گزشتہ قسط کا اختتام حجاج بن یوسف کی جانب سے خراسان کے لیے ایک نیا والی مقرر کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہوا تھا، جس کا نام تھا قُتیبہ بن مسلم۔ ایک چھوٹے سے قبیلے باہلہ سے تعلق رکھنے والا قُتیبہ پچھلے تمام حاکموں سے مختلف تھا۔ نہ ہی اس کی شہرت سخاوت کی وجہ سے تھی اور نہ ہی وہ شاعروں کی سرپرستی کرنے والا تھا۔ وہ تھا دشمن کے لیے سخت ترین، لیکن اگر کوئی دوستی کا ہاتھ بڑھا دے تو صلح کے لیے بھی تیار۔ وہ اپنے بھائی عبد الرحمٰن کے ساتھ مرو آیا جو اس کا نائب اور دست راست بنا اور پھر صرف 10 سال کے عرصے میں مرو سے لے کر کاشغر تک مسلمانوں کی حکومت تھی۔
کہا جاتا ہے کہ عبد اللہ بن حازم، امیہ بن عبد اللہ بن خالد اور مہلّب بن ابی صُفرہ کے تجربات کی ناکامی کے بعد قُتیبہ کو اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ وہ اہل ہونے کے علاوہ ایک چھوٹے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسے قبیلے سے جس کا خراسان میں باہم متصادم قبائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر اسے ریاست چلانے کے معاملات میں حجاج بن یوسف پر انحصار بھی کرنا پڑتا، جو عراق اور تمام مشرقی علاقوں کا گورنرتھا۔
بہرحال، قتیبہ ایک واضح پالیسی کے ساتھ خراسان آیا۔ یہ پالیسی تھی اسلام کے ذریعے یہاں کے عربوں کو متحد کرنا اور ان کی قیادت کرتے ہوئے اُن علاقوں کو بھی فتح کرنا، جہاں اب تک کامیابی نہیں مل سکی۔
قتیبہ پچھلے حاکموں سے کس طرح مختلف تھا؟ اس کا اندازہ اس کے پہنچتے ہی ہو گیا۔ وہ جب مرو پہنچا تو ایک فوجی مہم کی روانگی کا وقت تھا، قتیبہ نے اس لشکر سے خطاب کیا۔ اس کی پہلی تقریر میں نہ کسی قبائلی عصبیت کا ذکر تھا اور نہ ہی کسی نسلی برتری یا کمتری کا۔ اس کی باتیں تمام مسلمانوں کے لیے تھیں، چاہے عربی ہوں یا عجمی اور زور تھا اسلام کے نظریہ جہاد پر۔
یہی وجہ ہے کہ قتیبہ کی آئندہ فتوحات میں ہمیں مقامی مسلمانوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔ بلکہ یہ مقامی مسلمانوں ہی کی معلومات تھی جس نے وسطِ ایشیا کی فتح میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔ یہ سب ممکن ہوا قتیبہ کے انداز کی بدولت، اس نے کسی قبائلی عصبیت کو جنم نہیں لینے دیا، عربی اور عجمی کی تقسیم کے بغیر کام کیا، سب کو ساتھ لے کر چلا اور ماورا النہر کے ان علاقوں تک بھی اسلام پہنچایا جہاں اب تک ایسا نہیں ہو پایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی عرصے میں اسلام کا پرچم چین کی سرحدوں تک پہنچ گیا۔
قتیبہ ہر بہار کے موسم میں مرو میں اپنی فوج جمع کرتا اور مہم پر نکل پڑتا اور خزاں میں واپس آتا۔ یہ وہ مہمات تھیں جو اب تک سب سے مشکل تھیں، خونریز ترین بلکہ خلافتِ راشدہ کے زمانے میں شروع ہونے والی فتوحات سے لے کر اب تک سب سے تباہ کُن جنگیں۔
پہلے قدم طخارستان میں
قتیبہ کی پہلی مہم طخارستان کی جانب تھی۔ یہ آمو دریا کی بالائی وادی ہے اور ہندو کش اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں کے بیچ میں واقع ہے۔ یہ بدخشان کے پہاڑوں سے بامیان تک پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ آسان الفاظ میں کہیں تو جو علاقہ آمو دریا سے جنوب میں تھا، وہ طخارستان تھا یعنی موجودہ افغانستان کا بہت بڑا علاقہ۔
یہاں کا سب سے اہم اور بڑا شہر بلخ تھا، وہی بلخ جو اگلی کئی صدیوں اسلامی دنیا کا نمایاں ترین شہر رہا۔
قتیبہ کی اس مہم کا مقصد فی الحال علاقہ فتح کرنا نہیں بلکہ مقامی سرداروں کے ساتھ مصالحت کرنا تھا۔ وہ بلخ پہنچا، پھر آمو دریا پار کیا اور مختلف سرداروں سے ملتا اور معاہدہ کرتا گیا، یہاں تک کہ سردیوں کے موسم میں مرو واپس آیا۔
فتحِ پیقند
اگلے سال یعنی 706ء میں قتیبہ نے بخارا اور امول کے درمیان واقع اہم شہر پیقند کو فتح کرنے کے لیے قدم بڑھائے۔ یہ دریائے زرفشاں کے ساتھ بہت زرخیز علاقے میں واقع تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ یہاں کے تاجر چین آتے جاتے رہتے تھے۔ قتیبہ نے اس شہر کو با آسانی فتح کیا اور اپنا حاکم مقرر کر کے ابھی آمو دریا بھی پار نہیں کیا تھا کہ شہر میں بغاوت ہو گئی۔ پتہ چلا کہ قتیبہ کی جانب سے مقرر کیے گئے حاکم کو بھی قتل کر دیا گیا۔
اس حرکت کے بعد قتیبہ نے پیقند کو ایسا سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جو پورے سغدیہ کے لیے عبرت کا نشان ہو۔ اس نے ایک مہینے تک شہر کا محاصرہ کیا اور بالآخر کامیابی حاصل کی۔ پھر جو خطرہ تھا وہی ہوا، شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ بہت مالِ غنیمت ہاتھ آیا، جس میں سونا، چاندی اور ریشم کے علاوہ کبوتر کے انڈوں کے برابر دو موتی ملے۔ یہ موتی قتیبہ نے حجاج بن یوسف کو تحفہ بھیجے۔
سال 707ء سے 709ء تک مسلمانوں نے ماورا النہر میں کئی کارروائیاں کیں، لیکن کچھ خاص فتوحات ہاتھ نہیں آئیں اور پھر ایک بڑی کامیابی ملی، ماورا النہر کا ایک اہم شہر بخارا فتح ہو گیا۔
فتحِ بخارا
بخارا کے حاکم نے مسلمانوں کا لشکر دیکھنے کے بعد ارد گرد کی ریاستوں کی مدد طلب کی تھی، جن میں سے ایک بڑے لشکر کو قتیبہ کے ہاتھوں بُری طرح شکست ہوئی۔ جب مدد کے لیے بلائے گئے اتحادی ہی شکست کھا گئے تو بخارا نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہی نہیں بلکہ سغدیہ کا سب سے بڑا سردار تارخون خود چل کر بخارا آیا اور قتیبہ سے صلح کا معاہدہ کیا۔
یہ بہت بڑی کامیابی تھی جس سے قتیبہ کا حوصلہ بہت بڑھ گیا۔ اس نے اگلا سال یعنی 710ء باغی سرداروں کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔ ان میں سب سے نمایاں سردار تھا نیزک۔ اس کا گڑھ بلخ تھا۔ اس نے ارد گرد کی تمام ریاستوں مرو رُود، تالیقان، فاریاب اور جوزجان کے سرداروں کو ساتھ ملا کر ایک بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کی تھی۔ لیکن قتیبہ کی انٹیلی جینس بہت کمال کی تھی۔ اس نے وقت سے پہلے اس سازش کا پتہ چلا لیا اور انتظار نہیں کیا بلکہ سردیوں میں ہی 12 ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر بلخ کی جانب روانہ کر دیا۔ پھر بہار کی آمد کے ساتھ ہی قتیبہ ایک بڑی فوج کے ساتھ طخارستان پہنچ گیا۔ پہلے ان چاروں سرداروں کی سرداری کا خاتمہ کیا اور پھر بلخ پہنچا۔ نیزک صورت حال دیکھ کر بھاگ نکلا اور بڑی کوششوں کے بعد پکڑا گیا۔
فتحِ سمرقند
پھر سال 712ء میں قتیبہ نے سمرقند بھی فتح کر لیا۔ ماوراء النہر کا سب سے بڑا شہر اب مسلمانوں کے پاس تھا۔ یہ وہی سال تھا جس میں طارق بن زیاد نے اسپین میں وادئ لکہ کے معرکے میں عظیم کامیابی حاصل کی تھی اور یہی وہ سال تھا جس میں محمد بن قاسم نے سندھ کی فتح مکمل کی۔ یعنی 712ء مسلم تاریخ کا ایک نمایاں سال تھا۔
سمرقند پورے خطے کا سب سے بڑا اور طاقتور شہر تھا اور سغدیہ کا غیر علانیہ دار الحکومت تھا۔ جو اس شہر کا حاکم ہوتا، باقی تمام حاکم اس کی سرداری قبول کرتے۔ یہ شہر آج بھی موجود ہے، بلکہ 1220ء میں چنگیز خان کے تاتاری لشکروں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد دوبارہ آباد ہوا۔ تیمور لنگ کے دور میں یہ عظمت کی بلندیوں تک پہنچا۔ تب وہ دنیا کے بہترین شہروں میں سے ایک تھا۔ اسے آج بھی دنیا کا سب سے پرانا شہر سمجھا جاتا ہے جو زمانہ قدیم سے آباد ہے۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس شہر کی بنیادی کب پڑیں، لیکن اندازہ ہے کہ یہ آٹھویں صدی قبلِ مسیح سے آباد ہے۔
آجکل سمرقند ازبکستان کا حصہ ہے۔ اس کی آبادی 5 لاکھ سے زیادہ ہے بلکہ اگر نواحی علاقے بھی ملائے جائیں تو یہ آبادی تقریباً 10 لاکھ تک جا پہنچتی ہے۔
خیر، جب قتیبہ نے حملہ کیا تھا تو سمرقند پر ایک بادشاہ غورق کی حکمرانی تھی۔ مسلمان تقریباً 20 ہزار کا لشکر لے کر یہاں پہنچے تھے۔ ماورا النہر میں کبھی کسی نے اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا تھا۔ لشکر میں خوارزم اور بخارا کے مقامی باشندوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے غورق نے تاشقند اور فرغانہ کے حاکموں سے مدد طلب کی لیکن قتیبہ کی انٹیلی جینس نے اس کا بھی پتہ چلا لیا اور وقت سے پہلے ہی مددگار لشکر کا خاتمہ کر دیا۔ سمرقندیوں کے حوصلے بُری طرح ٹوٹ چکے تھے لیکن محاصرہ مہینہ بھر جاری رہا۔ جب انہیں لگا کہ اب شہر فتح ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تو بھاری سالانہ خراج کے بدلے صلح کر لی۔
لیکن قتیبہ نے معاہدے میں بہت کڑی شرائط رکھیں، جن میں مسجد کا قیام اور ساتھ ہی پرانے آتش کدوں کی تباہی اور بتوں کے توڑنے کا حکم بھی شامل تھا۔ سمرقندیوں نے بڑی منتیں کی، کہ ایسا نہ کریں بلکہ قتیبہ کو ڈرایا بھی کہ جو ایسا کرے گا، وہ خود بھی تباہ ہوگا لیکن قتیبہ نے کسی کی نہ سنی اور یوں بت فروش کے بجائے بت شکن بنا، محمود غزنوی سے کہیں پہلے۔
پھر سمرقند میں 4 ہزار عرب سپاہیوں پر مشتمل ایک چھاؤنی بنائی گئی، جس کی قیادت عبد الرحمٰن کو سونپی گئی۔ یوں یہ شہر مسلمانوں کا گڑھ بن گیا۔
قتیبہ نے ایسا پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ عموماً وہ علاقہ فتح کرتا تھا اور بھاری خراج کی شرط کے ساتھ واپس اسی حاکم کے حوالے کر دیتا لیکن سمرقند میں قتیبہ نے باقاعدہ شہر میں عرب افواج رکھنے کا فیصلہ کیا۔
مسلمانوں کے قدم کاشغر تک
سن 713ء اور 714ء میں شاش اور فرغانہ کی جانب دو مہمات کی گئی اور مسلمانوں کے قدم کاشغر تک پہنچے۔ اب اموی حکومت کی سرحدیں چین سے جا ملی تھیں، جہاں تانگ خاندان کی حکومت تھی۔ 713ء میں ایک عرب وفد چین بھی بھیجا گیا۔ ان کی چینی دربار میں حاضری کے موقع پر بڑا مسئلہ کھڑا ہوا، جب مسلم وفد نے چین کے بادشاہ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ بہرحال، یہ سفارت کامیاب رہی اور ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔
آخری غلطی
پھر سال 715ء آ گیا، قتیبہ کا آخری سال، اُس کی عظیم فتوحات کا خاتمہ ہوا، چین کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے ہی مسلمانوں اور سیاسی ریشہ دوانیوں کے ہاتھوں۔
قتیبہ نے اب تک جو فتوحات حاصل کی تھیں، ان میں سب سے اہم کردار مرکز سے ملنے والی بھرپور تائید کا۔ حجاج بن یوسف سے براہِ راست اور اُس کے ذریعے خلیفہ ولید بن عبد الملک سے۔ لیکن 714ء میں حجاج اور 715ء کے اوائل میں ولید بن عبد الملک دونوں کا انتقال ہو گیا۔ اب نیا خلیفہ تھا سلیمان بن عبد الملک۔ وہی سلیمان جس کی مہلّب خاندان سے بڑی قربت تھی، جسے قتیبہ نے خراسان سے نکال دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ولید بن عبد الملک نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ بھائی سلیمان بن عبد الملک کے بجائے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنائے۔ اس کوشش میں حجاج اور قتیبہ اُس کے حامی تھے۔ حجاج تو سلیمان کے خلیفہ بننے سے پہلے ہی مر گیا، لیکن سلیمان نے اِس کا بدلہ حجاج کے مقرر کیے گئے تمام والیوں سے لیا۔ ان میں فاتح سندھ محمد بن قاسم بھی شامل تھے اور فاتح اسپین موسیٰ بن نُصیر بھی۔
قتیبہ کو خطرے کی بُو پہلے ہی محسوس ہو گئی تھی۔ وہ ایک جہاندیدہ شخص تھا، جان گیا تھا کہ اب اُس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اس لیے اپنے خاندان کو احتیاطاً فرغانہ بجھوا دیا تاکہ اُن تک پہنچنا آسان نہ ہو۔ پھر اپنی قریبی ساتھیوں کو آئندہ کی صورت حال سے آگاہ کیا اور ان کی مدد کا طالب ہوا۔ اپنے خطاب میں اس نے اپنے کارنامے بھی گنوائے اور اپنی سخاوت کی بھی یاد دلائی، لیکن کوئی قائل نہیں ہوا۔ یعنی قتیبہ بہت بڑی غلطی کر چکا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے جانباز سپاہی وفاداری کا ثبوت دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ دیکھ کر قتیبہ نے ہر قبیلے کا نام لے کر ان کی خوب تذلیل کی یعنی حمایت کا جو امکان رہ گیا تھا، وہ بھی اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔
715ء، غم کا سال
اب قتیبہ واقعی تنہا رہ گیا۔ بالآخر قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھنے والے وکیع بن حسان نے قتیبہ کو قتل کر دیا، نہ صرف اسے بلکہ اُس کے بھائیوں عبد الرحمٰن اور صالح کو بھی۔ یہ سال 715ء تھا، وہی سال جس میں مشرق کی جانب عظیم فتوحات کرنے والے محمد بن قاسم اور قتیبہ بن مسلم دونوں اپنوں ہی کے ہاتھوں مارے گئے۔ محمد بن قاسم قید میں اور قتیبہ فرغانہ کے دور دراز علاقے میں اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں، اپنے ہی گھر میں۔ یعنی کہ واقعی غم کا سال تھا۔
قتیبہ بلاشبہ کفار کے خلاف جنگوں میں مسلمانوں کا ایک عظیم سالار تھا، لیکن قبائلی عصبیت کا خاتمہ کرنا غالباً اُس کے بس کی بات نہیں تھی، بلکہ شاید کسی کے بس کی بھی نہیں۔ قتیبہ کے بعد اگلے کئی سال تک وسطِ ایشیا میں مسلمانوں نے کوئی بڑی فتح حاصل نہیں کی بلکہ ایک کے بعد دوسری بغاوت اٹھتی رہی، جنہیں کچلتے کچلتے خود بنو امیہ کی حکومت کا ہی خاتمہ ہو گیا۔
تبصرہ لکھیے