ہوم << داستان قبل از اسلام - فہد کیہر

داستان قبل از اسلام - فہد کیہر

سکندر اور پورس

وسطِ ایشیا ایسا علاقہ ہے جو دنیا کے عظیم ترین برِ اعظم کے قلب میں واقع ہے۔ بہت وسیع رقبے پر پھیلے اس علاقے کا زیادہ تر حصہ میدانی، پہاڑی، صحرائی اور نیم صحرائی ہے۔ بڑا حصہ ایسا ہے جس میں نہ جنگل ہے، نہ ہریالی، البتہ کئی موسمی چراگاہیں ضرور موجود ہیں اور یہی وہ مقامات ہیں جو خانہ بدوشوں کا مسکن اور ان کے قبائل کے درمیان کشمکش کا مرکز رہے ہیں۔ انہی کو حاصل کرنے کے لیے قبائل کے درمیان کئی معرکے ہوئے، جنگ و جدل کے نتیجے میں کئی قومیں برباد ہوئیں اور کئی یہاں آباد ہوئیں۔ چند قومیں ایسی کہ جو دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آئیں اور کچھ وہ کہ جو یہاں سے دوسرے خطوں کی طرف چلی گئیں۔ قوموں کی آمد و رفت کی یہی داستان تاریخ کہلاتی ہے، جس میں ہمارے سلسلے کا دائرہ وسطِ ایشیا کے گرد گھومتا رہے گا۔

وسطِ ایشیا کے ابتدائی باسی

آثارِ قدیمہ کے ماہرین جو اندازے لگاتے ہیں، اُن کے مطابق وسطِ ایشیا میں انسان کا وجود 40 سے 50 ہزار سال پہلے بھی تھا۔ اِس خطے سے جو قدیم ترین آثار ملے ہیں، وہ 45 ہزار سال پرانے ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہاں سب سے پہلے جن لوگوں نے قدم رکھے وہ موجودہ ایران سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ یہ کانسی کا دور یعنی Bronze Age تھا۔ جس کے بعد آہستہ آہستہ اِس خطے کی آبادی بڑھتی چلی گئی۔ چونکہ وسائل محدود تھے اس لیے ایک حد سے زیادہ آبادی یہاں ٹِک نہیں سکتی تھی، اس لیے جہاں ہجرت کر کے لوگ وسطِ ایشیا آتے، وہیں یہاں سے دوسرے علاقوں کی ہجرت کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔

بہرحال، معلوم تاریخ میں وسطِ ایشیا میں ابتدائی زور ایران سے آنے والوں کا تھا، لیکن پھر آہستہ آہستہ ترک غالب آتے گئے، یہاں تک کہ اس خطے میں ترکوں کی اکثریت ہو گئی اور آج بھی یہاں ترک نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔

افسانوی داستانیں

ابو القاسم فردوسی، 'شاہنامہ' کے خالق

ویسے وسطِ ایشیا سے بڑی افسانوی کہانیاں بھی جڑی ہوئی ہیں اور اس کی وجہ ہے فردوسی کا 'شاہنامہ'۔ اس عظیم شاعر نے اپنے مجموعہ کلام 'شاہنامہ' کی وجہ سے لافانی حیثیت پائی لیکن ساتھ ہی بہت سے مغالطوں کو بھی جنم دیا۔ 'شاہنامہ' کے 60 ہزار اشعار میں جو تاریخ پیش کی گئی ہے، اس کا حقیقت سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔ 'شاہنامہ' کہتا ہے کہ ایران کا پہلا حکمران کیومرث تھا، جسے پیشداد بھی کہتے ہیں یعنی قانون دینے والا۔ اس کا خاندان بعد میں پیشدادیان کہلایا۔ فردوسی اسے دنیا کا پہلا بادشاہ کہتا ہے اور زرتشت مذہب کے ماننے والے تو کیومرث کو زمین پر پہلا انسان مانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کیومرث کی حکومت نہ صرف تمام انسانوں بلکہ جانوروں پر بھی تھی۔ مسلمان مؤرخ مسعودی کہتے ہیں کہ کیومرث نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کا پوتا تھا۔

بہرحال، کیومرث اور اُس کے بعد ہوشنگ، جمشید، اِیرج اور منوچہر کی دیومالائی داستانیں ہمارا موضوع نہیں ہیں اور نہ ہی اُن کی جگہ آنے والی کیانیوں کی حکومت، بلکہ ہم تاریخ کو مستند طریقے سے براہِ راست جوڑتے ہیں پہلی فارسی سلطنت سے۔

عظیم فارسی سلطنت

کوروش اعظم، سائرس دی گریٹ

ہخامنشی سلطنت جسے پہلی فارسی سلطنت بھی کہتے ہیں، 550 قبلِ مسیح میں کوروشِ اعظم یعنی Cyrus the Great نے قائم کی تھی۔ خشیارشا اوّل نے اپنے عروج پر پہنچایا۔ یہ سلطنت قدیم یونان اور مصر سے لے کر دریائے سندھ تک اور شمال میں وسط ایشیا سے نیچے موجودہ عمان تک قائم تھی۔ وسط ایشیا میں بحیرۂ قزوین یعنی کیسپیئن سی سے لے کر ماورا النہر کا تمام علاقہ بھی ان کی سلطنت کا حصہ تھا۔ اس عظیم سلطنت کا خاتمہ 330 قبلِ مسیح میں ہوا لیکن اس دوران وسطِ ایشیا میں بہت کچھ بدلا۔ زیادہ تر جس قوم کا راج رہا، وہ ساکا تھی، انہیں سکوتی بھی کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی میں Scythians کہتے ہیں۔

سکوتی یا ساکا قوم

ساکا قوم کے علاقے سرخ رنگ میں ظاہر ہیں

ساکا ایک آزاد منَش قوم تھی۔ کوئی خاص تہذیب نہ رکھتی تھی، نہ ہی اپنی تاریخ کو کسی تحریری صورت میں محفوظ کیا۔ اُن کا جو احوال بھی تاریخ میں ملتا ہے، وہ سب دوسری اقوام کا لکھا ہوا ہے، خاص طور پر اُن کے ہاتھوں جو تجارت کے لیے ساکا سے رابطے میں رہتے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ساکا کے مراکز بھی بدلتے رہے، کیونکہ وسطِ ایشیا کا خطہ ہی ایسا تھا، جہاں کبھی کوئی غالب تو کبھی مغلوب۔ بہرحال، اِن صدیوں کے دوران وسطِ ایشیا کا ایک بڑا رقبہ ساکا قوم کے پاس ہی رہا۔ ساکا کے قدموں میں کبھی بحیرۂ اسود کے ساحل آئے، کبھی جھیل بائیکال کے کنارے۔ کبھی ایشیا اور یورپ کو تقسیم کرنے والے کوہِ اورال کا جنوبی دامن اُن کا مسکن بنا تو کبھی روس کا جنوبی حصہ۔ دریائے وولگا کے دہانے بھی ان کا وطن رہے تو کبھی قزاقستان کے بے آب و گیاہ میدان۔ تاریم کا طاس بھی اُن کا دیس رہا۔ یہاں تک کہ اس قوم کی پہنچ مشرقی پولینڈ، یوکرین، جنوب مغربی روس، شمال مشرقی بلقان بلکہ جنوبی افغانستان اور سیستان و بلوچستان تک بھی رہی۔

ساکا قوم کی پہلی سلطنت ساتویں صدی قبلِ مسیح میں قفقاز کے دامن میں قائم ہوئی اور چوتھی صدی قبلِ مسیح میں وہ اپنے عروج تھے، یہاں تک کہ تیسری صدی قبلِ مسیح میں تتر بتر ہو گئے۔

سکندرِ اعظم کی آمد

سکندر اعظم کی مہمات اور سلطنت کا عروج

یہ وہ دور تھا جب دنیا ایک عظیم فاتح کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ رہی تھی۔ یونان کے علاقے مقدونیہ سے تعلق رکھنے والا سکندر، جو کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سکندر نے تہذیب یافتہ دنیا کا بڑا حصہ فتح کیا۔ یونان کے بعد ایشیائے کوچک کی طرف قدم بڑھائے، ایرانی سلطنت کو فتح کیا، پھر وسطِ ایشیا کی طرف بڑھا اور اِس علاقے میں وہاں تک پہنچا، جہاں تک شاید پہلے کوئی بیرونی فاتح نہیں پہنچا تھا۔ سکندر نے اپنے نام سے دنیا میں کئی شہر بسائے، جن میں سب سے دُور دراز شہر موجودہ تاجکستان میں ہے۔ یہ شہر 329 قبلِ مسیح میں بنایا گیا تھا۔

یہی سال تھا کہ جس میں سکندر نے کوہ ہندوکش کے پار قدم رکھا اور بلخ کو فتح کیا، جو آج افغانستان میں ہے۔ پھر سمرقند پر جھنڈے گاڑے اور سَیر دریا کے کنارے Battle of Jaxartes یعنی معرکہ سیحوں میں ساکا قوم کو ہرایا۔ یہ لڑائی موجودہ تاشقند کے قریب لڑی گئی تھی، جو آج ازبکستان میں ہے۔

صرف چند سالوں میں سکندر وسطِ ایشیا کا بھی حکمران بن چکا تھا اور اب اُس کی نظریں ہندوستان پر تھیں۔ 327 قبلِ مسیح میں وہ دریائے کابل کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اٹک تک پہنچا اور دریائے سندھ عبور کیا۔ سندھ اور جہلم کے درمیان واقع ریاست کے حاکم سے معاہدہ کیا اور پھر جہلم عبور کر کے ایسی جنگ لڑی، جسے آج بھی دنیا بھر میں یاد کیا جاتا ہے۔ اسے 'معرکہ جہلم' کہتے ہیں، انگریزی میں Battle of the Hydaspes۔ اس جنگ میں سکندر کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن بہرحال فتح اُسی کو ملی۔ وہ بہادروں کا بڑا قدر دان تھا، اِس لیے اپنے حریف پورَس کی شجاعت و بہادری سے بڑا متاثر ہوا اور یہ علاقہ دوبارہ اسی کے حوالے کر دیا۔

سکندر اور پورس

سکندر اور اس کی فوج نے پھر واپسی کا سفر کیا۔ بابل پہنچ کر بیمار پڑ گیا اور 323 قبل مسیح میں وفات پائی، صرف 32 سال کی عمر میں۔

وسطِ ایشیا یونانیوں کے زیرِ نگیں

سلوقی سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں

سکندر کے بعد یونانی سلطنت اُس کے جرنیلوں میں تقسیم ہو گئی اور جلد ہی وسطِ ایشیا پر ایک جرنیل سلوقی اوّل کی حکومت قائم ہو گئی، جو سلوقی سلطنت کا بانی تھا۔ یہ سلطنت موجودہ ترکمنستان سے لے کر اناطولیہ تک پھیلی ہوئی تھی۔

پھر وسطِ ایشیا یونانیوں ہی کی ایک اور ریاست باختر کے حصے میں آیا، جس کا مرکز بلخ تھا۔ 125 قبلِ مسیح تک یہ حکومت قائم رہی، پھر یاوَن راج آیا، جسے ہند یونانی سلطنت یا Indo-Greek Kingdom بھی کہتے ہیں۔ اس کا مرکز تو پنجاب کا علاقہ تھا لیکن افغانستان کا بڑا حصہ اس میں شامل تھا یعنی اس کا بھی وسطِ ایشیا سے تعلق کسی نہ کسی طرح تھا۔

وسطِ ایشیا سے جُڑی ہوئی دو عظیم سلطنتیں

پارثی سلطنت کا زمانہ عروج

وسطِ ایشیا کی ایک قوم تھی پارثی یا پارتھیئن (Parthian)، جس نے خراسان کو اپنا مسکن بنایا اور پھر 249 قبلِ مسیح میں سلوقیوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ کئی معرکوں کے بعد انہوں نے سمرقند سے مرو تک کا علاقہ آزاد کروا لیا۔ بعد ازاں ایشیائے کوچک کے مشرقی علاقوں سے بلوچستان اور ترکمنستان کے جنوبی حصوں سے جزیرہ نما عرب کے مشرقی کناروں تک پارثیوں کا راج تھا۔ ایک معمولی حصے کے علاوہ وسطِ ایشیا کا زیادہ تر حصہ اُن کی دست برد سے آزاد رہا۔

کوشان سلطنت اپنے عروج کے دنوں میں

دوسری صدی سے چوتھی صدی عیسوی میں اِس خطے کے بڑے حصے پر ایک عظیم سلطنت قائم ہوئی، جسے کوشان سلطنت کہا جاتا ہے۔ کوشانیوں کا اصل تعلق شمالی چین سے تھا۔ یہ یوچی قبائل کا حصہ تھے اور ایک بڑی شکست کے بعد ہجرت پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے دریائے سیحوں کے کناروں کو اپنا مسکن بنایا، یہیں ان کا ٹکراؤ ساکا قوم سے ہوا۔ آہستہ آہستہ وہ مخالفین پر غالب آتے گئے اور پھر ایک بڑے علاقے پر ایک عظیم حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سلطنت کتنی بڑی تھی؟ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ موجودہ افغانستان، پاکستان اور شمالی ہندوستان بھی اس میں شامل تھے۔ اہم ترین شاہراہِ ریشم پر ان کا راج تھا۔ تہذیبوں کے سنگم پر موجود اس ریاست نے چین اور یورپ کے درمیان تجارت، خیالات اور ایجادات کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بدھ مت کو بھی خوب پھیلایا۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی عیسوی میں ان کو زوال آ گیا اور ساسانیوں کا دور شروع ہو گیا، ایک ایرانی خاندان جس کا راج وسطِ ایشیا پر بھی تھا۔

ساسانیوں کا دَور

ساسانی حکومت سندھ سے خوارزم اور سمرقند سے عراق تک پھیلی ہوئی تھی۔ بلکہ ایک زمانے میں تو انہوں نے رومیوں سے مُلکِ شام، ایشیائے کوچک اور مصر تک چھین لیا تھا۔ اندازہ لگائیے، سندھ سے لے کر مصر تک ایک ہی حکومت۔ اُن کے قدم تو قسطنطنیہ تک بھی پہنچ گئے تھے اور لگتا تھا مشرقی رومی سلطنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔ تب قرآنِ مجید نے وہ عظیم پیش گوئی کی، جس نے تاریخ کا دھارا پلٹ دیا۔

ساسانی سلطنت کا دورِ عروج، سن 621ء

ساسانیوں کے زوال کی پیش گوئی قرآن میں

یہ ساتویں صدی کے اوائل کا زمانہ تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ تب قسطنطنیہ میں ہرقل اوّل کو قیصر بنایا گیا، اُسی سال جس میں حضور نبیِ کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمِ کو منصبِ نبوّت ملا تھا۔

اُدھر ساسانی بادشاہ خسرو پرویز کو روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ مشرکینِ مکہ فطرتاً ساسانیوں کے حامی تھے کیونکہ وہ انہی کی طرح بت پرست تھے اور ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ جب دمشق، فلسطین اور پھر مصر بھی فتح ہو گئے تو مکے کے مشرکین مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے کہ تم جیسے اللہ، وحی اور رسول پر ایمان رکھنے والے کتنی بُری طرح شکست کھا رہے ہیں۔ تب قرآن مجید کی سورۂ روم نازل ہوئی، جس میں کہا گیا

"قریب کی سرزمین پر رومی مغلوب ہو گئے ہیں، مگر اس مغلوبیت کے چند سال کے اندر ہی وہ غالب آ جائیں گے اور وہ دن وہ دن ہوگا جب اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہلِ ایمان خوش ہو رہے ہوں گے۔"

جب تک آٹھ سالوں میں قرآن مجید کی پیش گوئی پوری ہوتی، تب تک عرب میں بہت کچھ بدل گیا۔ جب 622ء میں ہرقل ایران پر عقب سے جوابی وار کر رہا تھا تو یہ وہی سال تھا جس میں مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کر رہے تھے۔ 623ء میں آرمینیا اور آذربائیجان چھینا تو اِدھر مسلمان غزوۂ بدر میں تاریخی فتح حاصل کر چکے تھے۔

معرکہ نینویٰ، قیصر و کسریٰ کے مابین فیصلہ کن معرکہ

بہرحال، 627ء میں معرکہ نینویٰ میں ہرقل نے ایرانی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ساسانیوں کے دارالحکومت مدائن تک پہنچ گیا۔ یہ صورت حال دیکھی تو ایرانیوں نے خسرو کے خلاف بغاوت کر دی۔ اسے تخت سے اتار کر قید کر دیا گیا، خاندان کے کئی لوگوں کو مار دیا گیا اور پھر قید خانے ہی میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ وہی خسرو پرویز تھا جس نے چند سال پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو پھاڑ ڈالا تھا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ اللہ خسرو کی سلطنت کے بھی اسی طرح ٹکڑے کرے گا۔

ساسانیوں نے ہرقل کو تمام علاقے واپس کیے۔ 629ء میں قیصر ایران سے وہ مقدس صلیب واپس بیت المقدس لایا، جو خسرو اپنے ساتھ لے گیا تھا، جبکہ یہی وہ سال تھا جب مسلمان ہجرت کے بعد پہلی بار مکہ مکرمہ میں عمرہ کر رہے تھے۔

ساسانیوں کا خاتمہ

بہرحال، ساسانیوں کا اقتدار ختم نہیں ہوا تھا، یہ سعادت بالآخر مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ساسانیوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد مسلمانوں کے قدم وسطِ ایشیا میں تھے۔

اگلی قسط میں ہم وسطِ ایشیا میں مسلمانوں کی آمد، ابتدائی فتوحات، عظیم فاتح قُتیبہ بن مسلم، ترک قبائل کی بغاوت، نصر ابن سیار کی فتوحات اور ماورا النہر، سمرقند، بخارا،فرغانہ، خوارزم اور بلخ کی دوبارہ اسلامی سلطنت میں شمولیت کی داستان بیان کریں گے یعنی اب ہمارا یہ تاریخی سلسلہ بہت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment