ہماری ایک بہن یا بیٹی نے میری ایک تحریر پر تبصرے میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا ہے کہ عمران خان پاکستان کی آخری اُمید ہے۔ اپنی پیاری بیٹی کو صرف یہی جواب دے سکتا ہوں کہ آخری تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو آچُکے ہیں اس کے بعد وہ دروازہ قیامت تک کے لئے بند ہو گیا ہے۔ باقی اللہ ملک و قوم کو سلامت رکھے ہم نہ ہوں گے ہمارے بعد کوئی اور ہوگا یہی معاملہ لیڈر شپ کا ہے۔قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ امریکی قیادت اسے پسند نہیں کرتی ۔ باقی زبان کو بتّیس دانتوں کے درمیان محفوظ رکھنے کے لئے جو حکمت چاہیے۔وہ اس سے قطعی محروم ہے۔ ورنہ اس کی ذمہ داری ہی تھی کہ دشمن و مخالفین کی تعداد کم سے کم کرتا۔ لیکن یقیناً اسوقت امریکہ کھُلا مخالف ہے، اور سعودی عرب و چین کے ساتھ بھی پہلے جیسی گرم جوشی کو سرد مہری میں تبدیل کرکے دشمنوں کو دوست تو کیا بناتا اس مشکل وقت میں دوستوں کی تعداد بھی کم کرگیا۔
مجھے نوجوانوں کی اس کے لیے حمایت پر کوئی حیرت نہیں کہ اس کے زبان و لہجہ جو ایک طرف بین القوامی تعلقات کے لئے نقصان دہ ہوتو لیکن درحقیقت angry young man کے دل کی آواز لگتی ہے لیکن بعض سیاست کے گرم و سرد چشید دوستوں پر بہرحال حیرت ہوتی ہے وہ کیسے اس زبانی فائرنگ سے متاثر ہو گئے۔ خیر میں دوستوں اور محبتوں کی قدر کرتا ہوں۔ ان کے احترام میں جان بوجھ کر بعض سوالات یا ان کے جوابات سے پہلو تہی کرتا ہوں کہ جب سیاست عقیدہ بن جائے تو میں عقیدے و عقیدت پر مباحثے کرنا دوستی و تعلقات میں بگاڑ نہ کردے۔
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
جب ہم نوجوان تھے سیاسی تحاریک کے حصہ بھی رہے، یہی جذباتیت کا دور ہم پر بھی گزر چُکا ہے، یہ الگ بات تھے اس وقت ہمارے بزرگ و مینٹر اگلے وقتوں کے سیاستدان تھے اس لئے کچھ بہ کچھ روک ٹوک باقی تھی۔ آج کی مادر پیدر آزاد سیاست میں ان کے رویوں پر اعتراض تو کرتے ہیں لیکن اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ کہ خود رو جھاڑی اور کسی باغبان کے ہاتھوں تراشی ہوی کیاری کا فرق تو رہے گا ہی۔ ہماری سیاسی مشاہدے کی عمر کم از کم تین چار دہائیوں کی ہے۔ جب کہ موجودہ عاشقین کی جسمانی عمر سے قطع نظر سیاست میں دلچسپی کی عمر چند سالوں سے یا بمشکل ایک دہائی سے زیادہ نہیں ہے۔ کیا ان سے یہ توقع رکھنا جوکچھ ہم نے دہائیوں کے تجربے و مشائدے سے حاصل کیا وہی آج سیکھ سکتے ہیں۔
پھر بھی یہ ایک بڑی بات ہے چاہے کسی کے عشق کے بہانے ہی سہی انہوں نے ملک و قوم کے معاملات میں دلچسپی لینا تو شروع کی ۔۔ یقین یہ ابتدائی قدم ہے وقت کے ساتھ ساتھ یقیناً ان کی سمجھ اور سوچوں میں بلوغت آئے گی۔ ساری سیاسی و دینی و دیگر نظریاتی جماعتوں کا لٹریچر و میڈیا چینل درحقیقت سکھانے سے زیادہ برین واشنگ کا ٹول ہوتا ہے۔ اب شوشل میڈیا کے کاندھوں پر بڑے پیمانے پر مصنوعی انٹیلی جنس کے بھی حملے۔۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
آج سوشل میڈیا پر ہر جماعت کے زومبی موجود ہیں۔ بس انسان بننے کی کوشش کریں زومبی نہیں۔زومبیوں کو انسان بنانا سب سے مشکل کام ہے درحقیقت۔ ساری سیاسی و نظریاتی جماعتیں اپنے اپنے حصے کے زومبی پیدا کرنے میں لگی ہی۔ اسلامی زومبی، انصافی زومبی ، پٹواری زومبی ، لبرل زومبی جیالا زومبی اور نہ جانے کیا کچھ ۔۔۔ سب اپنے اپنے حصار میں مقید۔۔۔۔ کنوئیں کے مینڈک۔۔
دوستوں نوجوانوں سے صرف اتنی درخواست ہے کہ مطالعے و مشاہدے میں تنوع رکھیں۔ورنہ جو بھی کوئی ان اندیکھے حصاروں کے قید سے نکل کر اپنی نظر و مطالعے کو وسیع و متنوع نہیں کرے گا۔۔۔ وہ نرا زومبی ہی بن کررہ جائے گا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سوسائیٹی بڑی حدتک کنفرمسٹ سوسائیٹی ہے۔ آزادنہ سوچ و فکر کو کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا. نک کٹوں کے شہر میں ناک والا نکّو بن جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے