اپنے مقاصد کے حصول کے سلسلے میں ہر طرح کی آزمائش سے گزرنے کا دعویٰ کرنے والے تو بہت ملتے ہیں ، مگر ایسے لوگ کتنے ہیں جو ان وعدوں کو وفا کر سکیں ؟؟؟ جن کے حوصلے ان کے عزائم کو جِلا بخشیں؟؟؟
اخوان المسلمین کی بنیاد 1928 میں امام حسن البناء شہید نے رکھی۔ جب وہ بمشکل بائیس برس کے تھے۔
ان کی جماعت کی تاریخ ایسی نفوسِ قدسیہ سے لبریز ہے جنہوں نے اپنے عہد کو وفا کیا ۔ امام حسن البناء شہید خود تو بارہ فروری 1949 کو شاہ فاروق کے گُرگوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے مگر ان کا لگایا ہوا یہ شجر ، یہ شجرِ طیّبہ، آج شاہ بلوط بن چکا ہے۔
اخوان المسلمین ، جس کی بنیاد ہی اس عزم پر رکھی گئی تھی کہ مصر اور اس کے گرد و نواح میں مخلوق کو اس کے خالق سے روشناس کروایا جائے گا ، اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اتباع کو مقصدِ حیات بنایا جائے گا ۔ ظلم کی اندھی رات کا سینہ چیر کر ، سچائی اور انصاف کا سورج از سرِ نَو ابھارا جائے گا۔ غاصبوں اور آمروں کے رعونت آمیز میناروں کو زمیں بوس کر کے خدائے واحد و یکتا کے پرچم اور کلمے کو ہر آن سر بلند کیا جائے گا۔
اس انقلاب کی بنیاد ہزار ہا شہدا نے اپنے لہو سے رکھی ہے۔
1953 میں جمال عبدالناصر کی ظلم و بربریت ، پھر 1966 میں سید قطب شہید کی شہادت ، پھر انور سادات ، اور پھر فرعون صفت حسنی مبارک (المعروف بہ مردِ آہن)۔
اس حسنی مبارک کا آمرانہ راج مصر پر 1981 سے دو ہزار گیارہ تک، تیس برس تک قائم رہا۔ اس عرصے میں کون سا ظلم تھا جو اخوان کے ساتھ اس آمریت نے روا نہیں رکھا۔ مگر اخوان پر عزم اور سربلند رہے ، اور انہوں نے اپنی جدوجہد قائم رکھی ۔ انہوں نے اپنے جذبات کی آنچ کو ایک لمحہ کے لیے بھی سرد نہیں ہونے دیا ، یہاں تک کہ یہ چنگاری ، روشنی کا منبع بن گئی ، وہ روشنی جس نے حسنی مبارک کی تاریک رات کو 11 فروری 2011 کو شکست دی۔
اس جدوجہد کے سرخیل بہت سے تھے، مثلاً ڈاکٹر بدیع ، محمد البلتاجی اور ڈاکٹر محمد مرسی وغیرہ ۔
دورِ آمریت کے اختتام پر انتخابات کے ذریعے آئندہ ملکی قیادت کا فیصلہ ہونا تھا ، لہٰذا اخوان المسلمین نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ، جس میں اخوان المسلمین کو واضح کامیابی حاصل ہوئی ، اور انہیں تاریخ میں پہلی بار اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا۔ محمد مرسی نے تیس جون 2012 کو مصر کے پانچویں اور پہلے جمہوری صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔
ان کے اقدامات واضح طور پہ داخلی اور خارجی امور میں اخوان المسلمین کے پیغام اور منشور کو عیاں کرتے تھے ۔ انہوں نے مصری عوام کے لیے بنیادی حقوق اور انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن حد تک کوشش کی ۔ انہوں نے ملک میں امن و امان اور صلح جوئی کے سلسلے میں اقدامات کیے۔ مگر ان کے ایک فیصلے نے عالمی دنیا کو چونکا دیا ، جب انہوں نے ، محصور و محبوس ، مظلوم اہلِ غزہ کے لیے صحرائے سینا کو کھول دیا۔ واضح رہے کہ ناجائز ریاست اسرائیل نے تین اطراف سے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے ، جبکہ چوتھی سمت صحرائے سینا ہے، جہاں حسنی مبارک نے خاردار باڑوں اور بندوقوں کے ذریعے سرزمینِ حُرّیت، غزہ کے باسیوں کو پابند کر رکھا تھا ۔ پھر مصر اور غزہ کے درمیان واحد بین الاقوامی گزرگاہ ، رفح کو مصر اور غزہ کی آمد و رفت کے لیے غیر مشروط انداز میں کھول دیا۔ غزہ محصورین کے لیے علاج معالجہ ، خوراک اور دیگر تمام سہولیات کی فراہمی کے لیے مصر کے اسپتالوں اور بازاروں کے دروازے کھول دیے گئے۔
شاید مہذب ، دوغلی دنیا کے لیے یہ مرسی کا بہت بڑا جرم تھا ۔
پھر 26 ستمبر کو ایک بار پھر دنیا میں بھونچال آ گیا ، جب محمد مرسی نے اقوامِ متحدہ سے خطاب میں حرمتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے سلسلے میں دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ "عزت اسی کی ہو گی ، جو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کرے گا ، ان سب سے دشمنی رہے گی جو نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے دشمنی کریں گے۔"
گستاخانہ خاکوں ، بیانات اور پروپیگنڈہ کو تقویت دینے والے مغربی میڈیا اور حکومتوں کے لیے یہ واضح پیغام تھا ۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی نے حرمتِ رسولﷺ کی خاطر سب کچھ لٹا دینے کا دعویٰ کیا تھا ۔
اور دعوے تو بہت لوگ کیا کرتے ہیں ۔
اگر مصر کے خطے کو بغور دیکھا جائے تو اس سے ملحقہ ممالک تمام ویسے ہی ہیں ، جہاں حسنی مبارک جیسے مطلق العنان فراعنہ برسرِ اقتدار ہیں ۔ وہ جو عوام کو اس کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ وہ جن کا مطمع نظر فقط ان کی اور ان کے خاندان کی فلاح و بہبود ہے۔ اخوان المسلمین ایسے ڈکٹیٹرز کے لیے زہرِ قاتل کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اخوان المسلمین نے جو عوامی اور جمہوری انقلاب 11 فروری 2011 کو تحریر اسکوائر پر برپا کیا تھا ، وہ تمام ہمسایہ ممالک ، بالخصوص عرب ممالک کے ڈکٹیٹرز کے لیے خطرے جا الارم تھا۔ عوام جب اپنے حقوق مانگنے لگیں تو آمر کیا کرتا ہے ؟؟؟ وہ کبھی خزانوں کے منہ نہیں کھولتا مگر بندوقوں کے منہ کھول دیتا ہے۔
ان ہمسایہ ممالک نے محمد مرسی کو اپنا دشمن سمجھا ۔ اس کی جمہوری حکومت کو اپنی آمریت کے لیے خطرہ سمجھا اور در پردہ ، محمد مرسی کی نوزائیدہ حکومت کو گرانے کے لیے سازش شروع کر دی گئی۔ اس سازش میں اسرائیل کی ناجائز ریاست نے اہم کردار نبھایا اور کیا خوب کردار نبھایا ۔ آخر مٹھی بھر غزہ محصورین کی داد رسی کرنے والا محمد مرسی کس قدر بڑا خطرہ تھا ، کون نہیں جانتا ۔۔۔۔
اور پھر وہ دن آیا جب فوجی آمر ، عبد الفتح سیسی نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر محمد مرسی کی منتخب، قانونی جمہوری حکومت کو بزور ختم کیا ، اور صدر محمد مرسی کو بد ترین تورہ جیل میں بند کر دیا گیا ۔ سات ہزار سال کی مصری تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکمران مصری عوام کو میسر آیا تھا ۔ وہ جسے ایک کروڑ بتیس لاکھ ، تیس ہزار ایک سو اکتیس مصری نفوس نے ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا ۔ وہ جس نے اپنے حریف احمد شفیق ، جو فوج کا نمائندہ تھا ، کو دس لاکھ ووٹوں کے مارجن سے شکست دی تھی ، اسے فردِ واحد نے بندوق کی طاقت سے بد ترین انداز میں بر طرف کر دیا۔
افتخار عارف نے کہا تھا
"اپنے شہسواروں کو
قتل کرنے والوں سے
خوں بہا طلب کرنا
وارثوں پہ واجب تھا
قاتلوں پہ واجب تھا
خوں بہا ادا کرنا
واجبات کی تکمیل
منصفوں پہ واجب تھی
منصفوں کی نگرانی
قدسیوں پہ واجب تھی
وقت کی عدالت میں
ایک سمت مسند تھی
ایک سمت خنجر تھا
تاجِ زرنگار اک سمت
ایک سمت لشکر تھا
اک طرف مقدر تھا
طائفے پکار اٹھے
"تاج و تخت زندہ باد
ساز و رخت زندہ باد"
خلق ہم سے کہتی ہے
سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا
اپنا خوں بہا لکھیں
چشمِ نم سے شرمندہ
ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں،
کیا لکھیں؟؟؟"
جب سیسی نے محمد مرسی کو بر طرف کیا تو مصر سراپا احتجاج ہو گیا۔ رابعۃ العدویۃ کے میدان میں مصر کے عوام پر بد مست سیسی کی فوج نے ٹینک چڑھا دیے ۔ گولیوں کی بارش میں ہزاروں مصری شہری شہید ہوئے ، مگر سانس لینے کی آزادی طلب کرنے والوں کو آمریت کا حبس محبوس نہیں کر سکا ۔
محمد مرسی پر ہر ہر قسم کے بے بنیاد الزامات لگا کر ان کی کردار کشی کرنے کی کوشش کی گئی مگر مرسی کے صالح کردار سے مصر کا بچہ بچہ واقف تھا ۔ مگر آمریت نے انہیں جیل کی سلاخوں میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لہذا کس عدالت کی مجال تھی جو سیسی کے احکامات سے انحراف کرتی۔ 2013 سے 2019 تک کون سا ستم تھا جو منتخب صدر محمد مرسی پر جیل میں نہیں آزمایا گیا۔ ان چھ برس کے دوران ان کو صرف 3 بار ان کے اہل خانہ سے ملنے دیا گیا ، وہ بھی سرکاری اہلکاروں کی نگرانی میں ۔
اس قیدِ تنہائی کی تحقیقات کے سلسلے میں ایک برطانوی ادارے اور ایمنیسٹی نے بھی واضح کہا کہ مرسی کو جیل میں ایسے حالات میں رکھا جا رہا ہے جہاں ان کی جلد موت واقع ہو جائے گی ۔ مگر مہذب دنیا کی کان میں جوں تک نہیں رینگی ۔بالآخر 17 جون 2019 کو محمد مرسی انہی جیل کی سلاخوں سے عدالت کے کٹہرے میں لائے گئے ، اور وہیں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ دنیا بھر نے ان کی اس موت کو حکومتی قتل قرار دیا اور اس قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ طیب اردگان نے مرسی کے قتل کا الزام سیسی کی حکومت پر عائد کیا اور انقرہ میں محمد مرسی کی غائبانہ نمازِجنازہ بھی پڑھی گئی ۔
جبکہ محمد مرسی شہید کو حکومتی اہلکاروں نے نامعلوم مقام پر ، خاموشی سے دفن کر دیا۔
صدر محمد مرسی نے دعویٰ کیا تھا کہ
"الموت فی سبیل اللّٰہ اسما امانینا"
اور دعوے تو سب کرتے ہیں ۔ مگر محمد مرسی نے اسی رستے پر جان دے کر ثابت کر دیا کہ اللہ کے رستے میں موت ہی ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ "کوئی لایا دلیلِ محبت مگر ، خون کی ایک اک بوند کو وار کر" (احسن عزیز)
صدر محمد مرسی کو تو غاصب عبد الفتح سیسی نے شہید کر دیا ، مگر ان کی آزادی اور انصاف کی مشعل کو سرد نہیں کر سکے ۔ بلکہ مرسی کی شہادت نے سیسی کی فسطائی حکومت کو دنیا بھر کے سامنے بے نقاب کر دیا ۔
بقول عزیز حامد مدنی
خطِّ معزولیِ اربابِ سِتَم کھینچ گئے
یہ رسَن بستہ صلیبوں سے اتارے گئے لوگ
تبصرہ لکھیے