ہوم << آلو پیاز پر نظر رکھنے والا مل گیا- عبداللہ طارق سہیل

آلو پیاز پر نظر رکھنے والا مل گیا- عبداللہ طارق سہیل

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے اتفاق رائے کیا ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات آئین کے اندر رہتے ہوئے کئے جائیں گے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ہو گا۔

ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان ایک دہشت گرد تنظیم ہے جو پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئی اور امریکی بمباریوں کی آگ کھا کھا کر اور بھی تگڑی ہوئی۔ عمران خاں کے دور حکومت میں ، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر، فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسے عام معافی د ے دی جائے اور قومی دھارے کے اندر لایا جائے لیکن اس فیصلے کی ہر سطح پر مخالفت ہوئی۔

دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات ماضی کی پالیسی کی نفی ہیں۔ اب تک اسے برداشت نہ کرنے کے اعلان ہوتے رہے۔ مذاکرات سے پسپائی کا تاثر ملتا ہے لیکن کبھی کبھی حتمی فتح کے لیے ایسی پسپائی بھی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جو پاکستان کے لیے ویسا نرم گوشہ نہیں رکھتی جیسی کہ توقع تھی۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی ہوبہو کاپی نہیں ہیں۔ سائنسی زبان میں اسے افغان طالبان کا آئسوٹوپ کہا جا سکتا ہے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو پناہ دے رکھی ہے۔ برسرزمین ان کا چلنا پھرنا پہلے سے آسان اور محفوظ ہے کیونکہ امریکی حملوں کا ڈر ختم ہو چکا ، لہٰذا مذاکرات زیادہ قابلِ عمل رستہ ہے۔

خیر یہ معاملہ حل کرنا متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے، جس کا کام اسی کو ساجھے لیکن عوامی دلچسپی بلکہ مفاد کی شے اس خبر میں کچھ اور ہے۔ یہ الفاظ پھر سے پڑھیئے کہ حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ہو گا۔

یہ ماضی سے برعکس بات ہے۔ ایسے معاملات میں پارلیمنٹ کو اب تک غیر متعلقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اب یہ متعلقہ ہی نہیں، فیصلہ کن بھی ہو گئی ہے۔ یہ ہے عوامی دلچسپی اور قومی مفاد کی اصل بات اور یہ گویا مملکت کی سمت درست ہونے کی راہ میں ایک بڑا قدم نہیں بڑی چھلانگ ہے اور اس کے لیے تعریف کسی ایک نہیں ، سب فریقوں کی ہونی چاہیے۔ سیاسی زبان میں ہمارے ہاں ایک اصطلاح ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ کی ہے۔ یعنی سبھی سٹیک ہولڈرمثبت اور درست سوچ اپنا رہے ہیں۔ یہ مقام شکر ہے اور لمحہ مسرّت بھی۔

اہم بات یہ ہے کہ درست سمت میں بڑھنے کا عمل آج سے شروع نہیں ہوا، اسے حالات کا قدرتی ارتقا کہنا چاہیے۔ ارتقا کا پہلا عمل یہ تھا کہ مارشل لا لگنے کا باب بند ہوا لیکن اسمبلیوں کی مدّت پوری کرنے کی اجازت نہ دینے کا باب کھل گیا۔ پھر یہ باب بھی بند ہوا لیکن وزرائے اعظم کو مدّت پوری کرنے سے روکنے والا در کُھلا ۔ اب یہ باب بھی بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس قابلِ تعریف عمل میں سیاسی جدوجہد کا حصہ ہے تو عسکری قیادت کی سوچ کا مثبت پہلو بھی تعریف کا حق دار ہے۔ حقیقی منزل مضبوط جمہوریت، بالادست پارلیمنٹ اور ناقابل شکست آئین کی ہے۔ اس کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔

دیوالیہ ملک بننے کا خطرہ تو بہرحال ٹل چکا ۔ اب خبر ہے کہ چینی قرضے کے 2.3 ارب ڈالر آج کل میں ملنے والے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قسط جلد مل جائے گی اور قطر فوری اور بھاری سرمایہ کاری شروع کرنے والا ہے۔ کل لکھا تھا کہ ڈالر 210 روپے کا سنگ میل عبور کر گیا، ابھی کی خبر یہ ہے کہ وہ اس سنگ میل سے پیچھے آ گیا۔ آج کیا خبر آتی ہے ، یہ دیکھتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ معیشت کی برق رفتار الٹی دوڑ کو کچھ بریکیں لگ رہی ہیں، بھڑکے ہوئے اسپِ تازی کے سفر وحشت میں ٹھہرائو آنے کے آثار ہیں۔

چار سال میں معیشت کے ساتھ وہ ہوا جس کا تصور کرنا ہی مشکل تھا۔ عمران خاں کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراف کیا کہ (ہم پر ماضی کے کل قرضوں کا 80 فیصد قرضہ لینے کا الزام غلط ہے، ہم نے محض) کل قرضہ جات کا (صرف) 78 فیصد قرض لیا۔ اتنی بھاری مالیت والی قرضوں کی یہ رقم کہاں گئی۔ اس کا ایک حصہ بالکل قسطوں کی ادائیگی پر لگا لیکن باقی کہاں گئی۔ اس معاملے کی جانچ کے لیے کوئی کمشن بنانا ضروری ہے تاکہ اس طلسماتِ ظلمات کا راز کھل سکے جو ساڑھے تین سال لگاتار سر چڑھ کر ناچتا رہا۔

پنجاب کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ عوام کو ریلیف دے کر رہیں گے۔ سوال ہے کہ صوبائی حکومت کتنا ریلیف دے سکتی ہے۔ بظاہر جواب ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ وہ گڈ گورننس دے سکتی ہے، ترقیاتی کاموں کے ذریعے سہولت د ے سکتی ہے۔ جرائم پر قابو پا سکتی ہے لیکن مہنگائی کے عذاب میں کمی نہیں لا سکتی۔ پٹرول اڑھائی سو روپے لٹر ہو اور بجلی پانچ گنا مہنگی ہو اور درآمدی ٹیکس کم کرنے کے باوجود گھی کی قیمت میں ایک روپے کی کمی بھی نہ ہو تو کیسا ریلیف اور کہاں کا ریلیف۔

یہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزیروں پر ہے کہ عوام کی رحم کی اپیل کب سنتے ہیں۔ تیل پر سب سڈی ختم ہو گئی اور ریٹ عالمی منڈی کے برابر ہو گئے۔ منتظر ہیں کہ یہاں بھی ریٹ کم ہوں۔ گھی سستا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس کا وفا ہونا ابھی باقی ہے۔ کاغذ دو گنا مہنگا کیوں ہوا، اس پر بھی حمود الرحمن جیسا کمشن بنانے کی ضرورت ہے۔

پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 27 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرے گی۔ اس نے اپنے امیدوار بٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی رپورٹیں ہیں کہ وہ ان میں سے 18 سیٹوں پر جیت جائے گی۔ پی ٹی آئی کہتی ہے مسلم لیگ کو 18 سیٹیں دلوائی جائیں گی۔ یعنی دونوں کا اتفاق رائے کم سے کم اس بات پر ہے کہ لیگ 18 سیٹیں حاصل کر لے گی۔

پی ٹی آئی یہ کھل کر نہیں بتا رہی کہ کون ہے جو لیگ کو 18 سیٹیں جتوائے گا۔ کیا ضمنی الیکشن میں بھی 2018ء کی طرح آر ٹی سسٹم بٹھایا جائے گا؟۔ نہیں تو پھر کیا طلسم کاری ہو گی۔ پی ٹی آئی یہ بات اس لیے نہیں بتا رہی کہ خود اسے بھی نہیں پتہ۔ اسے صرف اتنا پتہ ہے کہ مسلم لیگ 18 سیٹیں جیت جائے گی اور یہ پتہ وہ پتہ ہے جس کا مسلم لیگ کو بھی پتہ ہے۔ گویا ’’خبر‘‘ کی حد تک دونوں متفق ہیں، ’’ہم پتہ‘‘ رکھیں۔

باقی دو سیٹیں کون جیتے گا۔ ایک تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ ایک سیٹ ٹی ایل پی اور دوسری پی ٹی آئی جیتے گی۔ یعنی یہاں بھی دو جماعتیں ’’ہم پلہ‘‘ ہیں۔ چلئے، /17 جولائی اب بہت دور تو نہیں ہے۔ عمران خاں نے گزشتہ روز ایک سیمینار میں آلو پیاز کی قیمتیں بڑھنے پر اظہار تشویش کیا اور حکومت کی نااہلی کی مذمت کی۔ خاں صاحب جب اقتدار میں تھے تو آلو پیاز کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات پر کہا کرتے تھے کہ میں تو بڑے بڑے کام کرنے آیا ہوں، آلو پیاز میرا مسئلہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے موجودہ حکمران بھی ایسا ہی خیال رکھتے ہوں۔ بہرحال اقتدار سے باہر آنے کا ایک فائدہ قوم کو یہ ہوا ہے کہ انہیں آلو پیاز پر نظر رکھنے والا عظیم قائد پھر سے مل گیا ہے۔

Comments

Click here to post a comment