میں نے زاہد کا ہاتھ پکڑا اور اسے مسجد کے ایک کونے میں لے گیا۔ تم اپنی کہہ چکے اب میری سنو زاہد ، میں نے زاہد کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات شروع کی۔ اس دھرتی زمین کے اوپر آسمان کے نیچے اس کائنات کی سب سے مظلوم اور مجبور مخلوق علماء حق ہیں۔ مولویوں کے کئی طبقات ہیں۔ ایک طبقہ حلوے مانڈے سے لبریز طبقہ ہے۔ دوسرا گروپ سعودی ریالوں میں نکونک ڈوبا ہوا ہے۔ تیسرا طبقہ چٹائی پر بیٹھ کر روکھی سوکھی کھا کر دین کی خدمت میں دن رات محنت کر رہا ہے۔ اسلام دشمنوں کے سارے تیروں کا رخ اسی طبقہ کی طرف ہے۔ لبرل اور سیکولر لوگ انھی علماء حق کو دن رات گالیاں دینے میں مصروف ہیں۔ ٹی وی اینکرز اور سیکولر لکھاری انھی علماء اکرام پر بہتان باندھ کر ڈالرز اور پاؤنڈز کما رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فیک ویڈیوز اور جھوٹی خبریں انھی علماء کرام کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے پھیلائی جا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اسی طبقہ کے سیاسی ونگ کے سربراہ ہیں۔ بیٹا ! یوں لگتا ہے کہ تم اسی میڈیا پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر طنزا سوال کر رہے ہو کہ مولانا کو کیا ملا ہے۔ جبکہ مولانا کی پچھلی چار سالہ ساری جدوجہد بہت شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ مولانا کی شاندار کامیابی کے بعد یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے کہ مولانا کو کیا ملا ہے۔
انکل جی ! مسجد میں بیٹھ کر میں حلفا کہتا ہوں کہ میں میڈیا کے پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوں ، یہ میری ذاتی سوچ ہے۔زاہد نے میرے گھٹنے کو دباتے ہوئے احترام بھرے لہجہ میں کہا۔
اگر تم مولانا کے خلاف میڈیائی پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہوتو پھر ، زاہد تم مولانا کی چار سالہ جدوجہد اور کامیابی کو سمجھنے میں غلطی پر ہو۔ میں نے زاہد کی داڑھی کو پیار سے چھوتے ہوئے کہا۔
سنو زاہد ! مولانا کی ساری جدوجہد صدارت اور وزارت کے لیے نہیں تھی۔ میں تمھیں مثال دیکر سمجھتا ہوں تاکہ تمھیں سمجھنے میں آسانی ہو۔ ایک گھر میں گھر والوں کے مخالفین نے ایک پاگل ہاتھی گھسیڑ دیا تھا۔ یہ پاگل ہاتھی گھر کی ہر چیز کو بری طرح توڑ پھوڑ رہا تھا، حتی کہ گھر کی دیواریں گر جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ چونکہ اس ہاتھی کو گھر سے نکالنا مقصود تھا، گھر کی حفاظت کی خاطر پاگل ہاتھی کو گھر سے نکالنے کے لیے ہر شخص کی معاونت حاصل کرنا ضروری تھا۔ پاکستان ہمارا گھر ہے اور اس گھر کے نظریاتی حدود کے چوکیدار مولانا فضل الرحمان ہیں۔ نظریاتی تباہی و بربادی پھیلانے والے ہاتھی کو گھر سے نکالنے کے لیے مولانا استعمال نہیں ہوئے بلکہ آصف زرداری اور نواز شریف کو استعمال کیا ہے۔ تم نے خود اعتراف کیا ہے زاہد ، مولانا نے اکیلے عمران خاں کی چھٹی کرائی ہے۔ ساری جدوجہد کا جو مقصد تھا وہ مولانا سو فیصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔صدارت ، وزارت مولانا کی جدو جہد کے مقصود ہی نہ تھے۔ اس لیے یہ سوال بنتا ہی نہیں ہے کہ مولانا کو کیا ملا ہے۔
آگے ذرا غور سے سنو زاہد ! مولانا عالمی سطح کے ذہین ترین سیاست دان ہیں۔ مولانا سے بہتر عالمی سیاست کی گیرائی اور گہرائی کو کوئی دوسرا نہیں سمجھتا ہے۔ مولانا جانتے ہیں کہ سارے عالم اسلام کے کلیدی عہدیداران امریکہ کے نامزد کردہ ہیں۔ مگر میسر حالات میں انھی امریکی نمائندوں کے ساتھ رہنا ، انہیں برداشت کرنے اور ان کے ساتھ معاملات کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل ہے ہی نہیں۔ اور پھر عوام بھی انھی امریکی ایجنٹس کو ووٹ دیتے ہیں۔ عوام چوہتر سالوں سے اسلام پسند طبقہ ( علماء حق ) کو ٹھکرا کر لبرل اور سیکولر سیاست دانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ علماء حق کی مجبوری سمجھو زاہد۔ عوام ووٹ نہیں دیتے ، سیکولر لوگ ہمیشہ حکومت میں رہتے ہیں۔ انھی کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی جگہ بنانا ہے. پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا کس قدر دشوار ترین کام ہے ، جو علماءکرام جانفشانی سے سر انجام دے رہے ہیں۔
زاہد بیٹا ! میں نے شروع میں کہا تھا کہ علماء حق اس زمیں کے اوپر اور آسمان کے نیچے سب سے مجبور اور مظلوم مخلوق ہیں۔ علماء حق حالات کے جبر اور اغیار کے مظالم برداشت کرتے ہوئے جس جوانمردی کے ساتھ پاکستان کی نظریاتی حفاظت اور عوام کی دینی راہنمائی فرما رہے ہیں۔ یہ انہی اللہ کے شیروں ( علماء حق ) کا خاصا ہے۔ علماء حق نے ہمیشہ ہی اپنی ایمانی قوت کے بھروسا پر اپنی مجبوری اور عالمی استعمار کے ظلم کو راہ کی رکاوٹ بننے نہیں دیا ہے۔ اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے سہارے ہر بار اپنی جدوجہد میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے ان ہی درویشوں کے سیاسی ونگ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں۔ مولانا نے کھویا کچھ نہیں پایا سب کچھ ہے زاہد ذرا غور کرو۔
تبصرہ لکھیے