ہوم << ﷲ کی عدالت - زاہدہ حنا

ﷲ کی عدالت - زاہدہ حنا

مستنصر حسین تارڑ بالکل درست کہتے ہیں ’’سیاست کے کھلاڑیوں کے درمیان رضا ربانی کی حیثیت ایک ایسے شہزادے جیسی ہے جس کی شہرت کبھی داغ دار ہوئی نہ اس کی عظمت پر کوئی دھبہ لگا ، بلا شبہ وہ عصر حاضر کی سیاست میں اسی نوع کے نمایندہ ہیں.

جس کا وجود خطرے میں ہے۔‘‘ رضا ربانی کو لوگ ایک انقلابی سیاسی رہنما، ماہر قانون اور دانشور کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن کم ہی لوگوں کو اس امر کا علم ہے کہ موصوف ایک شاندار افسانہ نگار بھی ہیں۔لکھتے وہ انگریزی میں ہیں لیکن ان کی کہانیوں کے تراجم نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں نہ جانے کیوں مجھے ان کا ایک افسانہ شدت سے یاد آرہا ہے جس کا عنوان ’’ قیدی قانون ‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کے غریب ، مجبور اور محکوم عوام انصاف کے لیے کس اذیت سے گزرتے ہیں، اس کی ایک جھلک ہمیں رضا ربانی کی اس کہانی میں ملتی ہے، جس کے بعض حصے میں آپ کو سنانا چاہتی ہوں ، جو کچھ یوں ہے۔ اس کی ٹھوڑی سے لٹکتی ہوئی کھال اس کے چہرے کے نچلے حصے سے ہوکر گردن تک گئی تھی۔

اس کی گردن کی ہنسلی کی ہڈی اور سینے کا ایک حصہ کھلا ہوا تھا اور اس کی لان کی قمیص کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ وہ تغافل شعار تھی اس نے ایک بار پھر دہرایا۔ ’’ تو مجسٹریٹ ایں؟ ‘‘جب اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تو اس کی مسکراہٹ زہر خند ہوگئی۔ میں نے اس کے لمبے ، پتلے ناخن اور انگلیاں دیکھیں جو ناہموار اورکھردری محسوس ہورہی تھیں۔ پہلی بار ہماری نظریں براہ راست ملیں۔ اس کی آنکھیں بڑی گہری اور گرم جوش تھیں جن میں ایک ماں کا دکھ جھلکتا تھا۔ مسلسل رونے اور سوزش نے نہ صرف انھیں سرخ کردیا تھا بلکہ ان پر پپڑی جم گئی تھی اس کی آنکھوں کے ڈھیلے بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں حرکت کررہے تھے، جیسے غمزدہ ہونے سے پہلے کچھ تلاش کررہی ہوں۔ غم سے آنکھوں میں آنسو آگئے اور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے بے ساختہ پکار اٹھی ، ’’ میرا بیٹا۔‘‘

’’وہ کہاں ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

اس نے میرا ہاتھ تھپتھپایا اور بولی، ’’وہ تمہاری عمر جتنا ہے اور تمہاری طرح نظر آتا ہے، وہ پھلوں کی ایک دکان پر کام کرتا تھا۔ کچھ دن پہلے ، ایک روز میں نے اسے ناشتہ کرا کر کام پر بھیجا لیکن میں نے اسے دوبارہ نہیں دیکھا۔‘‘ وہ روپڑی ’’ مجھے کوئی نہیں بتاتا کہ وہ کہاں ہے۔ میں تے لٹ گئی، میں مر گئی او ، ربا کتھے وے میرا پتر۔‘‘

’’ ایک دن میں رینٹ کنٹرولر کی عدالت کے باہر لکڑی کی ٹوٹی بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔‘‘ آصف نے بات جاری رکھی۔ ’’ وہ آکر میرے برابر بیٹھ گئی اور مجھے غور سے دیکھنے لگی۔ میں کچھ بے چین ہوگیا لیکن پھر توجہ دینے پر پتہ چلا کہ اس کا سر بالکل ساکت تھا لیکن اس کی آنکھیں اوپر نیچے حرکت کررہی تھیں جیسے سر سے پیر تک میرا معائنہ کررہی ہوں۔ میں گھبرا کر تھوڑا الگ ہٹ گیا۔ اچانک اس کا ہاتھ میری کلائی پر پڑا ، اس کے انگلیوں کے لمبے ناخن مری کھال میں چبھ رہے تھے۔

میں ڈر کر حرکت کرنے سے باز رہا۔ اس نے مجھے کافی غور سے دیکھا اور بولی، ’’توں قانون ایں، توں مجسٹریٹ ایں؟ ‘‘اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، عدالت کے چپراسی نے مجھے نجات دلادی اور تھوڑی کوشش کے بعد مجھے اس کے چنگل سے چھڑا لیا’’چپراسی نے کہا ، صاحب اس کا خیال نہ کریں ، غریب عورت پاگل ہوچکی ہے‘‘

’’ میں نے اس سے پوچھا تھا، کیوں؟ ‘‘

میں اسے کئی برسوں سے کچہری آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ سب سے پہلے آتی ہے اور سب سے آخر میں جاتی ہے۔ جب کبھی کتا گاڑی ( قیدیوں کو لانے والی پولیس وین ) کچہری میں نمودار ہوتی ہے ، وہ اس کی طرف دوڑتی ہے اور اپنے کمزور کندھوں سے قیدیوں کے مرد رشتے داروں کے درمیان سے راستہ بناتی ہے۔ بعض اوقات وہ کامیاب ہوجاتی ہے، کبھی لڑکھڑا کر پتھریلی سڑک پر گر پڑتی ہے۔

’’چپراسی کے کہنے کے مطابق مقامی تھانے نے اس کے بیٹے کو اٹھا لیا تھا کیوں کہ اس نے انھیں اس دکان سے مفت پھل دینے سے منع کردیا تھا جہاں وہ ملازم تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں ایک پولیس اسٹیشن سے دوسرے پولیس اسٹیشن تک گئی لیکن ہر ایک نے اسے اپنی تحویل میں لینے سے انکار کیا۔
یہاں تک کہ وہ بالآخر اس پولیس اسٹیشن پر واپس پہنچی جو پھلوں کی دکان کے برابر تھا اور تھانیدار کے دفتر کے سامنے سیڑھیوں پر بیٹھ گئی اور بلند آواز میں گریہ کرنے لگی۔ اس نے موٹی توند والے پولیس افسر کو اپنی جانب متوجہ کرلیا جس نے عمومی انداز میں کہا، ’’ وہ چور ہے۔ اس نے چوری کی سائیکل خریدی تھی۔ اس سے کہو ہمیں سائیکل دے دے تب وہ آزاد ہوسکتا ہے۔‘‘

بوڑھی عورت کو صدمہ پہنچا اور وہ الجھن میں پڑ گئی۔

’’وہ چور نہیں ہے! اس کے پاس رقم ہی نہیں ہے تو وہ سائیکل کیسے خرید سکتا ہے؟ میرے ساتھ میرے گھر چلو اور خود دیکھ لو کہ وہاں کوئی سائیکل نہیں ہے ، وہ بے گناہ ہے۔‘‘ ڈھیلے ڈھالے افسر نے اس کی جانب اپنی پشت کرتے ہوئے کہا ’’ صبح کچہری جاؤ اور مجسٹریٹ کے سامنے اس کی بے گناہی ثابت کرو اور ہم اسے رہا کردیں گے۔‘‘

میں نے چپراسی سے پوچھا کہ ’’ اس نے وکیل کیوں نہیں کیا۔ کیوں کسی نے اس کی مدد نہیں کی؟ ‘‘ اس نے مجھے بتایا کہ ’’ وکیل کرنے کے لیے اس کے پاس رقم نہیں تھی ، وہ عدالت کے ایک دلال کے چنگل میں پھنس گئی جس نے اس کے بیٹے کو رہا کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے اپنی ہر چیز بیچ دی اور اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کے لیے خود کو بیچنے پر تیار ہوگئی تھی، لیکن شاید یہ کافی نہیں تھا۔ اس بہانے دلال نے اس سے آخری پائی تک ہتھیا لی۔‘‘

جب اس کے ساتھ یہ کھیل کھیلے جا رہے تھے تو وہ بے یار و مدد گار خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی کیونکہ نظام بغیر دکھ یا گریہ کے دولت مند اور خوبصورتی کی جانب جھک جاتا ہے۔ ایک پجیرو آئے گی اور ایک پجیرو جائے گی، ایک لینڈ کروزر آئے گی اور ایک لینڈ کروزر جائے گی۔ پولیس اور عدالت کے چھوٹے ملازم بانسری کی دھن پر رقص کریں گے۔ ہتھکڑیاں زمین پر گر جائیں گی۔ مقدمات ہوا میں بکھر جائیں گے۔

وہ دیکھتی ہے مجرم کالے کوٹ والے کے ساتھ کسی کمرے میں داخل ہوتا ہے اور آزاد ہوکر باہر آجاتا ہے۔ اس لیے اس نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کالا کوٹ پہن کر جو اس نے لنڈا بازار سے خریدا تھا، وہ اپنے بیٹے کو آزاد کرانے قابل ہوجائے گی۔ اس کا گریہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا جب اس کی آنکھیں نم اور خونخوار ہوگئیں۔ اس کے جھریوں بھرے چہرے سے آنسو ٹپک رہے تھے، اس کے پنجر نما ہاتھ لرز رہے تھے، اس کے نتھے پچک رہے تھے۔ اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس کی آواز جذباتی ہورہی تھی۔ جب وہ بولی تو آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی لیکن اس کے کھردرے لہجے کے نیچے سے آپ اندازہ لگا سکتے تھے کہ اس نے کہا، ’’ تم سب ایک جیسے ہو۔‘‘

اس کی آواز ایک بوڑھے آدمی کی تلاوت میں گم ہوگئی جو نزدیک آرہا تھا۔ اس نے سفید شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور گردن کے گرد لاتعداد رنگوں کے منکوں کی مالائیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے ایک ہاتھ روحانی پیشواؤں جیسا عصا تھا۔

اس نے بلند آواز میں پڑھا:

چل بھلیا چل اوتھے چلیے جتھے سارے انے

نہ کوئی ساڈی ذات پچھانیں، نہ کوئی سانوں منے

حق اﷲ، اﷲ ہو (صوفیوں کا نعرہ)

اس نے عصا زور دار آواز کے ساتھ سڑک کے کنارے راہگیروں کی پٹری پر مارا۔ اس کا چہرہ بہت تابندہ اور میں نے محسوس کیا کہ میں خود اس کی جانب کھنچا جارہا ہوں۔ وہ ہماری میز پر آکر رکا اور نرم آواز میں اﷲ ہو، اﷲ ہو، اﷲ ہو کی گردان کرتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ عورت اس کے پیچھے روانہ ہوگئی اور اس کے ساتھ اﷲ ہو، اﷲ ہو کی گردان کرنے لگی۔ وہ اپنا مقدمہ ایک دوسری عدالت میں لے جارہی تھی۔ اﷲ کی عدالت۔

یہ کہانی پڑھ کر پہلی بار اندازہ ہوا کہ غریب اور مظلوم انسان کو جب انسانوں کی عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا تو وہ اپنا مقدمہ اﷲ کی عدالت میں لے جانے پر کس طرح مجبور ہوجاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment