ہوم << پھر تم کبھی حُسَینؓ کا انکار دیکھنا۔ حماد یونس

پھر تم کبھی حُسَینؓ کا انکار دیکھنا۔ حماد یونس

سید منور حسن پانچ اگست انیس سو اکتالیس کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا تعلق سادات کے گھرانے اور دہلی کے ایک ذی شرف ، اہلِ علم خاندان سے تھا۔ والدہ، دہلی مسلم لیگ حلقہ خواتین کی سربراہ تھیں۔
انیس سو سینتالیس میں ہجرت کے بعد شدید مصائب میں ابتدائی برس گزارے ، یہاں تک کہ ایک کمرے میں پورے گھر کو آباد رہنا پڑا ۔
ایسے حالات میں بچپن یا ابتدائی عمر گزارنے والے عموماً دنیا کے متوالے ہو جاتے ہیں ، مگر اس سید زادے نے اعلیٰ تعلیم ، بہترین صلاحیت ، رتبہ ، جاہ و جلال کے باوجود فقر کو میراث جانا اور انیس سو اٹھاسی سے دو ہزار تیرہ تک اسی طرح منصورہ مہمان خانے کے ایک کمرے میں زندگی بسر کرتے رہے ۔
سید منور حسن ، جیسی حیران کن خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے ، ان کے زیرِ سایہ آگے بڑھنا اور بلند مقام پر پہنچنا ایک لازمی امر تھا ۔ لہذا انیس سو انسٹھ (1959) ، فقط اٹھارہ برس کی عمر میں سرخوں کی طلبہ تنظیم ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کل پاکستان سطح پر صدر منتخب ہوئے ۔ کارل مارکس ، لینن ، ماؤزے تنگ وغیرہم کے حوالوں سے مزیّن مدلل ترین تقاریر کرنا اور دلوں کو مسخر کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
وہ الگ بات ہے کہ سیدی ، سید ابو الاعلیٰ مودودی رح کی تحریروں اور اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی دعوت نے بالآخر یہ مضبوط ترین قلعہ تسخیر کیا، اور بائیں بازو کے اس پائے چوبیں کو سختِ بے تمکیں بنا ڈالا۔ انیس سو باسٹھ میں رکنِ جمعیت بنے ، تریسنٹھ میں ناظمِ کراچی مقام، انیس سو چونسٹھ میں ناظمِ اعلٰی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان منتخب ہوئے ۔ یعنی فقط پانچ سال کی مدت میں اس لٹریچر اور دعوۃ اِلی اللہ نے ایک انتہا سے دوسری انتہا پر پہنچا دیا ۔ انیس سو سڑسٹھ تک ناظمِ اعلٰی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کی ذمہ داری نبھائی ، اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد جمعیت سے فراغت حاصل کی تو ساتھ ہی جماعتِ اسلامی کی رکنیت اختیار کر لی ۔ مولانا مودودی رح اس گوہرِ نایاب کو خوب پہچانتے تھے ، لہٰذا ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کی ذمہ داری عطا ہوئی۔ (پچیس چھبیس برس کی عمر میں)
اور ساتھ ہی ساتھ قیم جماعت اسلامی کراچی ۔ اس وقت امیرِ جماعت اسلامی کراچی چوہدری غلام محمد رح تھے ۔
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے ۔
سید منور حسن اپنے عہد کے سب سے بہتر اور شستہ اردو/ انگریزی زبان کے مقرر اور خطیب تھے ۔ نظامِ مصطفیٰ تحریک کے ایک اجتماع میں آپ نے تقریر فرمائی تو نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم ، جو خود چوٹی کے مقرر اور سخن شناس تھے ، چونک اٹھے اور بے ساختہ پکار اٹھے ۔
"جماعت نے یہ ہیرہ کہاں چھپا رکھا تھا؟"
سید منور حسن انیس سو ستتر(1977) کے الیکشن میں پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی جانب سے ایک امیدوار بنے اور ڈرگ کالونی (موجودہ شاہ فیصل کالونی) کے گردونواح سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی اور رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔
پھر ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا ، جسے آپ نے اطاعتِ نظم کے تحت وقتی طور پر قبول تو کیا مگر آپ اس سے خوش نہ تھے ، لہذا ریفرینڈم میں ضیاء الحق کو ووٹ نہیں دیا ۔
انیس سو اٹھاسی میں قاضی حسین احمد رح امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے اور جناب اسلم سلیمی صاحب قیمِ جماعت ۔
سید منور حسن صاحب کو نائب قیم مقرر کیا گیا تو آپ لاہور میں آباد ہو گئے ۔ انیس سو ترانوے میں آپ کو قیم (یعنی مرکزی سیکرٹری جنرل) مقرر کیا گیا ۔ انیس سو ترانوے سے دو ہزار آٹھ/نو تک قیم جماعت کے عہدے پر فائز رہے اور مثالی ترین معتمد کا کردار ادا کیا ۔ اس دوران قید و بند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کیا ۔
افغانستان و کشمیر کے جہاد کے امین و نقیب رہے ، مگر فقط باتوں سے ہی نہیں بلکہ کردار سے بھی اس کردار کو نبھایا ۔ آپ کے صاحبزادے ، برادر طلحہٰ سید ایک طویل عرصے تک جہادِ کشمیر میں شریک رہے۔
اسی کی دہائی میں ملٹری اسٹبلشمنٹ نے جی ایم سید اور اسی قبیل کے ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک عسکری لسانی جماعت قائم کی ، جس کا واحد مقصد کراچی و حیدرآباد سے جماعت اسلامی کے وجود کو ختم کرنا تھا ۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی اے پی ایم ایس سو (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کا قیام تھا ۔ ان کو اسلحہ اور عسکری تربیت آغاز میں تو جنرل ضیاء الحق کی ایماء پر محکمہ دیتا رہا ، مگر
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
بعد میں الطاف حسین، فاروق ستار، عمران فاروق ، عظیم طارق اور وسیم اختر ، مصطفیٰ کمال و دیگر نے ہر جگہ منہ مارا اور بھارت وغیرہ سے بھی اسلحہ و عسکری تربیت کے فضائل حاصل کیے ۔ اس زمانے میں کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ کراچی میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ہو ۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کراچی کے سینکڑوں افراد لا پتہ ہونے لگے اور بے شمار کارکنان شہید کر دیے گئے ۔ جنرل جیلانی کے گماشتوں نے لاہور میں ایم ایس ایف ، جبکہ الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے تحت تحریک اسلامی کا چھاجوں خون بہایا ،
ایسے میں سید منور حسن تحریک کی ایک توانا آواز تھے ، جنہوں نے ستم گر کو ہر آن پکارا اور للکارا۔
سادات اگر صراطِ سادات پر ہوں تو للکارِ حیدری عطا ہو ہی جاتی ہے ۔
کمانڈو مشرف نے ایک امریکی کال پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے شمسی ایئر بیس ، مائیں بہنیں بیٹیاں ، عزت ، عصمت ، امت ، اخوت ، حریت ، پورا پاکستان ، سب کچھ جب بش سینیئر کو پیش کر دیا تو سید منور حسن نے اسے روزِ اول سے اسلام اور پاکستان سے غداری قرار دیا۔ آپ نے غیروں کی جنگ خود پر مسلط کرنے کے نقصانات سے آگاہ کیا ۔ اور آخری دم تک آگاہ کرتے رہے ۔
بجھتے گئے ، صدائیں لگاتے گئے چراغ
آنکھیں تو کھول نیند کے ماتے ، گئے چراغ
اس پکار کی بازگشت اب اٹھارہ برس بعد سنائی دی ، جب عسکری قیادت نے اسے غیروں کی جنگ قرار دیا ۔
دو ہزار آٹھ میں قاضی حسین احمد رح کے بعد سید منور حسن رح کو ارکان جماعت نے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا۔
آپ نے گو امریکہ گو ، ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دو اور اس جیسی بے شمار جرآت مندانہ تحاریک اور کیمپینز کا آغاز کیا ۔
عالمی دہشت گرد امریکہ کی تیل کے لیے مہم جوئی کو آپ نے دہشت گردی ہی قرار دیا اور نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کی قلعی آپ ہر آن کھولتے رہے ۔ اسی اثناء میں شاہزیب خانزادہ ، افتخار احمد ، سلیم صافی ودیگر نے آپ کو اپنے موقف سے ہٹانے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے بھی ہر لحظہ اعلانِ حق کرنے کا حق ادا کِیا ۔
دو ہزار چودہ میں ضعف و بزرگی کے باعث آپ نے امارت کی ذمہ داری مزید اٹھانے سے معذرت کی تو ارکان نے محترم سراج الحق صاحب کو اگلا امیر جماعت منتخب کیا۔ سید منور حسن نے اپنا اٹیچی کیس سنبھالا ، اور پچیس برس سے منصورہ میں اپنے ایک کمرے پر مشتمل رہائش گاہ کو خیرباد کہہ کر واپس اپنے کراچی والے چار مرلہ پر مشتمل سو گز کے گھر میں واپس لوٹ گئے۔
مِرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مِرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مِرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مِری خُلوت و انجمن کا گداز
امنگیں مِری ، آرزوئیں مِری
امیدیں مری ، جستجوئیں مری
مری فطرت آئینۂ روزگار
غزالانِ افکار کا مرغزار
مِرا دل ، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر ، یقیں کا ثُبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر
مرے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے
سید منور حسن صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو واپس اپنی پہلی ذمہ داری ، ادارہ معارفِ اسلامی کراچی کی جانب لوٹ گئے اور دوبارہ تحقیق ، تجزیہ و ترسیلِ علم کی شمعوں کو روشن کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ اس مردِ حر کو رب تعالیٰ نے اپنی طرف واپس بلا لیا ۔چھبیس جون ، دو ہزار بیس کو آپ اپنے رب سے ملاقات کے شائق واپس لوٹ گئے ۔
"دل والے خود ہی لکھ لیں گے سُرخی اس افسانے کی"
آپ کا گھرانہ بھی آپ ہی کے مانند تاروں کا کارواں ہے ۔ اہلیہ محترمہ عائشہ منور صاحبہ ، قیمہ جماعت اسلامی پاکستان رہیں ، یعنی حلقہ خواتین کی کل پاکستان سطح پر سربراہ ۔ صاحبزادہ طلحہٰ سید اور صاحبزادی فاطمہ سید صاحبہ تحریک کے جواہر ہیں ۔
صاحبزادی کی شادی پر بہت سے تحائف موصول ہوئے ۔ اب سید منور حسن صاحب جیسی شخصیت کا حلقہِ احباب کُل عالم پر محیط تھا ، تحائف کا انبار تو لگنا ہی تھا ۔ مگر انھوں نے صاحبزادی سے استفسار فرمایا کہ یہ تحائف مجھے اور تمہیں موصول ہوئے ہیں یا امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن کو ؟؟؟ صاحبزادی بھی انہی کی سید زادی تھیں ، سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے عرض کی کہ امیرِ جماعت کو موصول ہوئے ہیں ۔ چنانچہ سید بادشاہ نے فرمایا کہ بس پھر یہ تحائف جماعت اسلامی پاکستان کی امانت ہیں ، اور انہیں بیت المال میں جمع کروا دیا ۔
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی!!!
اس واقعے کے عینی شاہدین میں ہمارے ذاتی بزرگ بھی شامل ہیں ۔

اب سید تو اپنا عہد نبھا کر واپس لوٹ چلے ، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عہدِ الست کو ہر آن یاد رکھیں ، اور اسے نبھانے میں کوئی فرعون ، نمرود ، کوئی دجال ، کوئی مشرف ہمارے ایمان کو متزلزل نہ کر سکے۔ اگرچہ وقت مشکل ہے ، آنے والے دنوں کی ظلمت میں ، آج کی روشنی بہت کچھ ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی اپنے سوا کسی اور کے آگے جھکنے نہ دے۔
اللھم آمین

Comments

Click here to post a comment