امین الرشید کے خلاف مامون کی زبردست کامیابی کا تمام تر سہرا اُس کے جرنیل طاہر بن حسین کے سر باندھا جانا چاہیے۔
طاہر ہرات کے قریب واقع ایک علاقے پشنگ میں پیدا ہوا تھا، جو موجودہ افغانستان میں ہے۔ میدانِ جنگ میں اس کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ذو الیمینین کہا جاتا تھا یعنی دونوں ہاتھوں میں دائیں ہاتھ کی قوت رکھنے والا۔ لیکن اُس کی ایک آنکھ نہیں تھی، جو کسی جنگ میں کام آ گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے "الاعور" یعنی کانا بھی کہا جاتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے یہ نام کس کو پسند ہو سکتا ہے؟ اس لیے طاہر کی آنکھ کا کوئی ذکر بھی کرے تو اسے بہت بُرا لگتا تھا۔ سمجھیں کہ یہ اُس کی insecurity تھی۔
بہرحال، خلافت پانے کے امین الرشید نے خراسان پر گرفت حاصل کے لیے جتنے بھی لشکر بھیجے ، سب کا خاتمہ طاہر بن حسین نے کیا۔
کہا جاتا ہے کہ جب مشہور سپہ سالار علی بن عیسیٰ کو ایک عظیم لشکر کے ساتھ خراسان بھیجا جا رہا تھا تو ملکہ زبیدہ نے اُسے چاندی کی ایک زنجیر دی تھی کہ مامون کو اِس میں جکڑ کر لانا۔ مامون کو کیا خاک پکڑتا؟ علی بن عیسیٰ جنگ میں اپنی جان بھی نہ بچا سکا اور مارا گیا۔ یہ جولائی 811ء میں رے کے مقام پر لڑی گئی جنگ تھی جس میں طاہر کی زیرِ قیادت خراسانیوں نے ایک شاندار فتح حاصل کی۔
ذو الیمینین
اِس جنگ کے آغاز پر علی بن عیسیٰ کے لشکر سے حاتم نامی ایک زبردست جنگجو مقابلے کے لیے نکلا۔ طاہر بن حسین کے جوش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے خود میدان میں اتر گیا اور دونوں ہاتھوں میں موجود تلواروں سے ایک ہی ضرب میں اُس کا خاتمہ کر دیا۔ اسی وجہ سے اسے "ذو الیمینین" کا خطاب ملا۔
بعد ازاں، جنگ میں علی بن عیسیٰ بھی مارا گیا۔ پھر طاہر نے قدم آگے بڑھائے اور ہمدان کے مقام پر ایک اور جنگ میں 20 ہزار کے لشکر کو بھی زیر کر لیا۔ قزوین میں اُس نے عبد الرحمٰن ابن جبالہ جیسے سپہ سالار کو دوسری اور فیصلہ کُن شکست دی۔ ہار سے دل برداشتہ عبد الرحمٰن نے فیصلہ کیا کہ وہ مرتے دم تک میدان سے واپس نہیں جائے گا کیونکہ وہ شکست خوردہ چہرہ لے کر امین الرشید کے سامنے نہیں جانا چاہتا۔
بہرحال، امین الرشید کے دو بڑے سپہ سالار اِن جنگوں میں کام آئے اور عرب حلقوں میں بھی اس کی ساکھ کو بہت ٹھیس پہنچی۔ اشرافیہ بہت تیزی سے امین کے ارد گرد سے چھٹنے لگی اور اتنی ہی رفتار سے طاہر کے لشکر میں اضافہ ہونے لگا۔
جلد ہی طاہر خوزستان سے بڑھتے ہوئے کوفہ اور مدائن میں تھا اور بالآخر بغداد کے دروازوں تک آ پہنچا۔ اِس دوران مامون کے حامی موصل، مصر اور سرزمینِ حجاز کا کنٹرول بھی حاصل کر چکے تھے بلکہ حرمین میں مامون ہی کے نام کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔
فاتح بغداد
طاہر نے بغداد کو فتح کرنے کے لیے ہر طریقہ آزمایا اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بغداد ایسا برباد ہوا کہ پھر دوبارہ کبھی اُس کی پرانی رونقیں بحال نہیں ہو سکیں۔ طاہر کی افواج نے شہر پر بڑی بے رحمی سے حملے کیے، منجنیقوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس سے شہر کا بہت بڑا حصہ بُری طرح تباہ ہوا۔ بغداد کے کچھ علاقے تو ایسے برباد ہوئے کہ دوبارہ پھر کبھی آباد نہ ہو سکے۔
محاصرہ بغداد ایک سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ ستمبر 812ء میں طاہر کی افواج شہر میں داخل ہو گئیں، امین الرشید کو قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش سرِ عام لٹکا دی گئی۔ اِس کی امید تو نہیں کی جا سکتی تھی، لیکن یہ بادشاہت ہے جناب! اس میں اقتدار کے لیے حکمران کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔
بہرحال، اب طاہر بن حسین پوری اسلامی دنیا کی دوسری سب سے طاقتور شخصیت تھا۔ اُس کے شایانِ شان تھا کہ اسے خراسان کے والی جیسا کوئی بڑا عہدہ دیا جائے، جو اسے ملا بھی لیکن تب جب مامون خود بغداد آیا۔ تو مامون خود کہاں تھا؟
اور مرو دار الخلافت بن گیا
دراصل مامون اِن تمام ہنگاموں سے ہزاروں کلومیٹرز دُور اپنے شہر مرو میں تھا بلکہ وہ اگلے کئی سالوں تک شہر سے نکلا ہی نہیں۔ یعنی وسطِ ایشیا کا شہر مرو پوری اسلامی دنیا کا دار الحکومت بن گیا۔ مرو کو یہ اعزاز تقریباً چھ سال تک حاصل رہا، یہاں تک کہ 819ء میں مامون الرشید نے بغداد منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن اس اہم فیصلے سے پہلے وسطِ ایشیا میں بڑے اہم واقعات پیش آئے۔ مرو میں قیام کے دوران مامون الرشید نے عباسی خاندان کے کئی افراد کو اپنے پاس طلب کیا۔ کئی ماہ کی کوشش کے باوجود مامون کو اُن میں کوئی ایسا با صلاحیت فرد نہیں ملا، جسے وہ اپنا جانشین مقرر کرتا۔ یہاں تک کہ 817ء میں مامون نے اہلِ تشیع کے آٹھویں امام علی رضا بن موسیٰ کاظم کو اپنا جانشیں بنانے کا اعلان کر دیا اور انہیں اپنا داماد بھی بنا لیا۔ یہی نہیں بلکہ مامون نے عباسیوں کا مقبول کالے رنگ کا لباس بھی ترک کر دیا اور علویوں کی طرح سبز لباس پہننے کا حکم دے دیا۔
امام علی رضا کو جانشیں بنانا اور اِس پر سب سے بیعت لے لینا ایک حیران کُن فیصلہ تھا،جس کے بہت دُور رس اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔ لیکن بعد میں جو واقعات پیش آئے، اُن سے یہ فیصلہ مکمل طور پر مشکوک ہو گیا۔
بغداد منتقلی اور غیر معمولی واقعات
بالآخر سن 818ء میں مامون نے مرو سے بغداد جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سفر کے دوران راستے میں طوس کے مقام پر امام علی رضا کو کھانے میں زہر دے دیا گیا، جس سے اُن کی وفات ہو گئی۔ مامون نے امام کو اپنے والد ہارون الرشید کے ساتھ پہلو میں دفن کرنے کا حکم دیا۔
اسی سفر کے دوران مامون کا وزیر فضل بن سہل بھی مارا گیا۔ عباسی حکومت میں مامون کے وزیر فضل بن سہل اور امین کے وزیر فضل بن ربیع کی سخت دشمنی تھی اور کہا جاتا ہے کہ اُنہی کی وجہ سے ہارون الرشید کے دونوں بیٹوں میں معاملہ جنگ تک پہنچ گیا۔
جہاں ایک طرف اہلِ تشیع امام علی رضا کی شہادت کا ذمہ دار مامون کو ٹھیراتے ہیں، وہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فضل بھی مامون ہی کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن 'المامون' کے مصنف علامہ شبلی نعمانی اِس سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مامون کے خاندان میں ایسے کئی لوگ موجود تھے جو حضرت علی رضا کو جانشین بنانے کے فیصلے پر سخت ناراض تھے، ہو سکتا ہے انہی میں سے کسی نے امام رضا کو زہر دے دیا ہو۔
مامون، ایک متضاد شخصیت
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مامون ایک متضاد شخصیت کا حامل تھا، ایک طرف امام رضا کو ولی عہد بنانے اور باغِ فدک سادات کے حوالے کرنے کی وجہ سے اسے شیعہ سمجھا جاتا ہے تو دوسری جانب معتزلہ کے شدت پسند عقائد بھی اپنائے اور اس حوالے سے بہت سخت اور بے لچک رویّہ اختیار کیا۔
علمی مسائل پر مامون کے عجیب و غریب رویّے نے مملکت کو بہت نقصان پہنچایا۔ جو معاشرہ ویسے ہی رنگ، نسل اور قبائل میں تقسیم تھا، اس مزید تقسیم سے دوچار کر دیا۔
مامون کے دور میں معتزلہ عباسی حکومت کا سرکاری دِین بن گیا اور اسی عہد میں امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر عالم کو صرف اس لیے زندان میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ معتزلی عقائد کے خلاف تھے۔
تبصرہ لکھیے