ہوم << کوئی راہ نکالی جائے - سعداللہ شاہ

کوئی راہ نکالی جائے - سعداللہ شاہ

رواں اس آنکھ سے اشکوں کا ایک دریا ہے کسی نے دل پہ تسلی کا ہاتھ رکھا ہے ستارا وار چمکنے لگی ہیں یہ آنکھیں اداس شام کے پہلو سے چاند نکلا ہے آپ ان اشعار کو موجوہ پس منظر سے بالکل نہ جوڑیے گا بلکہ چار سال قبل ضرور ایسے احساس نے دامن پکڑا تھا مگر ہماری آگ سے کندن نہ بن سکا سونا۔

ہماری آہ سے پتھر تو ایک پگھلا تھا۔پھر ایک خدشے نے انگڑائی لی میرے کے ساتھ ہی بادل بکھر نہ جائیں کہیں ۔ مگر امید پر سارا جہان بیٹھا ہے ہمارے ساتھ اچھا نہیں ہوا ہم گھبرائے نہیں مگر اس کے بعد ہوش میں آئے بھی نہیں میں یہ کوئی بجھارت نہیں ڈال رہا ہم انتظار کریں گے کسی کا سعدؔ مگرِ وقت تو اپنی ہی چال چلتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب سخن کی فضا سے نکل کر بات کی جائے کہ اب عوام کو یوں بل دیے جا رہے ہیں جیسے دھوبی کپڑوں سے پانی نچوڑنے کے لئے دیتا ہے اور پھر کپڑے کو جھاڑ کر دھوپ میں ڈال دیتا ہے بس یوں سمجھ لیں کہ بے چارے عوام پر شکنجہ کسا جا رہا ہے ایسے ہی جیسے کیکڑوں سے بلیو بلڈ لینے کے لئے انہیں الٹا کر کے شکنجے میں کس دیا جاتا ہے اور خون نچڑ کر بوتل میں آ جاتا ہے کیا کروں کیا کہوں آخر کیا لکھوں وہی جو نجیب احمد نے کہا تھا کہ: ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے.

اور کمال یہ ہے کہ یہ ظلم بھی عمران کے کاندھے پر ڈالا جا رہا ہے جناب فیڈر پیتے بچے تو نہیں تھے سب کچھ آپ کے علم میں تھا۔آپ ان معاملات پر نظر رکھتے آپ مکمل باخبر تھے اور ڈیل کر کے آ گئے کہ کپڑوں کے بعد عوام کی کھال ہم اتار کر دکھائیں گے۔ویسے بھی آپ کو اپنے مقدمات بھی تو ختم کروانا تھے مہنگائی کا تو بہانہ تھا بس آپ کو آنا تھا اور آپ کو غربت کی بجائے غریبوں کو مٹانا تھا اور اب آپ ’اپنے غموں کو روتے ہیں لے کر کسی کا نام، آپ نے سپیڈ کو ایکسیلیٹ کر دیا۔میں تنقید برائے تنقید نہیں کر رہا بلکہ حکمرانوں کو احساس دلا رہا ہوں کہ کچھ نہ کچھ عوام کے لئے کیجیے۔ ابھی صبح ہم مولانا حمید حسین کے پاس بیٹھے تھے کہ وہ ہمیشہ مثبت اور تعمیری بات کرتے ہیں۔

کہنے لگے جو بھی آتا ہے وہ بری خبر لے کر آتا ہے کبھی پٹرول بڑھ گیا تو کبھی بجلی۔فرمانے لگے کہ ایسی خبروں پر دل بیٹھ جاتا ہے اور دماغ مائوف۔اب سوچنا پڑتا ہے کہ بندہ کیا کرے کہ سب کچھ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ردعمل میں یا تو آدمی بے حس ہو جائے اور کہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھرائیں کیا، یا پھر کوئی اپنے تئیں اس کا حل نکالے۔ کہ قناعت کا ہاتھ تھام کر کچھ گنجائش پیدا کرے۔

اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے کہ یہی انسانیت ہے۔میں نے سوچا کہ واقعتاً ہمیں پاتال میں اتارا جا رہا ہے بندہ کیا کرے یونہی ایک شعر یاد آ گیا: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی وہ فرمانے لگے کہ چھوٹے پیمانے پر کچھ نہ کچھ اپنا رول ادا کرنا چاہیے خواہ وہ یہ ہو کہ آپ اپنے گھر میں پودینہ اور دھنیا ہی گملوں میں لگا لیں اپنی ضروریات کم کر لیں وہی جو کسی نے کہا تھا کہ پہلے فرائض ادا کریں یعنی جو انتہائی ضروری کام ہیں انہوں نے کہا کون کہتا ہے کہ دین دنیا کی نہیں سوچتا۔ دین دنیا کو نظر انداز نہیں کرتا بلکہ دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا کا سوچو مگر دوسرے بھائی کی دنیا آسان بنائو ۔ ہمارے دوست سعید ملک رفاہی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں اور دوستوں کے لئے دسترخوان کشادہ رکھتے ہیں کہنے لگے کہ یہ جو روٹی اور نان پر سبسڈی جاری ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں روٹی دس کی اور نان پندرہ کا طے پایا ہے اگر اس کے ساتھ کوئی سبزی یا دال کا اضافہ کر دیا جائے تو سفید پوشوں کا بھرم رکھا جا سکتا ہے۔ایسا ہمارے ایک صاحب کرتے رہے ہیں کہ دال پکا کر دس روپے پلیٹ مہیا کرتے رہے ہیں۔لیکن بات پھر وہی آتی ہے کہ مچھلی نہ دو مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتا دو۔

خان صاحب نے بھی طعام گاہیں بنائیں اور آرام گاہیں اب یہ حکومت بھی کچھ اسی طرح کا سوچ رہی ہے کہ جیسے سستی روٹی میں اربوں روپے جھونک دیے گئے ہے کہ نان بائی بھی اسی معاشرے سے ہیں۔حکومت کو کچھ نہ کچھ تو کر کے دکھانا پڑے گا وگرنہ گھر جانا پڑے گا ۔ بابر اعوان خوشخبری دیتے ہیں ۔ لطف کی بات یہ کہ عمران خاں صاحب خود ہی اپنے رستے میں رکاوٹ ہیں ابھی ضمنی انتخاب جو کہ نہایت اہم ہیں پر خان صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے امیدواروں کو بغیر نمبر کے فون آ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ لیں اس پر پی ٹی آئی کے اچھے امیدوار بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اس تقریر کی کیا ضرورت تھی اس قسم کی بات سے ان کے امیدواروں پر بہت ہی منفی اثر پڑے گا ہو سکتا ہے.

خان صاحب سوچھ سمجھ کر ہی یہ کہا ہو ۔ ظاہر ہے انہیں خبر ہے کہ ن لیگ الیکشن لڑنا جانتی ہیے اور پھر ان کے پاس اس وقت وسائل بھی ہیں اور دوسروں کو نوازنے کی پوزیشن بھی عوام کو مگر ان چیزوں سے سروکار نہیں وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ چند دنوں میں انڈے 180روپے سے 200 روپے درجن ہو گئے اور سردیوں میں 400 روپے تک جائیں گے۔دل تو سب کا چاہتا ہے کہ کسی طریقے سے حکومت اور اپوزیشن مل کر دوسری طاقتوں یعنی سٹیک ہولڈرز کو ملا کر آئی ایم ایف سے چھٹکارے کا سوچے ۔ دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا

Comments

Click here to post a comment