ہر چیز پر ٹیکس لگا ہے اب سپر ٹیکس کا تحفہ ملا ہے۔ جناب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ تمام سیکٹرز پر چار فیصد اور تیرہ مخصوص سیکٹرز پر دس فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا ہے جس کے بعد ان سیکٹرز پر ٹیکس انتیس فیصد سے انتالیس فیصد ہو جائے گا۔
یہ ٹیکس بجٹ خسارے میں کمی کے لیے ایک بار لگایا گیا ہے۔اس سے قبل وزیر اعظم نے معاشی ٹیم کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عام آدمی کو ٹیکس سے بچانے کے لیے صنعتوں پرٹیکس لگایا ہے، سیمنٹ، سٹیل، شوگر انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، ایل این جی ٹرمینل، فرٹیلائزر، بینکنگ، ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، کیمیکل، بیوریجز اور سگریٹ انڈسٹری پر بھی دس فیصد سپر ٹیکس لگے گا۔ سالانہ پندرہ کروڑ روپے سے زائد آمدن کمانے والے پرایک فیصد، بیس کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر دو فیصد، پچیس کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر تین فیصد اور تیس کروڑ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے پر چار فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔
سپر ٹیکس کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت عام آدمی کو کیسے بچائے گی۔ عمومی طور پر مل مالکان یا کسی بھی کاروبار سے منسلک افراد ٹیکس کے حوالے سے سارا بوجھ عوام پر ڈالتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال گاڑیاں بنانے والوں کی ہے۔ ان پر ٹیکس لگتا ہے وہ گاڑیاں مہنگی کرتے ہیں اور سارا بوجھ خریداروں پر ڈال دیتے ہیں۔ اگر تو حکومت یقینی بناتی ہے کہ قیمتوں پر کنٹرول رکھا جائے گا، عام آدمی پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور جن پر سپر ٹیکس لگایا گیا ہے وہ اپنا بوجھ خود اٹھاتے ہوئے اپنے منافع سے ٹیکس ادا کریں گے تو مہنگائی کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا بڑے لوگ اپنے منافع پر سمجھوتا نہیں کرتے اور خریدار پر بوجھ ڈالتے ہیں تو پھر نہ تو مہنگائی رکے گی نہ ہی عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔
اب یہاں تجربہ کار سیاستدانوں کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان ہے کیونکہ ہر چیز یا خرابی جانے والی حکومت یا ان کی معاشی بارودی سرنگوں پر تو نہیں ڈالی جا سکتی۔ انہوں نے اگر ارادتاً کہیں قیمتیں نہیں بڑھائی تھیں تو اب اس سے کئی گنا زیادہ قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مہنگائی کا سلسلہ کہاں رکتا ہے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان حالات میں یہ بھی لازم ہے کہ متحدہ حکومت پی ٹی آئی پر سارا بوجھ ڈالنے کے بجائے اپنی خامیوں پر بھی روشنی ڈالے۔
حالیہ ہفتے دالیں، گھی، آٹا، چینی، آلو، پیاز، گوشت، دودھ، دہی سمیت بتیس اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حالیہ ہفتے ملک میں مہنگائی کی شرح ایک فیصد اضافے سے 28.05 فیصد ہو چکی ہے۔ اٹھارہ جون کو مہنگائی تیئیس اعشاریہ اٹھانوے فیصد تھی۔ خبر یہ بھی ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سکیورٹی کے لیے خراب گاڑیاں دیے جانے پر دوبارہ ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کی جانب سے دائر درخواست میں پنجاب حکومت اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے سیکیورٹی کے لیے کھٹارہ گاڑیاں فراہم کی ہیں حکومت قانون کیمطابق سیکیورٹی اور ملازمین فراہم نہیں کر رہی ہے۔ ساری تحریک انصاف امریکی سازش کے بیانیے پر اور حقیقی آزادی کے لیے اپنے ووٹرز کو متحرک کر رہی ہے لیکن عثمان بزدار کو مراعات اور سیکیورٹی گاڑیوں کی فکر ہے۔ اب انہیں قانون یاد آ رہا ہے۔
کوئی پوچھ تو سکتا ہے کہ کیا انہوں نے آئین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں اگر آج وہ قانون کے مطابق مراعات اور سیکیورٹی کا تقاضا کر رہے ہیں تو آئین کے مطابق ذمہ داری کا سوال بھی تو ہو سکتا ہے۔ یہی اس ملک کی بدقسمتی ہے حکومت سے علیحدگی کے بعد سب کو آئین اور قانون یاد آتا ہے۔ ویسے ان کی درخواستوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور واقعی ضرورت مند ہیں۔ حکومت کو کم از کم ان کی پسماندگی کا ہی خیال کر لینا چاہیے۔ سابق وزیر اعلیٰ کو بھی درخواستیں دائر کرتے ہوئے کچھ خیال کرنا چاہیے۔ سیاسی مخالفت میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے یہاں تو صرف پرانی گاڑیوں کا مسئلہ ہے۔
تبصرہ لکھیے