اخبار میں ایک خبر چھپی ہے۔ اپنے مزاج کے مطابق اسے سنجیدہ خبر بھی کہہ سکتے ہیں اور مزاحیہ بھی ۔ خبر یہ ہے کہ ایک شہری شیخ مظفر نے لاہور کی عدالت میں سابق وزیراعظم عمران کے خلاف اس بناء پر اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کی ہے کہ ایک خطاب میں انہوں نے پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی بات کی تھی۔
درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان نے یہ کہہ کر کہ موجودہ حکومت کو لانے سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جاتا‘ دراصل عوام کو دھمکی دی ہے اور یہ کہ ان22 کروڑ عوام میں میرے اہلخانہ اور میں خود بھی شامل ہوں چنانچہ اس دھمکی پر مقدمہ درج کیا جائے۔ اس درخواست پر کیا فیصلہ ہو گا؟ بالعموم ایسی درخواستیں خارج ہو جایا کرتی ہیں لیکن اسی دوران الگ سے بھی مخبری’’دھمکی‘‘ عوام اور تبصرہ نگاروں کی نظر سے اوجھل رہ گئی۔ سیالکوٹ کے جلسے میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تحریک پاکستان میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔ آج اپنی قوم سے وہی قربانی مانگ رہا ہوں۔
خان صاحب نے کیا فرمائش کی؟۔ تحریک پاکستان یا آزادی کے وقت سب سے زیادہ یہ خونریزی پنجاب میں ہوئی۔ لاکھوں افراد شہید ہوئے۔ حتمی تعدادمیرے پاس نہیں کیونکہ تھانوں کے سارے ریکارڈ تتر بتر ہو گئے لیکن دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر اکثر مؤرخوں کا اتفاق ہے کہ پانچ لاکھ مسلمان اس دوران شہید ہوئے اور ڈیڑھ سے دو لاکھ جموں میں جو شہید کئے گئے وہ اس سے الگ ہیں۔
چلئے‘ جموں کو الگ کر لیتے ہیں پھر بھی پانچ لاکھ قتل بہت بڑی تعداد ہے اور خان صاحب کے الفاظ ہیں کہ ’آج آپ سے وہی قربانی مانگ رہا ہوں۔ خان صاحب کی زندگی بہت قیمتی ہے یہ ہم بھی جانتے ہیں لیکن اتنی قیمتی کہ انہیں پھر سے حکومت دلانے کیلئے پانچ لاکھ…… چلئے چھوڑیئے۔ بہر حال بظاہر ان کی یہ بات دھمکی کے ضمن میں نہیں ہوتی‘ اسے فرمائش کہا جا سکتا ہے اور فرمائش پر مقدمے نہیںبنا کرتے۔
برطانوی ملٹری انٹیلی جنس نے رپورٹ جاری کی ہے کہ یوکرائن پر حملہ آور روسی فوج کا ایک تہائی حصہ مارا جا چکا ہے۔ اور اہم شہر ڈوبناس کی طرف روس کی جارحانہ پیشقدمی رک چکی ہے۔ دیگر یورپی ذرائع کے مطابق یوکرائن پر فروری سے شروع ہونے والے حملے میں اب تک روس کے 27 ہزار 7 سو فوجی مارے گئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یورپی ذرائع کے مطابق تین ساڑھے تین مہینے کی جنگ میں روس کے 200 جنگی طیارے‘ 165 ہیلی کاپٹر‘ 427 ڈرون طیارے‘ 1228 ٹینک‘ 2974 بکتر بند گاڑیاں 577 توپیں‘ 195 راکٹ لانچر‘ 97 کروڑ میزائل اور 89 طیارہ شکن سسٹم تباہ ہو چکے ہیں۔
جنگی تاریخ میں یہ منفرد قسم کی شکست ہے جس کا روس کو سامنا ہے۔ فروری میں روس کا یہ اعلان تھا اور امریکی محکمہ دفاع کا اندازہ بھی کہ ایک ہفتے کے اندر اندر پورے یوکرائن پر روس کا قبضہ ہو جائے گا۔ روس کے سامنے یوکرائن ایک ’’غیر فوجی‘‘ ملک ہے۔ بہت مختصر فوج اور ننھا منا سا اسلحہ خانہ۔ روس اسے کسی خاطر میں نہیں لاتا تھا لیکن یوکرائنی فوجی اور عوام نے جو مزاحمت کی‘ اس کا خدشہ روس کو تھا نہ اس کی توقع امریکہ اور باقی مغرب کو۔
روس سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن دراصل تو دفاعی منی سپر پاور بھی نہیں ہے۔ اتنی پاور اس کے پاس نہیں ہے جتنا غرور‘ یوکرائن کے معاملے نے اسے نقصان اور شرمندگی دونوں سے دو چار کیا ہے .
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے ’’پیوٹن‘‘ مگر بنا نہ گیا
قارئین معذرت چاہتا ہوں کہ شعر کو حسب حال سنانے کیلئے مصرعہ ثانی میں سرگانہ کے بجائے پیوٹن کا نام جڑ دیا۔ روس نے یوکرائنی کا بہت نقصان کیا۔ اس کے سارے ائر پورٹ سٹرکیں‘ ریلیں تباہ کر دیں اور اس کی فوج کے رابطے بھی کاٹ ڈالے لیکن اس ’’بے رابطہ‘‘ اورافرادی قوت سے محروم یوکرائن نے روس کو ایسے ناکوں چنے چبوائے کہ اسے افغانستان بھول گیا۔
روس کی معیشت بھی برباد ہو رہی ہے اور دن بدن میدان جنگ سے آنے والے تابوتوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے عوام میں بے چینی بھی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں کچھ عجب نہیں کہ خود روس کے اندر سیاسی دھماکہ ہو جائے۔
روس نے حملے کا جواب یہ بتایا کہ یوکرائن میں نیٹو نے اڈے بنائے ہیں جو اس کی سالمیت کیلئے خطرہ ہیں۔ یہ سفید بلکہ بہت ہی سفید جھوٹ تھا۔ اصل جھگڑا توسیع پسندی اور نسل پرستی کا تھا۔ سوویت زمانے میں روسی باشندوں کی ایک بڑی تعداد شمال مشرقی اور مشرقی جزیرہ نمائے کرائمیا میں بھی روسیوں کی اکثریت ہو گئی تھی۔ روس ہر علاقہ ہتھیانا چاہتا تھا۔ چند سال پہلے اس نے کرائمیا یوکرائن سے چھین لیا اور اب مشرقی اور شمال مشرقی علاقے ہتھیانے کی مہم شروع کر دی۔ یورپ اور امریکہ نے یوکرائن کو بڑے ہتھیار نہیں دیئے لیکن طیارہ شکن میزائل اور ڈرون طیاروں کی کھیپ ضرور دی ہے۔
یو کرائن کے بحران کی وجہ سے یورپی ممالک میں گندم کی سپلائی متاثر ہوئی تو انہوں نے بھارت سے گندم درآمد کرناشروع کر دی۔ بھارت نے اب گندم کے دام بڑھانے کیلئے اس کی برآمد روک دی ہے جس سے مغربی یورپ کے کئی ممالک میں آٹے کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستان دو سال پہلے تک گندم برآمد کیا کرتا تھا ۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن پھر پاکستانی گندم کی فصل کو نظرلگ گئی یعنی ’’بمپر پیداوار‘‘ ہوئی جیساکہ عمران خان نے بتایا ’’بمپر پیداوار‘‘ کے نتیجے میں پاکستان کو گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ کاش ہم ’’بمپر پیداوار‘‘ سے محروم رہنے اورآج یورپ کو گندم برآمد کرکے پیسہ کما رہے ہوتے
تبصرہ لکھیے