ہوم << کیا یہ اُردو سے محبت نہیں؟ گل نوخیز اختر

کیا یہ اُردو سے محبت نہیں؟ گل نوخیز اختر

m-bathak.com-1421246521ghule-nokhez-akhter
اکثر قارئین مجھے اہم مسائل پر ای میلز بھیجتے رہتے ہیں جنہیں میں وقتاً فوقتاً اپنے کالم میں شامل بھی کرلیتا ہوں۔ یہ تین ای میلز مجھے مختلف اوقات میں موصول ہوئی تھیں، تینوں چونکہ ایک ہی مسئلے پر ہیں لہٰذا میں نے انہیں save کر لیا تھا۔ ان ای میلز میں اُردو کی زوبوں حالی کا نوحہ پڑھا گیا ہے۔ میرے یہ تینوں قاری چاہتے ہیں کہ میں کوئی ایسی مہم چلاؤں جس کے بعد سرکاری اور غیر سرکاری زبان اردو ہوجائے۔ ملاحظہ فرمائیے تینوں ای میلز۔۔۔!!!
پہلی ای میل:
’’میں آپ کے قالم بڑے شوک سے پڑھتا ہوں، آپ سے غزارش ہے کہ اردو کے حک میں بھی کوئی قالم لکھیں، اردو ہماری کومی زبان ہے لیکن یہاں جو ہال اردو کا کیا جارہا ہے وہ ناکابل بیان ہے۔ساری سرقاری خت و کطابت انگریزی میں ہوتی ہے، عام لوگ بھی انگریزی بولنے میں فخر محصوص کرتے ہیں، اگر یہی ہالات رہے تو اردو کا کیا بنے گا؟اب تو نئے دور کے بچے بھی اردو سے ناواکف ہوتے جارہے ہیں، خدارا! اُردو کو بچانے کے لیے اپنا قردار ادا کریں تاکہ ہماری کومی زبان مہفوض رہ سکے۔ اس سلسلے میں اگر میری خدمات درقار ہوں تو میں ہر وقت حاظر ہوں کیونکہ میری دلی خواہش ہے کہ حماری زبان اردو پھلے پھولے۔میں نے ا س مقسد کے لیے ایک تنظیم ’’عنجمن اردو پھیلاؤ‘‘ بنائی ہے ، اگر آپ چاہئیں تو اس کے رقن بن کر اردو کی خدمت کا فریزا سرانجام دے سکتے ہیں۔
دوسری ای میل:
sir hakomat nay urdu zubn ky faroog kay liay kuch nahi kia , ajkal har bandh roman urdu ka dewana ho gya hai, kia hamrai zuban ki koi ehmiat nahi, pls urdu kay faroog kay liay apna kirdar ada karain take is meethi zuban ko dunya bhar main phailaya ja sakay . shukria
تیسری ای میل:
گل نخیز صاحب!اللہ آپ کو زندگی دئے‘ آپ ہر وقت مزاحیہ انداز میں معاشریے کی اصلا ح کرتا ہے۔۔۔آپ سے التماس ہے کہ تم کبھی کوئی ایسا کالم بھی لکھو جس میں لوگو ں کو بتائیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے، ہمیں چاہے کہ ہم اردو بولو۔یقین کرو اردو کا تو یہ حال ہوگیاہے کہ اب تو جو لوگ ٹھوٹھی پھوٹی اردو لکھتے یا بولتے ہیں ان کو بھی دیکھ کر ہنسی آتی ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے۔کاش ہم اپنی زبان سے اتنے غافل نہ ہو تودنیا بھر میں ہماری زبان کی دھوم ہوں گی!!!
ایک چوتھی ای میل بھی ہے لیکن یہ اتنی گاڑھی انگریزی میں لکھی ہوئی ہے کہ مجھے شک ہے اس کے اندر کچھ گالیاں بھی پوشیدہ ہیں، تاہم مطمح نظر یہ ہے کہ ہمیں انگریزی کلچر اور زبان سے نجات حاصل کرنی چاہیے اور اُردو کا علم بلند کرنا چاہیے۔بھائیو! میں تو پہلے ہی اُردو کے حق میں ہوں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اردو کے فروغ کے لیے تو دن رات کام ہورہا ہے، بلکہ ہم سے زیادہ کام تو انگریز کر رہے ہیں، انہوں نے گوگل کا اردو ورژن متعارف کرا دیا ہے، انٹرنیٹ پر بھی اردو آسانی سے لکھی جاسکتی ہے، فیس بک آدھی سے زیادہ مشرف بہ اردو ہوچکی ہے۔۔۔پھر کیوں کہا جاتا ہے کہ اردو کو فروغ نہیں دیا جارہا؟ اصل میں پاکستان میں دو زبانیں بڑی مقبول ہیں، انگریزی زبان اور مادری زبان۔آپ کسی بھی بڑی محفل میں چلے جائیں وہاں بڑے سے بڑا افسر بھی اِن دو زبانوں میں ہی گفتگو کرتا ملے گا۔اُردو رابطے کی زبان تو ہے لیکن جونہی محفل گرم ہوتی ہے، سب مادری زبان میں گفتگو شرو ع ہوجاتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک ڈنر میں کچھ ڈاکٹر حضرات شامل تھے۔ گفتگو اردو سے شروع ہوتی ہوئی کہاں تک پہنچی، نمونہ حاضر ہے!!!
پہلا ڈاکٹر: آج تو گرمی بہت ہی زیادہ رہی۔۔۔سنا ہے ٹمپریچر42 تک گیا ہے؟
دوسرا ڈاکٹر: You are right۔۔۔سبی میں تو اس سے بھی زیادہ گرمی پڑی ہے۔۔۔!!!
تیسرا ڈاکٹر: And what about larkana
پہلا ڈاکٹر: (قہقہہ لگا کر) تینوں تے لاڑکانے دی پئی رہندی اے۔۔۔!!!
دوسرا ڈاکٹر:آہو بھئی ۔۔۔ایدھا سسرال جو اوتھے ہویا۔۔۔!!!
تیسرا ڈاکٹر:تاں ای تے میں سسرال نئیں جاندا۔۔۔سسرال ہونا چاہیدا اے مری وچ۔۔۔!!!
اس ساری گفتگو کے دوران ایک موقع ایسا آیا جب اردو کے فروغ کی بات چھڑی، یہ چونکہ میرے مطلب کی بات تھی لہٰذا میں نے بھی جلدی سے حصہ ڈالتے ہوئے کہا’’آخر ہم لوگ اردو بولنے میں کیوں ہچکچاتے ہیں؟‘‘ایک ڈاکٹر صاحب بولے’’اصل میں اردو بولتے ہوئے بندہ بڑا ڈیسنٹ سا لگتاہے، فرینکنس کا ماحول نہیں بن پاتا‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا’’آپ کا مطلب ہے کہ اردو سپیکنگ لوگ آپس میں بے تکلفی سے بات نہیں کر سکتے؟‘‘ڈاکٹر صاحب تلملا اٹھے’’نہیں یار! یہ ان کی مادری زبان ہے لہٰذا انہیں کوئی پرابلم نہیں ہوتا‘ اصل مسئلہ ان کے لیے ہوتاہے جن کی مادری زبان کوئی اور ہے اور گفتگو وہ اردو میں کرتے ہیں‘‘۔ یہاں مجھے وہ بات یاد گئی کہ انسان ہمیشہ خواب اپنی مادری زبان میں ہی دیکھتاہے لیکن میں حیران ہوں کہ مجھے پنجابی میں خواب کیوں نہیں آتے، میں نے تو جب بھی خواب میں کسی خاتون کو دیکھا،وہ آگے سے یہی کہتی نظر آئی ’’آپ کو شرم نہیں آتی ایسا خواب دیکھتے ہوئے‘‘۔
مجھے تو لگتاہے میں نے اردو کے لیے سب کچھ قربان کر دیا ہے، میں پنجابی ہوں لیکن میرے بچے پنجابی نہیں اردو بولتے ہیں، میرا لکھنے لکھانے کا سارا سفر اردو میں ہے، میں گھر میں بھی زیادہ تر اردو میں بات چیت کرتاہوں، جہاں کسی فارم پر زبان کا خانہ نظر آتا ہے میں وہاں ’اردو‘ لکھتا ہوں۔اردو نے ہی مجھے زندہ رکھا ہوا ہے، اردو ہی میرے گھرکاخرچہ چلا رہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ میری آئندہ آنے والی نسلیں اردو اور انگریزی ہی بولیں گی۔ میرے اردو تلفظ میں پنجابی کا تڑکا ہے لیکن یہ میرے علاقے کی مجبوری ہے۔مجھے پنجابی سے بھی عشق ہے لیکن اردو میری پنجابی پر حاوی ہوچکی ہے۔ ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں، غول کے غول ایسے لوگوں کے بھرے ہوئے ہیں جنہوں نے اردو کے لیے اپنی مادری زبان کی قربانی دے دی ہے۔کیا یہ اردو سے محبت نہیں؟

Comments

Click here to post a comment