ہوم << بھیر ویں بھیروں نہ بن جائے - عبداللہ طارق سہیل

بھیر ویں بھیروں نہ بن جائے - عبداللہ طارق سہیل

پنجاب میں کھڑا کیا گیا پارلیمانی بحران ٹل گیا بھلے کیسے ہی ٹلا۔ منحرف ارکان کی نااہلی کے باوجود حمزہ کے پاس اکثریت تھی لیکن، پی ٹی آئی بشمول پرویز الٰہی کا اصرار تھا کہ حمزہ وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔

معاملہ ہائیکورٹ میں گیا، اس نے دوبارہ گنتی کا حکم دیدیا کہ قانون یہی ہے، اگر پہلی گنتی میں کوئی ایوان کی کل تعداد کی اکثریت حاصل نہ کر سکے تو دوسری گنتی میں حاضر ارکان کی گنتی کرا لی جائے اور جو جیتے وہی وزیر اعلیٰ۔ اس حکم پر پی ٹی آئی پہلے خوش ہوئی، اس کے کارکنوں نے مٹھائیاں خریدنے کے لیے قطاریں بنا لیں پھر ’’معاملہ فہمی‘‘ ہوتے ہی روئی اور اس بار دکانوں کے باہر مٹھائیاں واپس کرنے کے لیے قطاریں بنا لیں۔ یہ ماجرا دیکھا نہیں، سنا ہے۔ عمران خان کے عاشق دلگیر اعتزاز احسن نے ہائیکورٹ کے فیصلے پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی کہ اس کا مطلب ہے کہ دوسری گنتی میں حمزہ کو پھر وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے یہ تو قبول نہیں۔ مطلب اعتزاز کا پھر یہ ہوا کہ دوسری گنتی میں جس کے ووٹ کم نکلیں، اسے وزیر اعلیٰ بنایا جانا چاہیے تھا۔

اعتزاز احسن کی یہ دوسری ’’ڈاکٹرائن‘‘ ہے۔ پہلی ڈاکٹرائن بہت مشہور ہوئی تھی اور وہ یہ تھی کہ مالیاتی جرائم میں بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہو گا لیکن اگر ملزم شریف خاندان کا ہے تو پھر بار ثبوت ملزم پر ہی ہو گا، الزام لگانے والے یعنی استغاثہ پر نہیں۔ احتساب عدالت سے بعدازاں اسی ’’ڈاکٹرائن‘‘ کے تحت نواز اور مریم کو سزائیں ہوئیں۔

معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا ۔ اس نے مشاورتی عمل میں عمران خاں اور پرویز الٰہی کو مسلسل شریک رکھا تاکہ بعد میں شکایت نہ ہو، پھر فیصلہ دیا کہ گنتی 22 جولائی کو ہو گی یعنی 17 جولائی کو ضمنی انتخاب کے نتائج آنے کے بعد۔

پی ٹی آئی نے اس پر جشن منایا اور راگ جے جے ونتی گایا۔ ڈر اس بات کا ہے کہ 17 جولائی کی رات انتخابی نتائج آ چکنے کے بعد اسی جماعت نے راگ مالکونس کا ایسا الاپ کرنا ہے کہ بہتوں کی نیند میں خلل پڑے گا

؎جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا

تو ہمسایہ کا ہے کوسوتارہے گا

اور بھیرویں بھیروں میں بدل جائے گی۔ ڈر تو لگنا ہی ہے۔ خبر پاکستان کی ہے لیکن چھپی عرب نیوز میں ہے۔ 30 جون کی اشاعت میں اس خبر کو نمایاں جگہ دی گئی ہے کہ پاکستان نے پہلی بار جانوروں پر ظلم کیلئے قید اور جرمانے کی سزائیں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سروس بھی بنا دی ہے جس پر جانوروں سے ظلم زیادتی کی رپورٹ کی جا سکے گی۔

خبر کا متن پڑھنے کے بعد علم ہوا کہ دراصل وزیر اعظم کے سٹریٹجک اصلاحات کے یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی کی پریس کانفرنس ہے۔ اس پریس کانفرنس میں سنائے جانے والے دوسرے فیصلے اخبارات کی زینت بنے، جانوروں سے متعلق حصہ میڈیا نے نظرانداز کیا یا اسے اندر بقیے میں ڈال دیا۔ جہاں انسانی حقوق کی اصطلاح سرخی میں نہ آ سکتی ہو وہاں جانوروں کے حقوق کی کیا اوقات۔ حالانکہ دنیا بھر کے دانشور اس طرح کی بات کر چکے ہیں کہ کوئی قوم کتنی مہذب اور متمدن ہے، اس کے جانچنے کا پیمانہ جانوروں سے اس کا سلوک ہے ۔

خبر کے مطابق وٹرنری سکولوں میں کتے بلیوں کی ظالمانہ تجرباتی چیر پھاڑ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور گلی محلے میں پھرنے والے جانوروں کو گولی مار کر یا زہر دے کر ہلاک کرنے پر بھی کارروائی ہو گی۔ پچھلے مہینوں کی خبر ہے کہ کراچی میں کتا مار مہم کے دوران عملے نے ہر کتے کو ایک ایک گولی ماری (ایمونیشن کی بچت کی) نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی کتا فوراً نہیں مرا، کئی گھنٹے تڑپ تڑپ کر مرے، کئی کی جان تو اگلے دن نکلی۔

جانوروں سے ہمدردی اور ان کی مدد کے لیے دنیا کے بہت سے ملکوں میں ریسکیو کے ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ نجی شعبے میں بننے والے اداروں ایدھی ٹرسٹ کی طرز پر لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چین میں جہاں کبھی لوگ جانوروں کے حقوق کے نام پر ہی حیران ہو جاتے تھے کہ یہ کس شے کا نام ہے اور جہاں زندہ جانوروں کی تمام کھال اتارنا، انہیں زندہ جلانا، ابلتے کڑھائو میں زندہ بھی پھینک دینا معاشرتی روایت تھا، وہاں بھی یہ ادارے قائم ہو چکے ہیں۔

کل ہی ایک وڈیو دیکھی۔ ایک صاحب نے ویگن کے باہر کئی گائے اور بیل رسوں سے باندھ کر الٹا لٹکا ئے ہوئے تھے۔ یہ قربانی کے لیے خریدے گئے تھے۔ اس شخص کی قربانی کہاں قبول ہو گی، الٹا روز حشر اسے الٹا لٹکا دیا جائے گا۔ لوڈروں اور ٹرکوں میں جانور جس طرح ٹھونس ٹھونس کر بھرے جاتے اور لمبے سفر پر بھوکے پیاسے لے جائے جاتے ہیں، یہ سب قابل گرفت معاملہ ہے بلکہ واجب ِ گرفت۔ اسلام کا حکم ہے جانور پالو تو دن میں آٹھ بار اسے کھانا دو اور اسے مارو مت۔ دنیا اس اصول پر عمل کر رہی ہے، اُمت اسے نظرانداز کر رہی ہے۔

جانور خدا کی ویسی ہی مخلوق ہیں جیسی انسان۔ قرآن کی آیت ہے کہ جانوروں کی ہر نوع ویسی ہی امت ہے جیسے انسان ایک امت ہے اور ہمارے پاس ہر ایک کا رجسٹر ہے۔ خلاصہ ترجمہ آیت 37 سورہ الانعام ۔ذی حس، ذی شعور مخلوقِ انسان کے آگے بے بس ہے اور انسان اس بے بسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، جنگل میں گھس کر بے زبانوں کی جان لیتا ہے اور ان کے سر کاٹ کر ’’ٹرافی‘‘ بناتا ہے اور اخبار میں لکھواتا ہے کہ میں بہادر شکاری ہوں۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ اب ہم مشکل حالات سے نکل آئے ہیں۔ مبارک ہو۔ لیکن یہ مثبت اثرات کہاں ہیں؟ ۔ عوام کا مطالبہ بلکہ اپیل ہے کہ بھلے سے ان تک یہ مثبت اثرات پہنچائے نہ جائیں لیکن دکھا ہی دئیے جائیں۔ فی الوقت تو عوام پر جو اثرات پڑ رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ مہنگائی کی شرح 30 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

مانا کہ قصور آپکا نہیں، جانیوالوں کا ہے لیکن اب کچھ ایسا کرنا کہ عذاب کی شرح میں کمی ہو، آپ ہی کی ذمہ داری ہے، فی الحال تو جملہ مثبت اثرات صرف بالائی طبقے ہی نے سمیٹے ہیں باقی عوام کو یہ خوشخبری سنانا بالکل ویسے ہی ہے جیسے گرمی اور لو سے جھلستے میدانوں اور صحرائوں میں جہاز سے کاغذ گرا کر یہ اطلاع دینا کہ بالائی علاقوں، پامیر، کے ٹو میں برف پڑ رہی ہے، پامیر اور قراقرم میں بارش ہو رہی ہے۔

سینئر تجزیہ نگار اور کالم نویس ایاز میر پر چھ افراد نے حملہ کیا، ان پر تشدد کیا اور منہ اور دانتوں پر گھونسے مارے۔ صحافیوں پر اس طرح سے تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دو تین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں صحافی غیر محفوظ ہیں۔ حملہ سخت قابل مذمت ہے اور امید واثق ہے کہ حملہ آور حسب روایت گرفتار نہیں کئے جائیں گے۔ روایت یہی ہے کہ حملہ آوروں کا بال بھی بیکا نہ ہو اور روایت توڑنا اچھی بات نہیں۔

حملے سے ایک روز پہلے سینئر تجزیہ نگار نے اپنے ممدوح کو ’’چی گویرا‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ چی گویرا بھی تین سو کنال کے محل میں رہتا تھا، آنے جانے کے لیے پرائیویٹ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرتا تھا اور 20,20 ڈشوں والے ڈنر کیا کرتا تھا۔

Comments

Click here to post a comment