اقوام متحدہ کے مطابق روس یوکرین تنازعے سے دنیا میں گھروں سے بے دخل کیے جانے والے افراد کی تعداد پہلی بار 10 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔یو این ایچ سی آر کے مطابق یہ تعداد ’تشویشناک‘ ہے جس سے دنیا کو ان تنازعات کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے جن کے باعث لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ برس کے اختتام پر ایتھوپیا، برکینا فاسو، میانمار، نائجیریا، افغانستان اور کانگو میں تشدد کے واقعات کے باعث بے گھر افراد کی تعداد نو کروڑ تھی۔روس یوکرین پر حملے کے باعث 80 لاکھ یوکرینی شہری بے گھر ہوئے جبکہ 60 لاکھ افراد نے پناہ کی تلاش میں سرحد پار کی۔دس کروڑ کی تعداد دنیا کی کل آبادی کے ایک فیصد سے زیادہ بنتی ہے جبکہ دنیا میں اس وقت صرف 13 ملک ایسے ہیں جن کی آبادی دس کروڑ سے زائد ہے۔ اس تعداد میں مہاجرین، پناہ گزین، اور پانچ کروڑ ایسے افراد شامل ہیں جو اپنے ہی ملکوں میں بے گھر ہوئے۔
دنیا کے بہت سارے ممالک میں بڑھتے جنگی حالات،دہشت گردی، کشیدگی، سیاسی بحران، نسلی امتیاز نیز قدتی آفات کے باعث روز بروز بڑھتی مہاجروں اور پناہ گزینوں کی تعدا د کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ ہر سال 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کے طور پر مناتاہے۔ جس کا مقصد اس دن دنیا بھر میں ان لاکھوں، کروڑوں پناہ گزینوں کی بے پناہی کی جانب توجہ مبذول دلانا ہے، جو اپنا ملک بحالت مجبوری چھوڑنے اور در در بھٹکنے پر مجبور ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنگ اور ظلم و ستم کی وجہ سے ہر ایک منٹ میں 24 افراد گھر سے بے گھر ہو رہے رہیں۔ دنیا کے دو کروڑ دس لاکھ پناہ گزینوں کا تعلق تین ممالک شام، افغانستان اور صومالیہ سے ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بے پناہی کے شکار ہیں۔ ان اعداد و شمار سے پناہ گزینوں کی دشواریوں اور ان کی بے بسی اور بے پناہی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہر شخص کوخواہ وہ کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، اسے اپنے وطن سے فطری طور پرمحبت، وابستگی، والہانہ لگاو اور جذباتی رشتہ ہوتا ہے۔ وطن کی اہمیت اور اس سے انسیت کا اندازہ وطن سے دور جانے یا ہو جانے کے بعد ہوتا ہے۔ اپنی خوشی سے کوئی بھی فرد اپنا وطن نہیں چھوڑتا۔ کچھ تو مجبوریاں ہوتی ہونگی، یوں ہی کوئی،اپنے وطن سے بے وفا نہیں ہوتا۔ ایسے نا گزیر اورگفتہ بہ حالات بن جاتے ہیں کہ لوگ آنکھوں میں آنسو اور دل پر پتھر رکھ کر ہجرت کرنے پرخود کو مجبور پاتا ہے۔ عالمی سطح پر نقل مکانی پر مجبور ان بے گھر انسانوں کی تعداد کا یہ ایک نیا لیکن برا عالمی ریکارڈ ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے کہ انسانوں کو انسانوں ہی کے پیدا کردہ بحرانوں کے باعث کس کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے 'گلوبل ٹرینڈز‘ یا 'عالمی رجحانات‘ کے عنوان سے جاری کی جانے والی اس تازہ ترین سالانہ رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں اتنے زیادہ انسان جنگوں اور بحرانوں کی وجہ سے بے گھر ہیں کہ اگر وہ سب کسی ایک ملک میں رہ رہے ہوتے، تو وہ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 20 واں سب سے بڑا ملک ہوتا۔سب سے بد تر حالت روہنگیائی مسلمانوں کی ہے، جنھوں نے کبھی اس ملک برماپر ساڑھے تین صدی تک حکومت کی تھی لیکن جب 1784 ء میں برطانیہ نے مسلمانوں کے تسلط والے اس ملک پر اپنا قبضہ جمالیا تو یہاں کے مسلمانوں کو کمزور اور بے وقعت کرنے کے لیے یہاں بھی Divide and Rule کی پالیسی اپناتے ہوئے یہاں کے بدھسٹوں کے اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بودیا گیا۔ جس سے یہاں ظلم و بربریت کی کھیتی پوری لہلہا اٹھی۔
1949 ء میں چودہ فوجی آپریشن ہوئے، جس میں بیس ہزار سے زائد مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں ایسے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہونے والے خرچ کی ذمّہ داری UNHCR اور دیگر این جی اوز نے لے رکھی ہے۔ ان کے علاوہ کئی لاکھ لوگ جو کسی وجہ کر ہجرت نہیں کر سکے وہ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن کر مختلف کیمپوں میں تمام تر بنیادی سہولیات کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز اور وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے، جس کے باعث وہ اپناملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران مہاجرین کی جو تعداد تھی، اس وقت یہ تعداد بھی تجاوز کر چکی ہے اور عالمی مسئلہ بن چکا ہے لیکن افسوس کہ اس بہت اہم مسئلہ کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرانڈی نے کہا کہ پناہ کے متلاشی افراد میں اضافے کا یہ رجحان اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک عالمی برادری تنازعات کو حل کرنے اور حل تلاش کرنے کی سمت میں اہم اقدامات نہیں کرتی۔گرانڈی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہاجرین کے بحران کے حوالے سے یورپی یونین کا رد عمل ''غیر مساوی'' رہا ہے۔ ان کے مطابق یوکرین کے پناہ گزینوں کا جس انداز اور سخاوت کے ساتھ استقبال ہوا ہے وہ دوسرے ممالک کے پناہ گزینوں کے ساتھ نہیں ہوا اور پناہ کے متلاشی ایسے تمام افراد کے لیے اسی طرح سے رقم فراہم کی جانی چاہیے۔انہوں نے کہا، یقینی طور پر یہ ایک اہم نکتہ ثابت کرتا ہے امیر ممالک کے ساحلوں یا سرحدوں پر غریب ممالک کے پناہ گزینوں کی آمد پر جو رد عمل ہوتا ہے اور جس طرح اس پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ کوئی غیر منظم بات نہیں ہے۔
جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایندھن کی قیمتوں میں اضافے، موسمیاتی بحرانوں اور تشدد سے بچنے کے لیے افریقہ کے ساحلی علاقوں سے فرار ہو رہے ہیں۔ یہ بے گھر لوگ بحران سے بچنے کے لیے شمالی یورپ کا رخ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ خطہ پہلے ہی برسوں کی خشک سالی اور سیلاب جیسی نا آگہانی آفتوں کی لپیٹ میں ہے اور اسے آمدنی میں عدم مساوات، صحت عامہ کے سنگین مسائل سمیت بدترین حکمرانی کا سامنا رہا ہے اوراب غذائی تحفظ کے بڑھتے ہوئے بحران نے یہاں کے باشندوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تبصرہ لکھیے