موت کے پیچھے مامون کا ہی ہاتھ تھا۔ اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو ان سے کہیں مشکل فیصلہ ابھی مامون نے بغداد پہنچ کر کرنا تھا۔ وہ یہ کہ خراسان کا والی کسے بنایا جائے؟ اپنی غیر معمولی خدمات کی وجہ سے اس عہدے کا واحد اہل فرد طاہر بن حسین تھا۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اسلامی دنیا کی طاقت اُسی دن وسطِ ایشیا منتقل ہونا شروع ہو گئی تھی، جس روز مامون الرشید نے مرو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا مامون کو بھی اچھی طرح اندازہ تھا، اس لیے اُس نے ایسا فیصلہ کیا کہ اِس علاقے کو اتنی خود مختاری بھی مل جائے کہ یہ مرکز کے لیے خطرہ ٹابت نہ ہو سکے اور بغداد کو مستقل خراج بھی موصول ہوتا رہے۔
مامون خراسان اور وسطِ ایشیا کا کافی تجربہ رکھتا تھا، اس لیے وہ جانتا تھا کہ محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔ اگر خراسان کو حقیقی خود مختاری نہ ملی تو وسطِ ایشیا اُس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور پھر اس کا انجام ہر گز امین الرشید سے مختلف نہ ہوگا۔ اِس لیے مامون نے بغداد پہنچتے ہی فوری اور فیصلہ کُن قدم اٹھایا اور طاہر بن حسین کو والی خراسان بنا کر مرو بھیج دیا۔
ریاست کے اندر ریاست
اب خراسان اصل میں 'ریاست کے اندر ریاست' تھی۔ اس پر قابو پانے کے لیے بھروسا مند شخص کو اختیارات دینا ضروری تھے۔ طاہر بن حسین خلافت مامون کے قدموں میں ڈال کر اپنی وفاداری ثابت کر چکا تھا، اس لیے وہ اس ریاست کا حکمران قرار پایا۔
یہی نہیں بلکہ مامون نے اس صوبے کو وسعت دے کر پورا وسطِ ایشیا بھی اُس میں شامل کر دیا۔ یعنی مرو و نیشاپور اور دریائے آمو کے اُس پار بخارا و سمرقند، سب ایک گورنر کے ماتحت آ گئے۔ یوں خراسان اور ماورا النہر دونوں کے ملتے ہی طاہر ہمدان سے لے کر کابل اور شیراز سے لے کر خوارزم تک، مسلم دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حاکم بن گیا۔ آج کی دنیا میں دیکھیں تو ترکمنستان، ازبکستان اور تاجکستان کا بہت بڑا حصہ اور تقریباً پورا ایران اور افغانستان اس میں شامل ہے۔ جی ہاں! اسی دور میں اسلام افغانستان کے مرکزی علاقوں تک بھی پہنچ گیا۔ کابل کے والی نے اسلام قبول کیا اور قندھار اور غزنی کے علاقے بھی خراسان میں شامل ہو گئے۔
بہرحال، طاہریوں نے حیران کن طور پر اس خطے پر بہترین حکمرانی کی، حالانکہ یہ وہ علاقہ تھا جو بغاوتوں اور ہنگاموں کے لیے بدنام تھا، لیکن اُن کے تقریباً 50 سالہ دور کا بڑا حصہ امن و امان کا رہا۔
طاہر بن حسین کا خاتمہ
طاہر اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کتنی طاقت اور اختیار رکھتا ہے، اس لیے کہا جاتا ہے کہ 822ء میں اس نے ایک بار خطبہ جمعہ میں خلیفہ کا نام نہیں لیا۔ بس وہی اُس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ اگلی صبح وہ اپنے بستر پر مردہ پایا گیا۔ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اُس کی موت کی وجہ کیا تھی؟ کئی مؤرخ تو اسے بھی "قتل" ہی گردانتے ہیں اور مامون کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب مامون نے طاہر کو خراسان کا والی بنا کر بھیجا تھا تو اسے تحفتاً ایک غلام بھی پیش کیا تھا۔ اُس غلام کو مامون کی طرف سے ہدایت دی گئی تھی کہ جیسے ہی طاہر میں بغاوت کے آثار دیکھے، زہر دے کر اُس کا خاتمہ کر دے۔
تبصرہ لکھیے