ہوم << دوڑ لگاتا انقلاب - عبداللہ طارق سہیل

دوڑ لگاتا انقلاب - عبداللہ طارق سہیل

وہی ہوا جس کا ڈر تھا انہیں جس کا یقین تھا یعنی پٹرول کے دام یک دم 30 روپے کے حساب سے بڑھ گئے۔ یہی نہیں۔ آج کل میں بجلی کے نرخ میں بھی تسلی بخش اضافہ ہونے والا اور بات یہیں پر نہیں رکے گی بلکہ پٹرول کے نرخوں میں مزید ستراسی روپے کا اضافہ قسطوں میں ہونا ہے اور جیسا کہ سنا جا رہا ہے.

پٹرول کو اڑھائی سو روپے تک لے جایا جائے گا۔ یعنی یہ جو 30 روپے بڑھے ہیں‘ محض آغاز ہے اس مثنوی زھر عشق کا جو نواب شوق لکھنوی‘ معاف کیجئے گا‘ نواب شوکت ترین نے اپنی حکومت کے الوداعی دنوں میں لکھی تھی۔ اس میں بہت کچھ قول و قرار شامل ہیں جو موجودہ حکومت پورے کرنے کی پابند ہے۔ سابق حکومت نے اپنے آخری دنوں میں وہی کیا جو زھر عشق والے (بلکہ والی) نے کیا تھا۔

پان کل کیلئے لگائے جائیں

یاد اپنی تمہیں دلاتے جائیں

چنانچہ جو پان لگا گئے‘ وہ شہباز حکومت کو کھانے پڑیں گے‘ عوام کی ”بددعائیں“ جو جانے والوں کو ملنا تھیں‘ اب نہیں ملیں گی۔ نالہ لئی کے علاقائی ”ولی“ شیخ رشید نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ہمارا ملبہ ان پر گرے گا اور یہ اس میں دب کر رہ جائیں گے۔

یہ حکومت پچھلوں کے ملبے میں دب کر رہ جائے گی یا نہیں‘ یہ تو ابھی دیکھنے والی بات ہے۔ کچھ دنوں یا ہفتوں میں پتہ چل جائے گا کہ اس بندوبست کی مدت کتنی ہے۔ ڈور ملنی ناخدا¶ں کے ہاتھ میں ہے‘ ان کا فون آج کسی ایک اتحادی کو آ جائے تو یہ بندوبست کل ہی رخصت ہو جائے لیکن لگتا ہے‘ ابھی آٹھ چھ مہینے تو کارکردگی ”نیک مطلوب“ رہے گی۔ درست عوامی محاورے کے مطابق نیک مطلوب چاہی جاتی رہے گی۔

حکومت نے وسیع تر قومی مفاد میں عوامی مفاد کی قربانی دے کر اچھا بچہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن یہی حکومت ماضی میں ریلیف کے وعدے کرتی رہی ہے۔ اجازت ہو تو یاد دلا دیئے جائیں؟چلئے رہنے دیتے ہیں۔ پرانے وعدے رات گئی بات گئی کی طرح ہوتے ہیں اور چودھری شجاعت جیسے سیانوں کا مشورہ ہوتا ہے کہ چھوڑو جی ان پر مٹی‘ پا¶۔

لیکن کیا مضائقہ ہے کہ بعض دوسری مدوں میں عوام کو کچھ سہولت دے دی جائے۔ مثلاً گھی کی قیمت اب برداشت سے باہر ہے بلکہ کچھ اضافی ٹیکس کا مسئلہ ہے اور کچھ مل اونرز کی لوٹ مار کا۔ حکومت چاہے تو کچھ منت ترلہ اور کچھ ٹیکس کم کرکے نرخ کم کرا سکتی ہے۔ کہاں چار سال پہلے کی بات کہ گھی ڈیڑھ سو روپے کلو تھا اور کہاں یہ کہ اب چھو سو روپے کلو ہونے میں بس کچھ ہی کسر رہ گئی ہے۔ وزیراعظم نے کل خطاب میں غریب آدمی کیلئے جو پیکج دیا‘ اچھا ہے لیکن مڈل کلاس بھی بری طرح سے پٹ رہی ہے کچھ توجہ اس پر بھی ضروری ہے۔

چودھری شجاعت نے قاف لیگ کے سربراہ ہیں‘ اعتراف کیا ہے کہ ہم نے قائد کی امانت میں خیانت کی۔ آپ نے فرمایا کہ عدلیہ اور فوج مل کر ملکی مسائل کے حل کیلئے تجاویز دیں۔ ملک لا الہ الا اﷲ کیلئے حاصل کیا گیا تھا۔ ”ہم“ سے کیا مراد ہے‘ چودھری صاحب کو اس کی وضاحت جلد از جلد کرنی چاہئے ورنہ عوام ازروئے گرامر ہم سے مراد ”قاف لیگ“ ہی لیں گے کیونکہ میں اور ہم کسی ممیز کا مضار الیہ ہمیشہ بولنے والا ہوتا ہے۔ انہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ ”ہم“ سے مراد نواز لیگ ہے اور وضاحت وہ خود بوجوہ نہ کرنا چاہیں تو پرویز الٰہی سے کرا دیں۔

ان کا یہ کہنا ہے کہ ملک کلمہ طیبہ کیلئے حاصل کیا گیا تھا‘ قابل خیرمقدم ہے اس لئے کہ ماضی میں قاف لیگ کا عملی اعلان کچھ یوں لگتا تھا کہ ملک پرویز مشرف کے مارشل لاءکیلئے لیا گیا تھا اور اسی لئے وہ پرویز مشرف کو وردی میں مزید دس بار منتخب کرانے کے اعلانیہ عہد کیا کرنا تھی۔ دس بار صدر منتخب کرانے کا مطلب 50 سال کیلئے صدر بنانا ہی ہو سکتا تھا۔ یہ 2007 ءکی بات ہے یعنی اس لحاظ سے انہیں 2057 ءتک صدر رہنا تھا لیکن افسوس کہ وہ اپنی مدت پوری ہونے سے 49 برس پہلے ہی قاف لیگ‘ حکومت و صدارت کو داغ مفارقت دے گئے۔ حسرت اس غنچے پہ ہے جو بن کھلے مرجا گیا۔

پارلیمنٹ کو معطل کرنے کا شجاعت کا مطالبہ البتہ ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے فرمایا‘ مسائل کا حل فوج اور عدلیہ تجویز کریں۔ جو کچھ تجویز کرنے کی تجویز وہ ان دو اداروں کو دے رہے ہیں‘ وہ پارلیمنٹ کا کام ہے۔ ان اداروں کا کام اور ذمہ داری بالترتیب دفاع اور انصاف کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ چودھری صاحب کو اپنی تجویز واپس لینے کی تجویز دے۔
محترمہ مریم نواز صاحبہ نے کہا ہے کہ ایسے انقلاب کو مر جانا چاہئے جو پولیس کو دیکھ کر دوڑ لگا دے۔ مریم صاحبہ نے یک طرفہ اور جزوی تصویر پیش کی ہے جس کی وجہ سے عوام میں انقلاب کے بارے میں گمراہ کن خیالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ان کے بیان سے لگتا ہے کہ انقلاب نے صرف دوڑ لگائی۔

پوری تصویر یہ ہے کہ انقلاب نے دوڑ بعد میں لگائی‘ درختوں کو آگ پہلے لگائی۔ یعنی خالی خولی دوڑ نہیں لگائی‘ کچھ کر کے ہی لگائی۔ ریکارڈ کی درستگی کیلئے یہ سطریں لکھنا پڑیں۔ محترمہ مریم صاحبہ کا یہ بیان اصل میں جوابی نوعیت کا ہے۔ محترم عمران خان نے پشاور میں فرمایا تھا کہ جو قوم پرامن احتجاج نہ کر سکے اسے مر جانا چاہئے۔ قوم سے کیا مراد تھی‘ واضح نہیں ہو سکا۔ ساری قوم کو مشورہ تھا یا محض اس قوم کو جس نے دوڑ لگا دی؟ چند روز پہلے محترم نے فرمایا تھا کہ چوروں کی حکومت بنانے سے بہتر تھا کہ اس ملک پر ایٹم بم پھینک دیا جاتا۔یہ بیان محترمہ کے حوالے سے ہیں‘ یوم تکبیر کی وجہ سے یاد آیا۔ کہیں غلط فہمی نہ ہو جائے‘ اس لئے یہ سطر لکھ دی۔

Comments

Click here to post a comment