ڈیرہ غازی خان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب میاں بلیغ الرحمن نے کہا کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں، مگر ہم نے 100 دن کا وقت نہیں دیا، نئے صوبوں کے لئے دو تہائی اکثریت ملتے ہی آئینی ترمیم کریں گے۔
لیکن گورنر صاحب تھوڑا پیچھے جائیں تو (ن) لیگ نے بھی وسیب سے یہی کچھ کیا جو کہ تحریک انصاف نے کیا۔ 2013ء کے الیکشن کا (ن) لیگ کا منشور اٹھا کر دیکھیں، اس میں (ن) لیگ نے دو صوبوں کا وعدہ کیا، اسی منشور پر الیکشن لڑا اور پنجاب ، وفاق میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے مرکز اور صوبے میں حکومتیں بنائیں۔ میاں بلیغ الرحمن بھی اس وقت کابینہ کا حصہ تھے مگر دو تو کیا ایک صوبہ بھی نہ بن سکا، اگر (ن) لیگ چاہتی تو صوبہ بنا سکتی تھی کہ اسے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس وقت خود میاں بلیغ الرحمن بھی خاموش رہے۔ گورنرمیاں بلیغ الرحمن نے یہ بھی کہا کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرار داد منظور کرائی تھی ، ہم نے بہاولپور صوبہ بھی بنانا ہے اور جنوبی پنجاب بھی۔
میاں بلیغ الرحمن صاحب! یہی تو سوال ہے کہ (ن) لیگ نے 2008ء کے الیکشن کے بعد پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرارداد پاس کرانے کے بعد خاموشی کیوں اختیار کر لی؟۔ یاد رہے کہ اسی قرار داد پر قومی اسمبلی نے صوبہ کمیشن بنایا جس کا (ن) لیگ نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا کہ آئندہ الیکشن میں برسراقتدار آکر ہم خود دو صوبے بنائیں گے۔ 2013ء کا آئندہ کے الیکشن میں(ن) لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے باوجود صوبہ بنانے کا نام تک نہ لیا۔ انہی دنوں سوال پیدا ہوا تھا کہ (ن) لیگ نے پنجاب اسمبلی سے دو صوبوں کی قرار داد صوبہ بنانے کیلئے نہیں بلکہ صوبے کا راستہ روکنے کیلئے منظور کی ہے کہ موجودہ وفاقی سیٹ اپ میں دو صوبے بنانا اس لئے ممکن نہیںکہ سینیٹ میں موجودہ پنجاب ٹرپل ہو جائے گا کہ دیگر صوبوں کو یہ بات کسی صورت منظور نہیں۔ تاریخی ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ایک صوبے کی ضرورت بھی ہے اور جواز بھی۔
یہ بات میاں بلیغ الرحمن و دیگر بڑے بڑے سیاستدان تو کیا ایک عام آدمی کو بھی سمجھ آتی ہے۔عجب بات ہے کہ میاں بلیغ الرحمن جس صوبے کے گورنر ہیں اس صوبے سے دو صوبے مانگ رہے ہیں تو میاں صاحب! صوبہ لینا ہے تو گورنری چھوڑکر صوبہ تحریک میں شمولیت اختیار کریں۔ بہاولپور صوبہ تحریک اور بعد ازاں سرائیکی صوبہ تحریک میاں بلیغ الرحمن کے بزرگوں نے شروع کی، سیٹھ عبید الرحمن اس کے روح رواں تھے۔ گورنر نے کہا ہے کہ پاکستان کے لئے ریاست بہاولپور کی عظیم خدمات ہیں اور حکومت پاکستان نے بہاولپور کو صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ اچھی بات ہے کہ میاں بلیغ الرحمن نے یہ نہیں کہا کہ بہاولپور صوبہ تھا، جبکہ محمد علی درانی اور دیگر لوگوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ بہاولپور صوبہ تھا اس کی بحالی چاہئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور ریاست تھی ، صوبہ نہیں تھا۔ قیام پاکستان سے لے کر ون یونٹ کے قیام تک نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اختیارات استعمال کئے ، اس دوران 1952ء میں ریاست بہاولپور نے ایک عبوری ایکٹ منظور کیا، اس میں بھی لفظ صوبہ نہیں ریاست استعمال ہوا اور ریاست کا سربراہ نواب آف بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی کو لکھا گیا ، عبوری ایکٹ کے نتیجے میں ریاست کی اسمبلی وجود میں آئی اور ریاستی اسمبلی پر مشتمل جو کابینہ بنائی گئی. اُس میں مخدومزادہ حسن محمود وزیر اعظم بنے ، وزیر اعلیٰ یا گورنر کوئی نہیں تھا ،اگر صوبہ ہوتا تو اس کاگورنر ہوتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ بہاولپور صوبہ مغربی پاکستان کا حصہ بنا تھا نہ کہ صوبہ پنجاب کا ، جب ون یونٹ ختم ہواتو بہاولپور کو نا جائز طور پر پنجاب کا حصہ بنایا گیا جس کے رِ دعمل میں تحریک چلی ، مگر حکمرانوں نے اس تحریک کو طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا ، جس کے ردِ عمل میں بہاولپور صوبہ تحریک کے اکابرین نے بہاولپور تحریک کوصوبہ تحریک میں تبدیل کیا ، بہاولپور کے سیٹھ عبید الرحمان اور ریاض ہاشمی نے سرائیکی صوبہ تحریک کی بنیاد رکھی اور اس کا دائرہ ملتان ،ڈی جی خان ، ڈی آئی خان، جھنگ اور میانوالی تک بڑھایا۔
1972ء سے 2010ء تک سرائیکی صوبہ کی تحریک چلتی رہی اس دوران انتخابات بھی ہوتے رہے کسی نے بہاولپور صوبے کا نہ نام لیا اور نہ ہی بہاولپور صوبے کے نام پر الیکشن لڑا ، البتہ سرائیکی صوبے کے نام پر امیدوار الیکشن میں حصہ بھی لیتے رہے اور تحریک بھی زور و شور سے چلتی رہی، تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے محمد علی درانی وارد ہوئے اور ایک بار پھر بہاولپور صوبے کانعرہ لگایا ،اُن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اُن کو ایجنڈا دے کر بہاولپور بھیجا گیا تھا۔ گورنر میاں بلیغ الرحمن اور ان کے خاندان کا بہاولپور میں ایک مقام ہے، ان کے بزرگوں کی وسیب اور سرائیکی زبان و ادب کیلئے بہت خدمات ہیں، ان کے بزرگ میاں حفیظ الرحمن نے قرآن مجید کا پہلا سرائیکی ترجمہ کیا اور اسے اہتمام کے ساتھ شائع کرایا۔
ان کے دوسرے بزرگ مولانا عزیز الرحمن نے خواجہ فریدؒ کے دیوان کا ترجمہ اور شرح لکھی اور اسے قیام پاکستان سے قبل 1944ء میں ریاست بہاولپور کی طرف سے شائع کرایا۔ اسی خاندان کی سرائیکی لائبریری کا بہت نام او رمقام ہے۔ وسیب کی شناخت کو مسخ کرنا، اور دو صوبوں کے نام پر تفریق پیدا کرنا کسی اور کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے مگر وسیب کا مطالبہ ہرگز نہیں ۔
میاں بلیغ الرحمن اگر وسیب کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تو ان کو کم از کم وسیب کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کریں کہ سینیٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ ایک صوبے کا بل پاس کیا ہوا ہے ، اب اسی بل کو قومی اسمبلی سے منظور کراکر صوبہ بنانے کی ضرورت ہے کہ اب (ن) لیگ ، پیپلز پارٹی سمیت 11 سیاسی جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔
تبصرہ لکھیے