سید مودویؒ کی فکر سے وابستہ بعض حضرات و خواتین رات دن سوشل میڈیا پر "نواز اچھا "اور "عمران اچھا" کی بحث میں مصروف ہیں۔ ہمارے بعض بھائی تو اپنے مخالفین پر باقاعدہ تبرّا کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ جن لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دعوت کے عظیم الشّان کام پر لگایا تھا،انہوں نےوہ کام چھوڑدیا، توبطور سزا ان کو گٹر چھاننے اور گندے کیڑے نکالنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ گزشتہ روز دو ایسے ہی اصحاب کو ایک بے کار تحریری جنگ لڑتے دیکھ کر مجھے مولانا غلام حقّانی مرحوم کا بیان کردہ واقعہ یاد آیا۔ پہلے مولانا غلام حقانی کا تعارف کرا دوں۔
مولانا غلام حقّانی مینگورہ سوات کے رہنے والے تھے۔1970ء کے عشرے میں جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختون خوا کے امیر رہے۔ مجھے ان کے ساتھ صوبہ خیبر پختون خوا(تب صوبہ سرحد) کےدو طویل سفر کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔ ایک مرتبہ میں ان کے ہمراہ کوہاٹ، ٹانک، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کےایک ہفتے کے دورے پر گیا اور دوسری بار دیر اور چترال جانے کا موقع ملا۔ اس موقعے پر میں نے ان کے ہمراہ دو ہفتے گزارے۔ قیم جماعت منظور حسین باچہ اورمولانا عبدالرحیم چترالیؒ بھی محترم امیر صوبہ کے ساتھ تھے۔ فرصت کے اوقات میں مجھے حقانی صاحب سے ان کی انقلاب آفریں زندگی کے اہم واقعات سننے کاموقع ملتا رہا۔ آج میں ان کی نوجوانی کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ان کی زبانی پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا غلام حقانیؒ نے مجھے بتایاتھا :
" میں پاکستان کے قیام کے زمانے میں دلّی کی ایک دینی درس گاہ میں زیر تعلیم تھا کہ بٹوارہ ہو گیا۔ خونی فسادات کی وجہ سے میرے لیےدلّی سے نکل کر پاکستان آنا دشوار ہو گیا۔ مدرسے میں ہندوؤں نے بار بار مجھےمارنے کی کوشش کی،لیکن میں ہر بار جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوتا رہا۔ ایک مرتبہ ایک انتہا پسند ہندو تلوار لے کر آگیا۔ وہ سائیکل پر سوار تھا،اس نے تلوار سے میری گردن اڑانے کی کوشش کی، لیکن میں نے پھرتی سے ایک اینٹ اٹھا کر اسے دےماری۔ اس طرح میں بچ گیا اوروہ گر کر مر گیا۔ اس کے بعد میں بھاگ کردہلی کے ریلوے سٹیشن پہنچا اورکئی بار ریل گاڑیاں تبدیل کر کے اور لاشوں میں دب کرسفر کرتا ہوا بالآخر پاکستان پہنچ گیا۔
پاکستان پہنچ کر سیدھا اپنے گھر گیا۔ کچھ عرصہ گھر میں رہا۔ اس کے بعد میرے والد صاحب مجھے ساتھ لے کر مردان پہنچے اور ایک دینی درس گاہ میں داخل کرادیا، تاکہ میں اپنی ادھوری دینی تعلیم مکمل کرسکوں۔ یہ ہنگاموں کا دور تھا۔ میرا دل پڑھنے میں نہیں لگتا تھا۔ہندوستان سے لاکھوں لوگ پاکستا ن آئے۔مردان سے اکثر ہندو گھرانے شر نارتھی بن کر ہندوستان چلے گئے،لیکن ہندوستان سے کم ہی کوئی مسلمان مہاجر ہو کر مردان آیا۔ مردان میں ہندوؤں کی متروکہ جائیدادوں کے نگران ہمارے ایک شنا سا (سینیٹر ڈاکٹر مراد علی شاہ کے والد) تھے۔ ایک روز انہوں نے مجھے بلایا اور کہا، میرے پاس ایک ہندوخاندان کی چھوڑی ہوئی جائیداد ہے جس کا وارث کوئی نہیں،ایک چکی، ایک کولھو اور چھ دکانیں ہیں، ان کالینے ولا کوئی آیا نہیں ،مجھے ڈر ہے کوئی دھوکا کر کے اس پر قبضہ نہ کر لے۔ تم حال ہی میں ہندوستان سے آئے ہو ،میں چاہتا ہوں کہ یہ تمھارے نام لگا دوں۔انھوں نے چند کا غذات پر میرے دستخط کرائے اور چابیاں مجھے دے دیں۔ میں نےتعلیم چھوڑی اوراس مفت میں ہاتھ آئی ہوئی دولت کے انتظام و انصرام میں مصروف ہو گیا۔ابھی ایک مہینہ نہیں گزرا تھا کہ میرے پاس ایک سو روپے سے زیادہ رقم جمع ہو گئی۔تب ایک سو روپےآج کے ایک لاکھ سے سے کہیں زیادہ تھے۔
دریں اثنا کسی نے میرے والد صاحب کو میرے احوال کی خبر کردی۔ میرے والد صاحب مردان تشریف لائے۔ مدرسے گئے،وہاں مجھے نہ پایا ،توشہرمیں ڈھونڈ کرمجھے ملے۔ میری حالت دیکھی، میرا حلیہ عجیب ہو رہا تھا۔ کپڑوں پر سرسوں کا تیل لگا ہوا تھا اور اس پر آٹے کی تہ جمی ہوئی تھی،جس سے کپڑے کا رنگ بالکل تبدیل ہو گیا تھا۔ والد صاحب میرا حلیہ دیکھ کر بہت افسردہ ہوئے۔صرف ایک فقرہ انہوں نے کہا ،جو مجھے شرم سے زمیں میں گاڑنے کے لیے کافی تھا۔انہوں نے فرمایا:" میں نے تمھیں دین کا علم پڑھنے کے لیے چھوڑا تھا، تم نے دین سے منہ موڑا، اللہ نے تمہیں"جندرئی"بنا دیا۔ یاد رہےجندر ہمارے ہاں پن چکی کو کہا جاتا ہے۔ پن چکی کے رکھوالے کو جندرئی کہا جاتا ہے۔
مولانا غلام حقّانی مرحوم کی زندگی تو اس کے بعد یک سر تبدیل ہو گئی ۔اس کی کچھ تفصیل آئندہ (بشرط زندگی) عرض کروں گا، لیکن سر دست میں چاہتا ہوں کہ یہ واقعہ بیان کرنے کی وجہ عرض کروں۔ مجھے ایسا لگتا ہے آج کل جماعت اسلامی کے بہت سے کارکن دین کا کام چھوڑ کر "جندرئی" بن گئے ہیں۔ انھوں نے جان بوجھ کر یہ شغل اختیار نہیں کیا، بلکہ جب انہوں نے دین کا کام چھوڑا، تو اللہ نے ان کو بلندی سے پستی میں گرا دیا۔جندرئی بنا دیا، بلکہ اس سے بھی پرے کر دیا۔اللہ کے دین کی دعوت جیسا باعظمت کام چھوڑ کر وہ اس شغل بے کاری میں لگ گئے کہ عمران اچھا ہے یا نواز۔۔۔۔۔ زرداری اچھا ہے یا فضل الرحمان؟
کیا آپ نے اس پرکبھی غور کیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزت والا اور باعظمت کام کیا ہے؟ اللہ سبحانہ و تعالیِٰ قرآن پاک میں ہمیں بتاتے ہیں کہ اللہ کے دین کی دعوت سے زیادہ عظیم کام اور کوئی نہیں: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ {اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں}
اس عظیم اور بہترین کام کو ہم نے چھوڑدیا،تو نہ صرف اہل باطل کی ہم نوائی اورپیش وائی ہمیں اختیار کرنی پڑی ،بلکہ جا بجا مردہ بھائی کا گوشت کھانا بھی ہمارا مقدّر بنا۔ حالانکہ فطرت انسانی اس سے ابا کرتی ہے۔ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ [اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے ۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوۓ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا ؟ تم خود اس سے گھن کھاتے ہو]
اگر کوئی اس کام سے گھن کھاتا ہو تواسے چاہیے کہ اسے چھوڑ دے۔آئیں اللہ سبحانہ و تعالی سے رو رو کر دعا مانگیں کہ بار الٰہ کہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم سے آپ کے دین کی دعوت کا کام چھوٹ گیا ،ہمیں پھر سے اس کام میں لگا دیں۔ پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو آخری صف میں ہی شامل فرما دیں۔ یہاں بھی جگہ نہ ہو تو جوتے اٹھانے والوں میں ہی جگہ عنایت فرما دیں۔ اگرآپ نے ہماری توبہ قبول نہ فرمائی ، ہمیں اپنے دین کے لیے قبول نہ فرمایا۔ تو ہم تباہ ہو جائیں گے،برباد ہو جائیں گے۔ اے ارحم الراحمین، آپ ہم پر رحم فرمائیں،ہماری توبہ قبول فرمائیں !! آمین یا رب اللعالمین۔۔
تبصرہ لکھیے