ہوم << زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا،سزا دو - محمد اکرم چوہدری

زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا،سزا دو - محمد اکرم چوہدری

یاسین ملک کشمیر کی آزادی کا ایسا ہیرو ہے جس نے قید میں رہ کر بھی آزادی کا مقدمہ اس انداز سے لڑا ہے کہ جب بھی آزادی کے متوالوں کی تاریخ لکھی جائے گی یاسین ملک کا نام ہمیشہ نمایاں نظر آئے گا۔ یاسین ملک بھارتی ظلم و بربریت کے سامنے عزم و استقلال کا ایسا شاندار باب ہے جو ہر دور میں میذب دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا۔ بھارت نے دہائیوں سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کو سلب کر رکھا ہے۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے لیکن عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی کبھی بھارتی اقدامات کی مذمت نہیں کی، کبھی کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم نہیں کیا، کبھی کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لیے عملی کام نہیں کیا، کبھی کشمیریوں کی آزادی کے لیے بھارت پر دباؤ نہیں ڈالا اس ظلم و بربریت کی تازہ مثال حریت رہنما، بہادر، جرات مند، غیرت مند اور حقیقی آزادی کے مجاہد یاسین ملک کو دی جانے والی عمر قید کی سزا ہے۔

یاسین ملک نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں کئی برسوں سے قید ہیں۔ گذشتہ روز یاسین ملک کو محمد یاسین ملک کو دلی کی پٹیالہ کورٹ میں پیش کیا گیا اس موقع پر استغاثہ نے سزائے موت کے حق میں دلائل پیش کیے۔ دلائل کے بعد جج نے سماعت سہ پہر تک ملتوی کر دی گئی۔یاسین ملک کو انیس مئی کو انڈیا کی ایک خصوصی عدالت نے بغاوت، وطن دْشمنی اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیا تھا۔ یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے پیشِ نظر سرینگر میں نقل و حرکت محدود ہو گئی۔ تجارتی مرکز لال چوک سمیت شہر کے بیشتر علاقوں میں ہڑتال کے باعث تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔ سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی۔ گذشتہ برس حریت رہنما یاسین ملک نے اس کیس میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہونے والی ایک سماعت کے دوران وکیل کی مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے خود گواہوں پر جرح کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارتی نظام انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہی یاسین ملک نے کسی بھی وکیل کی مدد نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

بھارتی عدالت کا یہ فیصلہ انصاف اور قانون کی توہین ہے۔ یہ صرف اور صرف کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے اور کشمیریوں کی جنگ آزادی کو دبانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ بھارت اس کیس اور اس عدالتی فیصلے کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ کسی صورت کشمیر سے دستبردار ہو گا نہ ہی اس معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اہمیت دے گا۔ یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سے کشمیریوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ آزادی کی خواہش رکھنے والے ہر کشمیری کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ یاسین ملک کی ساری زندگی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد میں ہی گذری ہے۔ انہوں نے ہر طریقے سے بھارت کے کشمیر پر قبضے کے خلاف جدوجہد کی، انہوں نے کسی بھی موقع پر آزادی کے بنیادی مطالبے پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس مقدمے میں انہیں سزا سنائی گئی ہے اس میں بھی انہیں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، یاسین ملک کو سنا ہی نہیں جاتا تھا۔ وہ کشمیر کی آزادی کے لیے لڑتے لڑتے خود ہمیشہ کے لیے قید ہو گئے ہیں۔ بھارت کا یہ اقدام انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کے لیے کافی ہے۔ بنیادی طور پر یہ سزا آزادی کی تحریک چلانے اور پرامن رہتے ہوئے بھارت کے ظالمانہ اقدامات کو دنیا کے سامنے بینقاب کرنے کے جرم میں دی گئی ہے۔

یاسین ملک کو دہشت گردی فنڈنگ کے جھوٹے کیس میں سزا بھارت کے نظام انصاف پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ سزا سنائے جانے کے موقع پر یاسین ملک کا جج سے مکالمہ تاریخ میں زندہ رہے گا اور یہ قانون پڑھنے والوں اور عدالتوں میں پیش ہونے والوں کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑتا رہے گا۔ یاسین ملک نے کسی بھی قسم کی رعایت کی اپیل کرنے کے بجائے بہادری اور خوش دلی کے ساتھ عمر قید کی سزا کو قبول کیا ہے تاہم اس دوران ان کے ایک ایک لفظ نے بھارت کے نظام انصاف کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یاسین ملک نے جج کہا "میں بھیک نہیں مانگوں گا جو سزا دینی ہے دیں البتہ میرے کچھ سوالات ہیں ان کا جواب چاہتا ہوں، میں دہشت گرد تھا تو بھارت کے سات وزرائے اعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آئے"

"میں دہشتگرد تھا تو کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں فائل نہیں کی گئی، وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا، مجھے انڈیا سمیت دیگر ممالک میں اہم جگہوں پر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟" "میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا،جوعدالت کوٹھیک لگتا ہے وہ کرے" جھوٹے جج کے پاس یاسین ملک کے سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ سوالات ایک امن پسند اور حریت کا جذبہ رکھنے والے ایک کشمیری کے ہیں۔ کشمیر کا ہر بچہ، نوجوان، بوڑھا خواتین سمیت سب آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں کوئی بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔

یاسین ملک کے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں، یاسین ملک کی جدوجہد نوجوانوں میں آزادی کا شوق بڑھائے گی۔ پانچ اگست دو ہزار انیس سے کشمیر میں لاک ڈاؤن، کرفیو جاری ہے۔ لاکھوں کشمیریوں سے معمول کی زندگی چھین لی گئی ہے۔ ان حالات میں یاسین ملک کو سزا بھارتی بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یاسین ملک اس تحریک آزادی کے ہیرو ہیں۔ ان کی جدوجہد نئی نسل کو ابھارتی رہے گی۔ آزادی جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے کے لیے دنیا کی تاریخ میں انسانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ویسے تو بھارتی عدالت نے یاسین ملک کو عمر قید اور دیگر سزائیں سنائی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یاسین ملک کو سنائی جانے والی یہ سزائیں کسی اعزاز سے کم نہیں اور یہ اعزاز بہادروں اور غیرت رکھنے والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ یاسین ملک کی جرات کو سلام ہے۔

اس نے صرف نریندرا مودی ہی نہیں پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ کشمیری کبھی آزادی کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، سزائے موت دیں یا عمر قید آزادی کے لیے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ہم یاسین ملک کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی پر آواز بلند کرنے کے بجائے اقتدار کے لیے ہونے والی جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ہوں محسوس ہوتا ہے کہ صرف کشمیریوں کو ہی نہیں کشمیر کو بھی بھلا چکے ہیں۔ ایک شخص نے تحریک کے لیے اپنا لڑکپن جوانی اور سب کچھ دے دیا اور جس دن اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہم اپنے کاموں میں مصروف تھے۔

Comments

Click here to post a comment