ہوم << دو کلاس فیلوز کی چوالیس سالوں بعد لندن میں ملاقات کی روداد - چوہدری محمد ذوالفقار

دو کلاس فیلوز کی چوالیس سالوں بعد لندن میں ملاقات کی روداد - چوہدری محمد ذوالفقار

دسمبر2017 میں مارک اینڈ سپینسر میں کرسمس سیل شروع ہو چکی تھی میں سیل خریداری کے لئیے مارک اینڈ اسپینسر کے دوسرے فلور پر مردانہ سیکشن میں جانے کے لئیے سٹیر لفٹ پر جا رہا تھا تو دوسری طرف سے نیچے آتی ہو سٹیر لفٹ پر سوار ایک صاحب مجھے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔

میں اس کو اگنور کرتے ہوئے مردانہ سیکشن جا کر ایک جمپر کو بغور دیکھ رہا تھا کہ اسی شخص نے مجھے اسلام علیکم کہہ کر پوچھا کہ آپ ذوالقرنین ہیں۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو ان صاحب نے بے تکلفانہ انداز میں کہا ، یار ذوالقرنین مجھے تم نے نہیں پہنچانا ، اور خود ہی بتایا میں تمہارا کلاس فیلو خالد ہوں۔ اور پھر ہم دونوں اپنے ادھر گرد کی پرواہ کئیے بغیر پاکستانی اسٹائل میں بغل گیر ہو گئے۔ تیسرے فلور پر ریسٹورینٹ میں بیٹھتے ہی میں نے خالد کا شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے چوالیس سال کے بعد پہنچان لیا ہے۔ خالد نے بتایا کہ وہ چالیس سالوں سے لوٹن میں رہ رہا ہے۔ ہم بہت دیر تک کالج اور کالج فیلوز کی باتیں کرتے رہے ، پھر میں نے پوچھا یار خالد تم بہت بوڑھے ہو گئے ہو۔ اگر تمہیں ایک فقرہ میں جواب دوں تو میرا جواب یہ ہوگا کہ ہم نے پاؤنڈز کما لئیے ہیں اور بچے گنوا دیے ہیں۔

خالد نے دکھ بھرے لہجہ میں کہا خالد تم تسلی سے جواب دو چوالیس سالوں بعد ملاقات ہوئی ہے ، جی بھر کر بیٹھتے ہیں۔ میں نے بیرے کو بلا کر دو کافی اور لانے کو کہا۔ خالد نے بتایا کہ میرے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں بچوں کو گرائیمر اسکولوں میں تعلیم دلائی ، کالج اور یونیورسٹی پڑھایا ہے۔ بچے جب گوروں کی طرح مٹک مٹک کر چلا کرتے تو میں بہت خوش ہواکرتا تھا ہر ایکشن میں گوروں کی نقالی ہی کو ماڈرن ازم سمجھا کرتا تھا۔ میرے بچے اسلام علیکم ، اللہ حافظ کی بجائے ہیلو ہائے اور گڈ بائے کہتے تو میں اپنی بیگم سے کہا کرتا دیکھو یہ آج کی جدید زندگی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ان جدید تقاضوں کو مد نظر نہ رکھا تو ہمارے بچے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔ میں مزہب کو ہر انسان کا ذاتی فعل سمجھتا رہا ہوں۔ مذہب کا معاشرت سے تعلق دقیانوسیت خیال کیا کرتا تھا۔ میں نے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کے ساتھ انگلش معاشرت کے سارے آداب اپنانے کے لئیے انکے ساتھ بھرپور معاونت کی۔ میرے بچوں نے اعلی تعلیم حاصل کی اور یورپین معاشرت کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے اپنا اپنا لائف پارٹنر خود ہی منتخب کر لیا ہے۔

بڑی بیٹی نے افریقن کالے کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ چھوٹی بیٹی گورے کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ کے تحت رہتی ہے۔ بڑا بیٹا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ آسٹریلیا میں رہتا ہے۔ چھوٹے بیٹے کی ہندو لڑکی کے ساتھ دوستی ہے۔ بیٹیاں کبھی کبھی حال احوال پوچھنے آ جاتی ہیں ، بیٹے تو شائید ہمارے تھے ہی نہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی گھر میں اکیلے بچوں کو یاد کرتے اور یورپین معاشرت کو گالیاں دیتے دن گزار رہے ہیں۔ آج میری بیگم برمنگھم اپنے بھائی کے پاس گئی ہے اور میں یہاں لندن ٹائم پاس کرنے آیا ہوں۔ میری بیگم کے بھائی کے بھی یہی حالات ہیں۔بلکہ انگلینڈ میں بسنے والے ہر دوسرے گھر کی یہی کہانی ہے اپنے ہاتھوں اپنی کی گئی بربادی نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔ اپنی کہانی سنا کر خالد نے افسردگی سے پوچھا یار تمہارے حالات کیسے ہیں۔ میں نے کہا خالد میرے دو بیٹے ، چار بیٹیاں ہیں اور سارے شادی شدہ ہیں۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی انجوائے کر رہا ہوں۔ تمہارے بچے یونیورسٹی نہیں گئے ہونگے۔

خالد نے حیرانگی سے پوچھا۔ میرے سارے بچے یونیورسٹی پڑھے ہیں میری ایک بیٹی فیتھ ہائی اسکول کی ہیڈ ٹیچر رہی ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا بی ایم ڈبلیو میں منیجر تھا۔ اس کی اسی ہزار پاؤنڈز تنخواہ تھی اس نے جاب اس لئیے چھوڑ دی ہے کہ اس میں سود کی آمیزش ہے ، منیجر کی جاب چھوڑ کر ٹیکسی چلا رہا ہے۔ میری چاروں بیٹیاں اور دونوں بہو شرعی پردہ کرتی ہیں۔ میری چھوٹی بیٹی اپنی یونیورسٹی میں اسلامک سوسائٹی کی ہیڈ تھی اور اسکے ہاتھوں تین نان مسلم لڑکیوں نے کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کیا تھا۔ برٹش گورنمنٹ نے جب سے اسکولوں میں اویرنس کے نام سے بے حیائی پڑھائی شروع کی ہے ، میرے پوتے ، پوتیوں اور نواسے ، نواسیوں کو انکے والدین ہوم اسکولنگ سے تعلیم دے رہے ہیں۔ میری دوسری بیٹی کا آٹھ سالہ بیٹا چوتھی کلاس میں پڑھتے ہوئے ، چار سیپارے حفظ کر چکا ہے۔

خالد ہمیں انگلش معاشرت کو گالی نہیں دینی چاہئیے ہمیں اپنی غلطی اپنی کوتاہی تسلیم کر کے ہونے والے نقصان کے سدباب کے بارے سوچنا چاہئیے اپنے تجربات لوگوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہئیں تاکہ لوگ یورپین معاشرت کی نقالی کے نقصانات سے بچ سکیں۔ عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص لوگوں نے یورپین نقالی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ لگا رکھی ہے پاکستان میں حکومتی سطح پر پاکستانی معاشرہ کو یورپین معاشرہ میں تبدیل کرنے کے لئیے زوردار مہم جاری ہے۔ سیکولر لکھاریوں اور اینکرز کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جا رہی ہیں انگلش میڈیم اسکولوں کی بھرمار بھی اسی مقصد کے لئیے ہے پاکستان میں مذہب بیزار لوگ ( سیکولر ) دھڑا دھڑ یورپین معاشرت اپنا رہے ہیں۔لوگوں کو بے دین اور مذہب بیزار بنا رہے ہیں۔

جاوید چوہدری نے اپنے کالم خطوط کی آخری کتاب میں لکھا ہے۔ ہم اس ملک کی آخری نسل ہیں جس نے اپنے ماں باپ کے حکم پر شادی کی تھی اور پہلی نسل ہونگے کہ بچوں کی شادی پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں گے کیوں کیونکہ ہمارے بچوں کے بچے شادی کے بندھن ہی سے آزاد ہو چکے ہونگے۔ یہ لیونگ ریلیشن شپ پر چلے جائیں گے۔ جاوید چوہدری کے یہی الفاظ میری اس تحریر کا محرک ہیں۔ مگر چوہدری صاحب نے سچ نہیں لکھا ، جاوید چوہدری کو لکھنا چاہئیے تھا کہ ہم سیکولرز اس ملک کی آخری نسل ہیں۔سیکولرز ہی کی اگلی نسل لیونگ ریلیشن پر جائیگی۔ یہی پورا سچ ہے وہ لوگ جو قرآن و سنت کا دامن تھام کر زندگی گزار رہے ہیں۔

انہیں اپنی اولادوں کے ریلیشن شپ پر جانے کا کل خدشہ تھا نہ آئیندہ ہوگا۔ پاکستان ہو یا یورپ وہ معاشرہ سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے دیندار بننے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لہروں کے ساتھ لاشیں بہتی ہیں ، تیراک مقابلہ کرتے ہیں۔سیکولر لاشیں ہیں اور انکے اذہان مردہ ہیں۔ دیندار زندہ لوگ ہیں لوگوں کے ایمان کو جلا بخشنے کا سبب بنتے ہیں۔ یورپین معاشرت کی ماں بریطانیہ کی یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے بھی دین اسلام کو پھیلاتے ہیں۔ مردہ لوگ اسلامی جمہوری پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں رہ کر بھی اپنی اولادوں کے لیونگ ریلیشن شپ پر جانے کا نوحہ لکھنے پر مجبور ہیں۔

جاوید چوہدری کے شکست تسلیم کرتے الفاظ گواہ ہیں کہ بقا ہمیشہ سچ کو ہے۔ سیکولر ازم ہو یا کوئی اور ازم ذلت کی پستی اسکا مقدر ہے۔ کیونکہ دین اسلام خالق کائینات کا انسان کے لئیے تخلیق کردہ نظام ہے۔ اس کی پیروی کرنے والے اولادوں کے نوحے نہیں لکھتے ، بلکہ انکی اولادیں انکے لئیے صدقہ جاریہ ہوتی ہیں۔

Comments

Click here to post a comment