ہوم << قیامت سے پہلے کیا ہوگا؟ نشانیاں کیا ہوں گی؟ مفتی منیب الرحمن

قیامت سے پہلے کیا ہوگا؟ نشانیاں کیا ہوں گی؟ مفتی منیب الرحمن

قیامت کا قائم ہونا حق ہے اور اس کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کتُبِ حدیث میں ’’بَابُ الْفِتَن‘‘اور’’اَشْرَاط السَّاعَۃ ‘‘ کے عنوان کے تحت محدّثینِ کرام نے ایسی احادیث درج کی ہیں ، جنہیں ایسی علاماتِ قیامت قرار دیا گیا ہے.

جن کا ظہور قیامت سے پہلے ہوگا، خواہ ایک ایک کر کے ہی کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ قیامت سے پہلے یہ سب علامتیں جمع ہو جائیں گی، کچھ علاماتِ قیامت کا تعلق تکوینی امور سے ہے :یعنی نظامِ کائنات کا درہم برہم ہوجانا، سورج کی بساطِ نورکا لپیٹ دیا جانا، ستاروں کا بکھر جانا ، پہاڑوں کا دھنکی ہوئی روئی کے بگولوں کی طرح اڑنا ، ہر ذی حیات کا فنا ہوجانااوراس مُدوَّر(Rounded)زمین کاہمواراور مُسَطح(Flat)میدان کی طرح ہوجانا اور پھر میزانِ عدل قائم ہونا۔ قیامت سے پہلے ان احادیثِ مبارَکہ کا قطعی مصداق تو ہم کسی ایک چیز یا عنوان کو نہیں ٹھیرا سکتے ، لیکن جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں ، تو بہت سے حقائق وواقعات ایسے ہیں جو قیامت کا منظر پیش کرتے ہیں اور یہ قیامت خیز منظر ہمارااپنا پیدا کیا ہواہے۔

پس حقیقی قیامت تو اﷲتعالیٰ کی تقدیر کے مطابق جب آنی ہے ، یقینا آئے گی ۔لیکن ہم نے اپنی انفرادی اور اجتماعی بداعمالیوں ، بے تدبیریوں اور خدافراموشی کے سبب قیامت برپا کررکھی ہے۔ بعض احادیثِ مبارَکہ ہمارے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں،لہٰذا ان کا بغور مطالعہ کیجیے اور عبرت حاصل کیجیے اور اگر ہوسکے تو ان حالات سے نجات کے لیے کوئی حکمتِ عملی مرتب کیجیے یا کوئی تدبیر کیجیے۔ذیل میں تنبیہ اور عبرت کے لیے چند احادیثِ مبارَکہ درج کی جارہی ہیں:

(۱)رسول اللہ ﷺ سے ایک اَعرابی نے پوچھا قیامت کب آئے گی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو، پھرسوال ہوا: یا رسول اللہ ! امانت کیسے ضائع ہوتی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: جب مسلمانوں کے (ملکی اور ملّی) امور کااختیار نااہلوں کے سپرد ہوجائے تو قیامت کا انتظار کرو، (صحیح بخاری:6496)‘‘۔

(۲)آپ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے بہترین لوگ تمہارے حکمران ہوں اور تمہارے اجتماعی معاملات باہمی مشاورت سے طے ہوں تو تمہارا زمین کے اوپر رہنا زمین کے نیچے چلے جانے سے بہتر ہے (یعنی تمہارے لیے زندگی میں خیر ہوگی)اور جب تم میں سے بدتر لوگ تمہارے حکمران بن جائیں ، تمہارے مال دار بخیل ہوجائیں اور معاملات کی باگ ڈور عورتوں کے ہاتھ میں چلی جائے توتمہارا زمین کے اندر چلے جانا زمین کے اوپر رہنے سے بہتر ہے،(سنن ترمذی: 2266)‘‘، یعنی پھر زندگی میں خیر نہیں ہے۔

(۳)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قومی خزانے کو ذاتی دولت بنا لیا جائے ،قومی امانتوں کو غنیمت سمجھ کے لوٹا جانے لگے اورزکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر دینے سے انکار کردیا جائے ، دین کا علم دنیا سنوارنے کے لیے حاصل کیا جائے ، ایک شخص اپنی بیوی کا فرمانبردار اور ماں کا نافرمان ہوجائے، ایک شخص اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور رکھے، مسجد وں میں آوازیں بلند ہونے لگیں(یعنی جھگڑے ہوں)، بدکار شخص قبیلے کا سردار بن جائے ،قوم کی زمامِ اقتدارکمینوں کے ہاتھ میں آجائے اور (معاشرے میں )کسی شخص کی عزت (اس کے علم ، کرداریا شرافت کی بنا پر نہیں بلکہ) اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے .

شراب نوشی عام ہوجائے ،گانا گانے والیاں اور آلاتِ غِنا عام ہوجائیں اور اس امت کے پچھلے اپنے پہلوں پر لعن طعن کریں،توپھر تم اس وقت کا انتظار کروجب سرخ ہوائیں چلیں گی ، زلزلے آئیں گے، زمین میں دھنسا دیے جائو گے، صورتیں بگاڑی جائیں گی اورپتھر برسائے جائیں گے اورقیامت کی نشانیوں کااس طرح پے درپے ظہور ہوگا ، جیسے ایک تسبیح کی لڑی کے ٹوٹ جانے سے اس کے دانے ایک ایک کر کے گرتے ہیں، (ترمذی:2211)‘‘۔صورتوں کے مسخ ہونے کی ایک شکل تو وہ ہے جیسے بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل سرکشی اورنافرمانیوں کی وجہ سے بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھااور ایک صورت یہ ہے کہ اقوامِ عالَم کے درمیان بے توقیر ہوجاؤ اور تمہارے لیے کوئی مقامِ افتخار باقی نہ رہے، شاعرنے کہا ہے :

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

ہمارے لیے مقامِ غور ہے کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں کردار، دیانت ، شرافت، امانت ، علم اور تقویٰ عزت وافتخار کا باعث ہے یا حدیثِ پاک کی رو سے دہشت ، ضرر رسانی اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت باعثِ تکریم ہے۔

(۴)ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جس قوم میں خیانت غالب آجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے دلوں میں دشمن کا رعب ڈال دیتا ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرے ، اس کے رزق میں تنگی آجاتی ہے اور جو قوم حق کے خلاف فیصلے کرے تو اس میں خون ریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہدشکنی کرے تو اس پر دشمن غالب آجاتاہے،(مؤطا امام مالک:1670)‘‘۔ (۵)آپ ﷺ نے فرمایا:’’بے شک اﷲعام لوگوں کو کسی خاص شخص (یا طبقے )کی بدعملی کی سزا نہیں دیتا ، مگر جب (حالات یہاں تک پہنچ جائیں کہ)لوگ اپنے درمیان برائیوں کوپھلتا پھولتا دیکھیں اور ان کو روکنے کی اجتماعی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکیں (اورجب اجتماعی بے حسی اور لاتعلقی اس درجے تک پہنچ جائے) توپھر خواص کی بد اعمالیوں کی سزا عوام کو بھی ملتی ہے ،(مسند احمد:17720 )‘‘۔

(۶)رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو حکم فرماتا ہے : فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبرئیل امین عرض کرتے ہیں :اے پروردگار! اس بستی میں تیرا فلاں (انتہائی متقی ) بندہ ہے ، جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی(اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟)، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اُس سمیت اِس بستی کو الٹ دو ، کیونکہ میری ذات کی خاطر اس کا چہرہ کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوا ،(شعب الایمان:7189)‘‘۔

حدیث مبارک کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے دینِ اسلام کی حدود پامال ہوتی رہیں ، مُنکَرات کا چلن عام ہوتا رہا، لیکن ان برائیوں کو روکنے کی عملی کاوش تو دور کی بات ہے ،حدودِ الٰہی اور دینی اقدار کی پامالی پراس کی جبین کبھی شکن آلود نہیں ہوئی ، صرف اپنی عبادت ، ذکراذکار اورتسبیحات ودرودمیں مشغول رہا ، یعنی اپنے حال میں مست رہا، برائیوں کو مٹانے کے حوالے سے اور معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک مسلمان پر جو ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے سے قطعی طور پر غافل اور لاتعلق رہا۔

(۷)نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، لوگوں پر ایک زمانہ ایساآئے گا کہ (قتل وغارت عام ہوجائے گی مگر)نہ قاتل کومعلوم ہوگا کہ وہ مقتول کو کس جرم میں قتل کررہا ہے اور نہ مقتول کو معلوم ہوگا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا جارہا ہے ،(صحیح مسلم:2908)‘‘۔

(۸)رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’جب دو مسلمان تلواریں لیے آپس میں لڑپڑیں، تو قاتل اور مقتول (دونوں) جہنمی ہیں، عرض کیا گیا: یارسول اللہ !قاتل کا قصور تو معلوم ہے،لیکن مقتول کا کیا قصور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:وہ (بھی)اپنے مقابل کو قتل کرنے کا شدت سے آرزو مند تھا،(بخاری :6875)‘‘۔حدیث کا منشا یہ ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں اور دونوںہی ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں، تو ظاہر ہے کہ کامیابی تواُن میں سے ایک کوملے گی اوردوسرا مارا جائے گا ، مگر چونکہ ارادۂ قتل کے عزمِ صمیم میں دونوں برابر ہیں، لہٰذادونوں جہنم کے حقدارہوں گے، یقینا قاتل کی سزا مقتول سے زیادہ ہوگی ، لیکن مقتول بھی سزا سے بچ نہیں سکے گا۔وہ مقتول جو کسی ظالم حملہ آور، ڈاکو یا لوٹ مار کرنے والوں یا عصمت دری کرنے والوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال یا آبرو کے تحفظ میں ظلماً مارا جائے ، حدیثِ پاک کی رو سے اسے شہید کا درجہ ملے گا۔ ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا، وہ شہید ہے اور جو اپنے دین کی حفاظت میں مارا گیا ،وہ شہید ہے اورجو اپنی جان کی حفاظت میں مارا گیا،وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل کی حفاظت میں مارا گیا، وہ بھی شہید ہے، (سنن ترمذی: 1421)‘‘، یعنی انھیں بھی شہادت کا درجہ ملے گا۔

(۹)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اﷲتعالیٰ کی حدود میں مُداہنت (یعنی بے جارعایت )کرنے والا یامحرماتِ شرعیہ کے بارے میں حدودِ الٰہی کو پامال کرنے والے کی مثال اس قوم کی سی ہے، جو ایک کشی میں سوار ہوئے ، بعض نچلی منزل پر چلے گئے اور بعض بالائی منزل پر چلے گئے ،تو جونچلی منزل پر تھا ، اس نے اوپر والوں سے پانی مانگا ، انہوں نے اسے تکلیف پہنچائی اور پانی دینے سے انکار کردیا،تو اس نے کلہاڑا لیا اور (دریا کا) پانی حاصل کرنے کے لیے کشتی میں سوراخ کرنے لگا ، تو اوپر والے آئے اور اس سے کہا : یہ کیا کررہے ہو، اس نے کہا: تم نے مجھے (پانی نہ دے کر)تکلیف پہنچائی ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہے ، تواگر انہوں نے (اس کی تکلیف) کا ازالہ کرکے اس کے ہاتھ روک لیے تواسے اوراپنے آپ کوڈوبنے سے بچالیں گے ،لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پرقائم رہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، تواس سمیت سبھی ہلاک ہوجائیں گے، (بخاری: 2286)‘‘۔

اس حدیث کا منشاء ومُدَّعایہ ہے کہ جب معاشرہ ایک سرکش طبقے کے ہاتھوں تخریب کاری ، دہشت گردی ، قتل وغارت، فساد اور بدامنی کا شکار ہوجائے اور معاشرے کی نظمِ اجتماعی (موجودہ حالات میں ریاست وحکومت)ان کو ظلم وفساد سے نہ روکیں ، ان کی سرکوبی نہ کریں اور معاشرے کو ان سے امان نہ دیں، توانجامِ کار ہلاکت وبربادی سب کا مقدر ہوگی۔

قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ کی زمین پر جو خرابیاں پیداہوں گی اور پھیل جائیں گی، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ہم نے اُن کو بیان کیاہے، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں ،اُن میں بعض امور کا تکرار ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب یا مُصلِح یا واعظ ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نئی بات بھی آجاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکاء کے لیے انہی باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے،اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:

(۱)سابق امتوں کی پیروی: آپ ﷺنے فرمایا :’’تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کروگے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے ، تو تُم بھی داخل ہوگے ، ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : اور کون، (بخاری : 7320) ‘‘۔

(۲)وقت سمٹ جائے گا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہوجائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر ،ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گااورساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی، ( ترمذی:2332)‘‘۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور سالوں میں طے ہوتے تھے، اب گھنٹوں میں طے ہورہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے ، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تواگلے دن کی فجر کی نماز نیو یارک میں جاکر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیو یارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے ،لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہوجاتاہے۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تکلیف کے لمحات صدیوں کی مانند بھاری محسوس ہوتے ہیں اور راحت کے لمحات کے بارے میں لگتاہے کہ پل بھر میں گزر گئے۔

(۳)اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(۱): ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زُہد روایت اور ورع وتقویٰ تصنُّع اور بناوٹ بن جائے گا، (حلیۃ الاولیاء،ج:3،ص:119)‘‘، (۲) ’’قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائیں گے، ( ترمذی:2209)‘‘۔

(۴) اچانک اموات: نبی ﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنالیا جائے گااور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے، (المعجم الاوسط:4861)‘‘۔آجکل بوجوہ ہارٹ اٹیک ، برین ہیمریج کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہورہے ہیں،اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چکنائی سے معمور غذائوں اور کئی طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائوں کے ذیلی اثرات(Side Effects) کی حامل ہوجاتی ہیں،یعنی اگر کوئی دوا ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہے تو دوسری بیماری کاسبب بن جاتی ہے،اسی لیے ان دوائوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دوسری دوائیں شامل کی جاتی ہیں، جنھیں طبِ قدیم کی اصطلاح میں ’’بَدرَقَہ‘‘ کہتے ہیں۔

(۵) ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہوگا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں گی، زنا کی کثرت ہوگی‘‘۔اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیںہیں ، ایک حدیث میں فرمایا:’’باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنادیا گیا ہے اور جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیرجنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں،کرائے کی ماں برائے خدمت دستیاب ہوتی ہے،اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے،کیونکہ بعض لوگوں کو باپ کا نام معلوم ہی نہیں ہوتااور اب تو مردوں کی ہم جنس پرستی ، عورتوں کی ہم جنس پرستی ، متضاد جنس پرستی سے آگے بڑھ کر LGBT+گروپ بنالیا گیا ہے، یعنی اب یہ آوارگی مصنوعی جنسی اعضاء سے آگے بڑھ کر حیوانات تک وسیع ہوجائے گی۔

(۶)دین پر چلنا دشوارہوجائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری اور فرضِ کفایہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کی (ہدایت)کے لیے ظاہر کیا گیا ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، (آل عمران:110)‘‘۔ پھر جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ’’اے ایمان والو!تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا، (المائدہ: 105)‘‘، بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالناچھوڑو، بس اپنی فکر کرو ،جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمے داری قرار دیتا ہے، چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے ابوثعلبہ خُشَنِی سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (یہ بات مجھے بھی کھٹکی تھی اور)میں نے اس کی بابت رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا: آپ ﷺ نے فرمایا: (نہیں)،بلکہ تم لوگوں کونیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو،حتیٰ کہ جب تم دیکھو:کمینوں کی اطاعت کی جارہی ہواورخواہشاتِ نفس کی پیروی کی جارہی ہے، دنیاکو آخرت پر ترجیح دی جارہی ہے ، اور( دلیلِ حق سے اعراض کر کے) ہرشخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے،تو پھر تم اپنی فکر کرواور لوگوں کا خیال چھوڑ دو،کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں،پس ایسے مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنااس قدر مشکل ہوجائے گاجیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا،پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیااُس دور کے پچاس افراد کے برابر، آپﷺ نے (صحابہ سے)فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر، ( ابودائود: 4341)‘‘۔

(۷) عیسائیوں کاغلبہ :مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاص کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہوگی ،اُن سے عمرو نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو، انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، حضرت عمرو نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں،شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں ، مسکینوں، یتیموںاور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں ،پھر آپ ﷺ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں، (مسلم:2898)‘‘۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان واعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچارہوتی ہیں،آج یہود ونصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔

(۸)بارشوں کا بے مصرف ہونا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے ، ( مسلم:2904)‘‘۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہاکر لے جاتے ہیںاور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

(۹)علمائے حق کا اٹھ جانا: حدیثِ مبارک میں ہے:’’عبداللہ بن عمرو بن العاص نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے)کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو، بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گاتولوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، (بخاری:100)‘‘۔ حکیم بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ سے شر کی بابت پوچھا:آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو،پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں،(سنن دارمی:400)‘‘۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں،سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں،لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تویہی وجہ فساد ہے، آپ ﷺ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا: ’’پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیاکہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا:یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتاتو اسے اُس کام سے نہ روکتابلکہ اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر)اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو یک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپ ﷺ نے المائدہ کی آیات 78تا80تلاوت کرکے فرمایا: ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اورتم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کردو گے ، (ابودائود:4336)‘‘۔قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔

قیامت سے پہلے انسانی معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی زمین پر جو خرابیاں پیدا ہوں گی اور پھیل جائیں گی‘ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پچھلے کالم میں ہم نے اُن کو بیان کیا، مگر اس عنوان پر احادیثِ مبارکہ بکثرت ہیں۔ اُن میں بعض امور کا تکرار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے ایک خطیب یا مُصلِح یا واعظ ایک عنوان پر مختلف مجالس میں گفتگو کرے تو ہر مجلس میں کوئی نئی بات بھی آ جاتی ہے اور بعض گزشتہ باتوں کا تکرار بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مجلس میں سامعین ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے، لہٰذا نئے شرکا کے لیے انہی باتوں کا ابلاغ دین کی دعوت و حکمت کا تقاضا ہوتا ہے، اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تئیس سالہ نبوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نزولِ وحی اور اپنے حبیبِ مکرمﷺ کو امورِ غیبیہ عطا کرنے کا سلسلہ جاری رہا، سطورِ ذیل میں ہم چندنئی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں:
(1) سابق امتوں کی پیروی: آپﷺنے فرمایا: ''تم ضرور پچھلی امتوںکے طریقوں کی مِن وعَن پیروی کرو گے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر، حتیٰ کہ اگر وہ کسی گو ہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے، تو تُم بھی داخل ہو گے۔ (صحابہ کرام فرماتے ہیں) ہم نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: اور کون!‘‘ (صحیح بخاری: 7320)۔

(2) وقت سمٹ جائے گا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ زمانہ قریب ہو جائے گا، سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتے کے برابر، ہفتہ ایک دن کے برابر، دن ایک ساعت کی مانند گزر جائے گا اور ساعت آگ کی ایک چنگاری کی مانند پلک جھپکنے میں گزر جائے گی‘‘ (ترمذی: 2332)۔ وقت کے سمٹائو کی ایک صورت تو یہ ہے کہ وہ فاصلے جو ماضی میں مہینوں اور سالوں میں طے ہوتے تھے‘ اب گھنٹوں میں طے ہو رہے ہیں، وہ پیغام جسے پہنچانے میں دن‘ ہفتے اور مہینے لگ جاتے تھے، اب لمحوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اگر ہم مشرق سے مغرب کی جانب سفر کریں اور عشاء کی نماز کراچی میں پڑھ کر جائیں تواگلے دن کی فجر کی نماز نیویارک میں جا کر پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ کراچی سے نیویارک کا فاصلہ کم وبیش بارہ ہزار کلومیٹر ہے، لیکن اگر ہم مغرب سے مشرق کی جانب سفر کریں تو معاملہ اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تکلیف کے لمحات صدیوں کی مانند بھاری محسوس ہوتے ہیں اور راحت کے لمحات کے بارے میں لگتا ہے کہ پل بھر میں گزر گئے۔

(3) اقدار بدل جائیں گی: رسول اللہﷺ نے فرمایا (۱): ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ زُہد روایت اور ورع و تقویٰ تصنُّع اور بناوٹ بن جائے گا‘‘ (حلیۃ الاولیاء، ج: 3، ص: 119)، (۲) ''قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ بے وقوفوں کی اولاد دنیا میں سب سے زیادہ خوش نصیب بن جائے گی‘‘ (ترمذی: 2209)۔

(4) اچانک اموات: نبی کریمﷺ نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ مساجد کو گزرگاہ بنا لیا جائے گااور اچانک موت کے واقعات زیادہ ہونے لگیں گے۔ (المعجم الاوسط: 4861)۔ آج کل بوجوہ ہارٹ اٹیک، برین ہیمرج کے واقعات ماضی کی نسبت زیادہ ہو رہے ہیں، اُس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چکنائی سے معمور غذائوں اور کئی طرح کے کیمیکلز کی وجہ سے جدید دوائیں ذیلی اثرات (Side Effects) کی حامل ہو جاتی ہیں، یعنی اگر کوئی دوا ایک بیماری کا ازالہ کرتی ہے تو دوسری بیماری کاسبب بن جاتی ہے، اسی لیے ان دوائوں کے نقصانات کے ازالے کے لیے دوسری دوائیں شامل کی جاتی ہیں، جنہیں طبِ قدیم کی اصطلاح میں ''بَدرَقَہ‘‘ کہتے ہیں۔

(5) ہم جنس پرستی: طویل حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ''قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کا دور دورہ ہو گا، مرد مردوں سے اور عورتیں، عورتوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں گی، زنا کی کثرت ہو گی‘‘۔ اب تو مغرب میں نسب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں فرمایا: ''باندی اپنے آقاکو جنے گی‘‘۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ مغرب میں نکاح اور طلاق کو مشکل بنا دیا گیا ہے اور جوان جوڑے رسمی شادی کے بغیر جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں، کرائے کی ماں برائے خدمت دستیاب ہوتی ہے، اس لیے دستاویزات میں ماں کا نام ضروری قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بعض لوگوں کو باپ کا نام معلوم ہی نہیں ہوتا اور اب تو مردوں کی ہم جنس پرستی، عورتوں کی ہم جنس پرستی، متضاد جنس پرستی سے آگے بڑھ کر LGBT+ گروپ بنا لیا گیا ہے، یعنی اب یہ آوارگی مصنوعی جنسی اعضاء سے آگے بڑھ کر حیوانات تک وسیع ہو جائے گی۔

(6) دین پر چلنا دشوار ہو جائے گا: اسلام کی رُو سے امت اور انسانیت کی اصلاح مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری اور فرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جسے تمام لوگوں کی (ہدایت )کے لیے ظاہر کیا گیا، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران: 110)۔ پھر جب قرآنِ کریم کی یہ آیت سامنے آئی: ''اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو، جب تم ہدایت پر ہو تو کسی کی گمراہی سے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچے گا‘‘ (المائدہ: 105)۔ بعض حساس صحابہ کرام کو اس پر تشویش لاحق ہوئی، کیونکہ اس کے ظاہری معنی سے کوئی یہ تاثر لے سکتا تھاکہ دوسروں کا غم پالناچھوڑو، بس اپنی فکر کرو، جبکہ اسلام تو پوری انسانیت کی اصلاح کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری قرار دیتا ہے؛ چنانچہ ابو امیہ شعبانی روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت ابوثعلبہ خُشَنِیؓ سے مذکورہ بالا آیت کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: (یہ بات مجھے بھی کھٹکی تھی اور) میں نے اس کی بابت رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا: آپﷺ نے فرمایا: (نہیں!) بلکہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، حتیٰ کہ جب تم دیکھو: کمینوں کی اطاعت کی جا رہی ہے اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کی جا رہی ہے، دنیاکو آخرت پر ترجیح دی جا رہی ہے، اور (دلیلِ حق سے اعراض کر کے) ہر شخص اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ رہا ہے، تو پھر تم اپنی فکر کرو اور لوگوں کا خیال چھوڑ دو، کیونکہ اب تمہارے آگے صبر کے دن آنے والے ہیں، پس ایسے مشکل وقت میں صبر کر کے دین پر قائم رہنااس قدر مشکل ہو جائے گا جیسے آگ کے کھولتے ہوئے انگارے کو مٹھی میں لینا، پس اُس وقت جو دین پر عمل پیرا رہے گا، اُسے پچاس افراد کے برابر ثواب ملے گا۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا اُس دور کے پچاس افراد کے برابر؟ آپﷺ نے (صحابہ سے) فرمایا: تمہارے پچاس افراد کے برابر! (ابودائود: 4341)۔

(7) عیسائیوں کا غلبہ: مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ''قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہو گی، اُن سے حضرت عمروؓ نے کہا: تمہیں معلوم ہے کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ حضرت عمروؓ نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں، شکست کھانے کے بعد جلد دوبارہ حملہ کرتے ہیں، مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں۔ پھر آپﷺ نے ان کی پانچویں اہم خصلت بھی بیان فرمائی کہ سب سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والے ہیں‘‘ (مسلم: 2898)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اُخروی نجات کا مدار تو ایمان و اعمالِ صالحہ پر ہے، لیکن دنیا میں ملّتیں اپنے کرتوتوں کے سبب زوال سے دوچار ہوتی ہیں۔ آج یہود و نصاریٰ کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کے اسباب ہمارے سامنے ہیں۔

(8) بارشوں کا بے مصرف ہونا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قحط یہی نہیں کہ بارش نہ ہو، بلکہ یہ بھی قحط ہے کہ خوب بارش ہو اور زمین کوئی چیز نہ اگائے‘‘ (مسلم: 2904)۔ اس کی ایک صورت مشاہدے میں آتی ہے کہ شدید بارشوں کے سبب بعض اوقات سیلاب آتے ہیں تو سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیںاور بارش کے بعد جس خوشحالی کی توقع کی جاتی ہے، لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

(9) علمائے حق کا اٹھ جانا: حدیثِ مبارک میں ہے: ''عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ علم کو ایسے نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کو (محسوس طریقے سے) کوئی چیز اٹھتی ہوئی محسوس ہو بلکہ علمائے حق کے اٹھ جانے سے علم اٹھتا چلا جائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (صحیح بخاری: 100)۔ حضرت حکیمؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے شر کی بابت پوچھا: آپﷺ نے تین بار فرمایا: مجھ سے شر کے بارے میں نہ پوچھو، خیر کے بارے میں پوچھو، پھر فرمایا: سب سے بڑی برائی برے علماء اور سب سے بڑی خیر اچھے علماء ہیں (سنن دارمی: 400)۔ کیونکہ لوگ دین کی نسبت سے علماء کی تکریم کرتے ہیں، ان کی بات کا اعتبار کرتے ہیں، سو اُن پر دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ اپنے آپ کو اسلام کے معلّم کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن اگروہ اس معیار پر پورے نہیں اترتے تویہی وجۂ فساد ہے۔ آپﷺ نے علمائے یہود کی بابت فرمایا: ''پہلے پہل بنی اسرائیل میں خرابی نے اس طرح نفوذ کیا کہ جب ایک شخص دوسرے کو برائی میں مبتلا دیکھتا تو کہتا: یہ کیا کر رہے ہو، اللہ سے ڈرو، یہ کرتوت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے جائز نہیں ہے، پھر اگلے دن ملتا تو اسے اُس کام سے نہ روکتا بلکہ اس کا ہم نوالہ و ہم پیالہ اور ہم نشین بن جاتا، پھر جب اُن کے کرتوت اسی طرح ہوتے چلے گئے، تو (اس کے وبال کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے رنگ میں رنگ دیا، پھر آپﷺ نے المائدہ کی آیات 78 تا 80 تلاوت کر کے فرمایا: ہرگزنہیں! تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے اور تم ضرور ظلم کا راستہ روکو گے اور لوگوں کو حق قبول کرنے پر مجبور کر دو گے‘‘ (ابودائود: 4336)۔ قارئین مندرجہ بالا تین آیات کا ترجمہ قرآنِ کریم میں دیکھ لیں۔